0
Saturday 22 Aug 2020 06:43

سعودی عرب کی بے اعتنائی اور جلتا کشمیر

سعودی عرب کی بے اعتنائی اور جلتا کشمیر
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

خطے کے حالات بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں، دوستیاں اور دشمنیاں ایسے تبدیل ہو رہی ہیں جیسے دہائیوں سے سوئی خارجہ پالیسی اور روایت پسندی پر کاری ضربیں لگی ہوں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی یک قطبی دنیا کا آغاز ہوا، جس میں کافی کردار متعین ہوگئے تھے اور جو کچھ مدمقابل قوتیں رہ گئی تھیں، انہیں دبا کر رکھا گیا مگر تھوڑی بہت جگہ ان کے لیے بھی چھوڑ دی گئی۔ کوشش کی گئی کہ کسی بھی طرح سے انہیں سبق سکھایا جاتا رہے۔ اس دوران ہتھیاروں کی مسلسل فروخت جاری رکھنے کے لیے تیل سے امیر ہوئے ممالک کو فرضی دشمن دکھا کر خوب لوٹا گیا۔ خاندانی بادشاہتیں ہمیشہ ہی عوامی غضب کا نشانہ بنی ہیں۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک دن ان کو ختم ہونا ہے۔  اکیسویں صدی میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور سے سعودی عرب کے ساتھ ہمارے گرم جوش تعلقات کا آغاز ہوتا ہے۔ انہوں نے بڑی حکمت سے عربوں سے معاہدے کرکے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کر دیئے اور ساتھ ساتھ اسلامی بنک کی تجویز دے کر بین الاقوامی سطح پر ارتعاش پیدا کر دیا تھا، یہ الگ موضوع ہے کہ انہیں اس سوچ کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

ضیاء الحق کے دور میں مجاہدین کے نام پر سعودی عرب نے پاکستان میں اپنی نظریاتی مداخلت شروع کی اور بڑی تعداد میں ان کی کتب ہمارے ہاں پہنچیں، جنہوں نے معاشرے کی مسلکی تقسیم میں اضافہ کیا۔ مدینہ یونیورسٹی میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو داخلے دیئے گئے اور یوں عوامی جذبات کا خوب استعمال ہوا۔ اس دوران سعودی عرب کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا تھا اور دنیا بھر کے فورمز پر جہاں اس کی حمایت کی ضرورت ہوتی، وہ ہمارا ساتھ دیتا تھا۔ یوں یہ تعلقات مذہبی، عقیدتی، ریاست کے مفاداتی اور لیبر کی وجہ سے معاشی بھی  بن گئے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ 1998-2002ء کی حکومت میں انڈیا کے وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اقتصادی سفارت کاری کو استعمال کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان خصوصی تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہاں سے ہی کشمیر پر سعودی عرب کے موقف میں بڑی تبدیلی آئی اور اس کے بعد سعودی عرب نے  انڈیا میں بڑی سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی، اس کے ساتھ ہی دیگر معاملات میں بھی ان کا تعاون بہت بڑھ گیا۔

ان تعلقات کی نوعیت کا اندازہ بہت سے اہل وطن کو اس وقت ہوا، جب سعودی عرب نے اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہزاروں مسلمانوں کے قاتل انڈین وزیراعظم مودی کو دیا۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا دھچکا تھا کہ ہمارا ایک دوست ملک جس کی حفاظت کے لیے ہم نے اپنی افواج تک اس کے صحرائی بارڈر پر لگا رکھی ہیں اور وہاں سے آنے والی شخصیات کو یہاں آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، اس نے ہمارے دشمن کو اس قدر سر پر چڑھایا۔ انڈیا کس قدر سعودی عرب پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا نے کشمیر میں مظالم کی انتہا کر دی، وہاں انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے، مہینوں تک کرفیوں رہا، وہاں عزتیں پامال ہوتی رہیں، ہمیں امید تھی کہ حکومت نہ سہی حج کے موقع پر امام کعبہ ان مظلوموں کے لیے دعا ضرور کرائیں گے۔ سب اہل وطن دیکھتے رہ گئے کہ دنیا کے اس سب سے بڑے اسلامی اجتماع میں مسلمانوں کے امام نے ان لاکھوں مظلوم اور محصور لوگوں کے حق میں دعا تک نہیں کی۔

ملکوں کے تعلقات غیرت و حمیت کے ساتھ بھی جاری رکھے جا سکتے ہیں اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بھی انڈیا سے تعلقات ہیں، مگر ہر اہم موقع پر یہ مسلمان ممالک ہمارے ساتھ کھڑے رہے ہیں، انہوں نے ہر جگہ پر ہمارے لیے آواز اٹھائی ہے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی کے بیان پر انڈیا کے انتہا پسندوں نے خوب شور کیا تھا۔ پاکستان آج جس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ سعودی چھتری تلے مسئلہ کشمیر پر کسی مثبت پیش رفت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، ترکی، ملائیشیا اور ایران کافی عرصہ پہلے اس نتیجے تک پہنچ چکے تھے۔ کولالمپور میں ہونے والی کانفرنس اسی لیے طلب کی گئی تھی کہ سعودی عرب نے کچھ نہیں کرنا، اس لیے اپنی قوت بازور پر بھروسہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب ہمیں خود آگے بڑھنا ہوگا اور اپنے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔ ہر معاملے میں درست موقف اپنانا ہوگا۔ ہم نے ایک بار پھر سعودی عرب  کو آزمانے کا فیصلہ کیا، مگر نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ کشمیر میں انڈیا کے مظالم حد سے بڑھ چکے، کشمیریوں کے مایوس ہونے سے پہلے ہمیں ان کے لیے بین الاقوامی سطح پر رائنج نظام میں رہتے ہوئے ایسا کچھ کرنا ہے کہ ان کی امیدیں نہ ٹوٹیں اور ان پر مظالم کی تاریک شب ختم ہو۔

ایک بہت ہی اہم بات ہمارے لیے واضح ہونی چاہیئے کہ سعودی عرب بظاہر کچھ بھی بیان دے، اب وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ امارات نے اہل فلسطین کے خون کا سودا کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور جلد یا بدیر سعودی عرب بھی اس کا اعلان کر دے گا۔ ٹرمپ نے یہی کہا ہے سعودی عرب جلد اسرائیل کو تسلیم کرے گا، جس کے لیے ابھی مزید زمین ہموار کی جائے گی۔ عربوں کا اسرائیل جیسی چھوٹی سی ریاست کے سامنے لیٹ جانا اور سعودی عرب کا  نظریاتی طور پر اسرائیل سے لڑنے والی قوتوں کو اپنا دشمن بنا لینا اور فلسطین کی آزادی سے عملی طور پر لاتعلق ہو جانا یہ بتاتا ہے کہ وہ انڈیا جیسے بڑے ملک کے مقابل کسی صورت میں ہماری حمایت نہیں کرے گا۔ اب تو صورتحال بھی کچھ ایسی ہوچکی ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب امریکی چھتری تلے ٹرمپ کی قیادت کو تسلیم کرچکے ہیں۔

پاکستان کے وزیر خارجہ کا بیان ایک جرات مندانہ موقف تھا، اس کے بعد ایک ارب ڈالر کی فوری واپسی اور اب وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی صاحب کا دورہ چین انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور بیک وقت کئی پیغامات دے رہا ہے۔ ہم تنہائی کا شکار نہیں ہیں، دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت کے وزیر خارجہ نے علی الاعلان مسئلہ کشمیر پر ہماری بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ اقتصادی اور معاشی حوالے سے سی پیک تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، یہ معاشی آزادی ہماری قومی آزادی کا باعث بنے گی اور  ہم خود باغیرت اقوام کے ساتھ مل کر مسئلہ کشمیر حل کریں گے، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 881861
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش