1
Monday 17 Aug 2020 15:45

کیا امریکہ سلامتی کونسل سے بھی نکل جائے گا؟

کیا امریکہ سلامتی کونسل سے بھی نکل جائے گا؟
تحریر: احسان شیخون

حال ہی میں امریکہ کو ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ تاریخی ناکامی اس وقت سامنے آئی جب امریکہ نے ایران کے خلاف اسلحہ کی تجارت پر پابندیوں کی مدت بڑھانے کیلئے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی۔ یاد رہے یہ پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 19 اکتوبر 2007ء کے دن عائد کی گئی تھیں اور ان کی مدت 13 سال تھی۔ یوں یہ پابندیاں اس سال 19 اکتوبر کے بعد خودبخود ختم ہو جائیں گی۔ ان پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران سرکاری سطح پر اسلحہ کی خرید و فروخت کا مجاز ہوگا۔ امریکہ نے سلامتی کونسل کی ان پابندیوں کی مدت میں اضافے کی سرتوڑ کوششیں کیں لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ کی قرارداد کے حق میں صرف دو ووٹ ڈالے گئے جبکہ دو ووٹ مخالف اور گیارہ ووٹ بے طرف تھے۔ یہ شکست امریکہ کی تاریخ میں بے سابقہ ہے۔ اس ناکامی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب امریکہ کے حتی قریبی ترین اور روایتی اتحادی بھی اس پر اعتماد کھوتے جا رہے ہیں۔ یہ گذشتہ چند سالوں کے دوران موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں پر مبنی یکہ تازیوں کا نتیجہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے سلامتی کونسل کے اراکین کی جانب سے امریکہ کی پیش کردہ قرارداد کو ووٹ نہ دینے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سلامتی کونسل دنیا میں امن کے قیام میں امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بہت جلد ایران کے خلاف ٹریگر میکانزم شروع کرنے والا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے کہا: "سلامتی کونسل عالمی سطح پر امن کے قیام پر مبنی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہوچکی ہے اور ایران کو اس کے اقدامات پر جوابدہ نہیں کر پائی۔" دوسری طرف امریکہ کی وزارت خارجہ نے بھی ایک اعلامیہ جاری کیا ہے، جس میں سلامتی کونسل پر تنقید کرنے کے علاوہ یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ خطے کے ممالک اور اسرائیل کے مطالبات پر توجہ نہیں دے رہی۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سلامتی کونسل میں ایران کے خلاف امریکی قرارداد ناکام ہونے کے نتیجے میں ایران خود کو مزید مسلح کرنے کے قابل ہو جائے گا، جس کے باعث مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام اور تباہی و بربادی کو فروغ ملے گا۔ البتہ انہوں نے اس حقیقت کی جانب اشارہ نہیں کیا کہ مشرق وسطیٰ میں بدامنی کی بڑی وجہ امریکہ کے حمایت یافتہ تکفیری دہشت گرد گروہ رہے ہیں۔

اس وقت یہ حقیقت سب کیلئے عیاں ہوچکی ہے کہ گذشتہ تقریباً دو عشروں سے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام کی بنیادی وجہ افغانستان اور عراق پر امریکہ کی فوجی جارحیت رہی ہے۔ امریکہ نے عراق میں موجود اپنی جیلوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے مرکزی رہنماوں اور سرغنوں کی تربیت کی اور ان گروہوں کو منظم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے مرکزی کمانڈرز کئی سالوں تک عراق میں امریکہ کے زیر کنٹرول جیلوں میں قید رہ چکے تھے اور پھر انتہائی پراسرار انداز میں انہیں آزاد کر دیا جاتا ہے، جس کے کچھ ہی عرصے بعد تکفیری دہشت گرد گروہ داعش منظر عام پر آجاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں ہوسکتا بلکہ موجودہ قرائن اور شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کے گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یہ دہشت گرد گروہ تشکیل دیئے گئے۔

امریکہ کی جانب سے سلامتی کونسل کے فیصلے کو مسترد کئے جانے کے بعد روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی اور ایران کے درمیان ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کیا، تاکہ سلامتی کونسل میں مزید انتشار اور کشمکش پھیلنے سے روکا جا سکے۔ ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کے اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ جس عالمی ادارے میں بھی ان کی ٹیم مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، وہ یا تو اس ادارے سے دستبردار ہوتے آئے ہیں یا اس کے خلاف شدید دباو کی پالیسی اختیار کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس ذلت آمیز شکست کے بعد امریکہ اس اہم عالمی ادارے سے بھی نکل جانے کا فیصلہ کرے گا یا کوئی متبادل راستہ اختیار کرے گا۔؟

اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف ٹرمپ حکومت کا سابقہ رویہ ہے، جس کے تحت وہ بھاری اخراجات اور عملی طور پر مفید ثابت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کئی عالمی اداروں سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس کی روشنی میں سلامتی کونسل سے امریکہ کی دستبرداری کا امکان پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کے مقتدر حلقے اور اسٹیبلشمنٹ واقع ہیں، جو عالمی سطح پر امریکہ کے گذشتہ اثر و رسوخ اور طاقت کو واپس لوٹانے کے درپے ہیں۔ اس تناظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے دستبردار تو نہیں ہوگا لیکن ان اہم اور بنیادی عالمی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکہ کے مقتدر حلقے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو کمزور کرکے عالمی سطح پر امریکہ کے کردار اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 880827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش