0
Wednesday 19 Aug 2020 19:30

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل تعلقات، کس نےکھویا کس نے پایا؟

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل تعلقات، کس نےکھویا کس نے پایا؟
تحریر: عظمت علی
rascov205@gmail.com

اسرائیل اپنے وجود میں ہمیشہ سے استحکام کا متلاشی رہا ہے۔ اس نے غیر قانونی اختیار سے لے کر تاحال ہرآن توسیع پسندانہ اقدام کو اپنا لائحہ عمل بنائے رکھا ہے۔ 1967ء کی جنگ اس کی واضح ترین مثال ہے۔ اس جنگ میں فلسطین سمیت تین عرب سرزمینوں پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ ساتھ ہی اس کی لازوال سعی رہی ہے کہ اپنے وجود کو امت مسلمہ میں جگہ دے۔ ترکی نے اوائل عمر میں ہی اسے قبول کر لیا تھا۔ اس کے بعد عرب ممالک نے بھی اسے تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ 1979ء میں مصر اور 1994ء میں اردن نے اپنے تعلقات استوار کر لیے۔ دو دن قبل متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے محض مغربی کنارے پر مزید انضمام کی روک تھام کے لیے دوستانہ تعلقات بحال کر لیے، لیکن جو کبھی کسی کا نہ ہوا ہو، وہ ایک طویل عمر سے بنے دشمن کا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔!؟ اس نے بھی اپنی کرسی بچانے کی خاطر اعلان کر دیا کہ توسیع کا عمل محض ملتوی کیا گیا ہے، رد نہیں کیا گیا ہے۔

مطلب واضح ہے، وقت آنے پر مغربی کنارے پر توسیع ضرور ہوگی۔ یہ اعلان دراصل امارات کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ تھا کہ ہم اپنوں سے کبھی بغاوت نہیں کرتے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری تھی کہ یہودی زمینی توسیع معاملہ میں کسی قیمت پر راضی نہیں ہونے والے۔ انہیں زمین سے بہت محبت ہے۔ انہیں اس سے علیحدہ کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ ملاحظہ کریں کہ جب سے اسرائیل کا وجود صفحہ ارض پر نمایاں ہوا ہے، اس وقت سے یہ ملک مسلسل زمین پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔ یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ابھی تک جو کچھ بھی ہوا ہے، وہ ایک ٹیلی فونی بات چیت تک کا معاملہ ہے۔ ابھی عملی اقدام میں کوئی خاطر خواہ شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ اس معاہدہ کے بعد دونوں ممالک کے ذمہ داروں میں کوئی ملاقات اور کسی قسم کی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ اب اگر امت مسلمہ اور خصوصاً خلیج فارس کے حالات نے دباؤ ڈالا تو بہت ممکن ہے کہ یہ معاملہ جلد ہی کمزور پڑ جائے۔

مسلم ریاست کی دو عظیم قوتیں ترکی اور ایران نے سخت مذمت کی جبکہ بحرین، مصر، عمان نے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ابھی تازہ خبر موصول ہو رہی ہے کہ سوڈان بھی مثبت خیال کی صف میں شامل ہونے کو ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے محض خاموشی کے بیان آئے ہیں۔ اس کی خاموشی نے پورے عالم کو حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔ ملک کی خاموشی بھی بے معنی نہیں ہوسکتی، چونکہ یوں ہی اس کے اسلامی ممالک سے بہتر تعلقات نہیں ہیں۔ ایران سمیت ترکی، یمن، لبنان، شام اور دیگر ممالک میں سعودی عرب کی عداوت واضح ہے۔ اس لیے اگر وہ ہاں یا نہیں کا جواب دیتا ہے تو پھر اسے لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اگر نہیں کہتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل سے اس کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے پہلے ہی کہا تھا کہ اگر ہمارا سایہ اٹھ جائے تو ملک دو ہفتوں کا مہمان ہے۔ اگر ہاں کرتا ہے تو امت مسلمہ میں شدید ناراضگی اور احتجاج تک کی نوبت آسکتی ہے۔ لیکن خاموشی بہت حد تک مثبت خیالات کی فہرست کی جانب مائل دکھائی دیتی ہے۔ ابھی تازہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ملک کے امریکہ اور اسرائیل سے بہتری کے تعلقات پر بات چیت جاری ہے۔ خیر! دیکھئے، آگے ہوتا کیا ہے۔۔۔؟

اس امن معاہدہ سے اسرائیل کا سب سے بڑا مسئلہ خلیجی ممالک میں اپنے قدم جمانا ہے۔ اگر وہ اپنی جگہ مستحکم کر لیتا ہے تو پھر مشرق وسطیٰ کے حالات مکمل طور پر بدل سکتے ہیں۔ ایران کا سب سے بڑا دشمن صرف اس بات پر خوش ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا، جبکہ ایران نے دو ٹوک اعلان کر دیا ہے کہ اس سے ہماری قوت دفاع مزید قوی ہو جائے گی۔ یو اے ای کے اس فیصلہ پر تقریباً نوے فی صد مسلم ریاستیں نالاں ہیں۔ خود فلسطین نے اس کا صاف انکار کیا ہے اور کڑی تنقید بھی کی ہے۔ دراصل، ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان بہتر برسوں میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر جو تشدد روا رکھا ہے، اس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ اسے کبھی بھی امت مسلمہ کی خیرخواہی کی فکر لاحق ہی نہیں ہوسکتی۔ ہاں! یہ اپنے مفاد کے لیے کبھی کچھ بھی کرسکتا ہے۔

دوسرا سب سے اہم مسئلہ نتن یاہو کی اپنی کرسی کا ہے۔ صہیونی عدالت کی جانب سے ملک کے وزیراعظم پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے۔ اس لیے متعدد بار احتجاج بھی ہوئے ہیں کہ ہمیں ایسے وزیراعظم کی ضرورت نہیں جس پر عدالتی جرم ثابت ہے۔ جب تک وہ باعزت بری نہیں ہوتے، وزیراعظم کی مسند پر متمکن ہونے کے لائق نہیں۔ اس کے علاوہ کورونا کا بھی مسئلہ ہے نو ملین کی آبادی میں جس صورت سے کورونا کے حوالے سے تدابیر اپنائی گئی ہیں، اس سے عوام بالکل بھی راضی نہیں ہے۔ چونکہ ابھی تک حکومت ایسے کسی اقدام سے قاصر رہی ہے، جو کورونا کے مقابل معقول راہ حل تلاش کرسکے۔ ساتھ ہی بے روزگاری کی شرح بھی 20 فی صد سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر یہ فیصلہ بظاہر وزیراعظم کی جیت جیسا ہے۔ اسی لیے تو اسے "تاریخی معاہدہ" کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدہ سے بہت ممکن ہے کہ احتجاجات کمزور پڑ جائیں اور شدت پسند یہودیوں کے دل وزیراعظم کی جانب مائل ہو جائیں، جس کا مطلب نتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کا سرد پڑ جانا ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا مسئلہ بھی ذاتی مفاد سے خالی نہیں۔ رواں سال کے ماہ نومبر میں ملک میں الیکشن ہونے کو ہے اور ماہرین کا عندیہ ہے کہ اس بار ٹرمپ اپنی کرسی کے بچاؤ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ اس لیے انہیں بھی اپنی یہودی لابی کو خوشحال کرنا ہے۔ امریکی صدر کی نگاہ میں بظاہر یہ گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ امریکی عوام کا بیرونی سیاست سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔ انہیں تو اپنے داخلی مسائل سے لگاو ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر انسان اپنے ملک کی فکر میں محو رہتا ہے۔ اسے اپنی زندگی کی فکر ہوتی ہے۔ یوںہی امریکہ بھی ہے۔ اسے کورونا کے سبب آئی بے روزگاری اور آفات و بلیات سے دفاع کی مستعد راہ چاہیئے۔ اسے یو اے ای اور اسرائیل تعلقات سے کیا واسط۔۔۔! اس لیے ٹرمپ کو الیکشن نتائج میں کامیابی ملنے کی راہیں مسدود نظر آتی ہیں۔ مستقبل قریب میں کوئی حادثہ پیش آجائے تو بات الگ ہے۔

اب درمیان میں متحدہ عرب امارات کا کردار رہ جاتا ہے۔ واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کبھی کسی کے نہیں رہے ہیں، چہ برسد امت مسلمہ کے۔ مصر اور اردن کو ملکی روابط قائم کرنے سے کیا حاصل ہوا ۔۔۔۔؟ کچھ نہیں۔ اس لیے یہ بات یقینی ہے کہ جب تک ان کے مفاد وابستہ رہتے ہیں، سب سے بہتر اور برتر آپ ہی ہیں۔ اس لیے اب مطلب نکل جانے پر یو اے ای کو بہرحال کف افسوس ملنا پڑے گا۔ انضمام کی روک تھام کا مسئلہ تو اوائل معاہدہ میں سرے سے خارج ہوگیا۔ عالم اسلام کے دو ممالک اس سے روابط استوار کرکے خود الگ تھلگ ہوچکے ہیں اور اپنے کئے پر شرمندہ ہیں، اب تیسرے کی باری ہے۔ امت مسلمہ میں تقسیم در تقسیم کا مسئلہ زور پکڑ رہا ہے اور سب ایک دوسرے کے دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے یہ خوف بہرحال ہے کہ ہم خود ہی لڑے گے اور دشمن تماشہ دیکھے گا۔ اب اگر متحدہ عرب امارات کو اس کے برے نتائج نظر آجائیں گے تو وہ بھی یوں ہی تنہا ہو جائے گا، اس لیے اس کی اولیں ترجیح غیر کا دامن پکڑے رہنا رہے گی۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔؟
خبر کا کوڈ : 881298
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش