1
Sunday 23 Aug 2020 10:31

اسرائیل، بے فیض دوست

اسرائیل، بے فیض دوست
تحریر: تصور حسین شہزاد

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے پر مسلم اُمہ واضح طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک بلاک اس "تسلیم و رضا" کی حمایت کر رہا ہے اور توقع کر رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے یو اے ای میں خوشحالی آئے گی، خطے کے حالات بہتر ہوں گے، فلسطین کے عوام کو بھی امن نصیب ہوگا اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی سرحدیں بھی سمٹ نہ سکیں تو مزید پھیلیں گی بھی نہیں۔ مگر دوسرا گروہ، جو اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے موقف کی مخالفت کر رہا ہے، اس کی دلیل مضبوط ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خوشحالی نہیں، بلکہ بدحالی و بدامنی کو فروغ ملتا ہے۔ ان کے بقول عرب بادشاہ اپنے عوام سے خوفزدہ ہیں اور اسی خوف کے تابع ہی اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کا اقتدار بچ جائے، مگر امریکہ و اسرائیل کبھی بھی مسلمانوں کی مشکل وقت میں مدد نہیں کرتے، بلکہ ایسے موقعوں پر امریکہ کی بے بسی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ اس کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔

امریکہ اپنے سب سے بڑی اتحادی حسنی مبارک کا اقتدار بھی نہ بچا سکا۔ اخوان المسلمین کی تحریک نے حسنی مبارک کا تختہ اُلٹ دیا۔ پھر اس کے بعد تیونس اور سوڈان میں بھی تبدیلی آئی۔ لیکن امریکہ کسی کا اقتدار بھی نہ بچا سکا۔ دوسری جانب امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن شام میں بشارالاسد کا بال بھی بیگا نہیں کرسکا۔ اس سے اس کی بے بسی اور لاچاری ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے پاس کھوکھلی طاقت ہے، جو نہ تو دوستوں کو بچا سکتی ہے اور نہ دشمنوں کو زیر کر سکتی ہے۔ سعودی عرب کی آئل تنصیبات پر حملہ ہوا، مگر امریکہ اس معاملے میں بھی اپنے سب سے بڑے دوست سعودی عرب کے بھی کسی کام نہ آیا۔ ایران نے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا، ایران اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر لبنان، عراق، شام سے ہوتا ہوا یمن تک پہنچ گیا۔ جسے سعودی عرب کیلئے سنگین خطرے کے طور پر دکھایا جانے لگا۔ ایران کی اس مضبوط پوزیشن کو دیکھتے ہوئے عرب بادشاہوں کو یقین ہوگیا ہے کہ ان کو امریکہ و اسرائیل کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر اسرائیل مسلسل عرب حکمران کو یقین دلانے میں مصروف ہے کہ وہ ایران کے مقابلے میں ان کی مدد کیلئے تیار ہے۔

عرب ریاستوں نے بھی اس معاملے میں منافقت کا مظاہرہ کیا، وہ اندر سے اسرائیل کیساتھ ہیں، لیکن ظاہری طور پر خود کو فلسطینیوں کا خیر خواہ کہتی ہیں۔ فلسطینیوں کی اگر کسی نے عملی مدد کی ہے تو وہ صرف ایران ہے، جس کا ماٹو ہی ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت ہے۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات کوئی آج کی بات نہیں بلکہ 5 سال قبل 2015ء میں اسرائیل نے عرب امارات میں اپنا ایجنسی ہیڈکوارٹر کھولا تھا، جسے سفارتی سٹیٹس دیا گیا تھا۔ یوں اسرائیل نے اپنا دفتر کھول کر یو اے ای میں ایسا جال بُنا کہ آج یو اے ای کے حکمران اس جال میں بُری طرح پھنس چکے ہیں اور اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ اسرائیل کے عربوں کیساتھ تعلقات تو ہیں مگر پہلے اسرائیل نے انہیں اس لئے خفیہ رکھا کہ کہیں عرب ممالک کے عوام اپنے بادشاہوں کیخلاف بغاوت نہ کر دیں، مگر جب امریکہ میں ٹرمپ اقتدار میں آیا تو نیتن یاہو نے بھی پالیسی بدل لی اور کھل کر عرب ممالک کیساتھ تعلقات کا اعتراف کرنا شروع کر دیا۔

اُدھر ٹرمپ نے بھی عربوں کیساتھ اسرائیل کے تعلقات بہتر بنانے کیلئے مشن اپنے داماد جارڈ کشنز کو سونپ دیا۔ جس نے امریکی کارڈ استعمال کرتے ہوئے عرب شہزادوں کیساتھ تعلقات بنائے اور اس اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے نام نہاد سنچری ڈیل کا منصوبہ تیار کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کیساتھ کھڑے ہوکر اس منصوبے کا اعلان کیا تو وائیٹ ہاوس میں عرب امارات اور بحرین کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس منصوبے کو عرب عوام نے مسترد کر دیا، لیکن وہاں عرب نمائندوں کی موجودگی پر کوئی احتجاج نہ ہوا، جس سے عرب حکمرانوں کو  حوصلہ مل گیا۔ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے اعلان کے بعد اسرائیلی اور امریکی میڈیا میں جشن کا سماں تھا اور ساتھ ہی یہ اندازے لگائے جانے لگے کہ امارات کے بعد کون یہ جرأت دکھائے گا۔؟ سعودی عرب سمیت 5 ملکوں کے نام آئے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان کے حوالے سے بھی باتیں ہونے لگیں کہ اب پاکستان کو بھی تسلیم کر لینا چاہیئے، جبکہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سعودی عرب کا دباو بھی تھا، جس کی وجہ سے پاک سعودیہ تعلقات میں کشیدگی بھی آئی۔

پاکستان میں سعودی عرب کے حامی جنہیں طنزاً "الباکستانی" کہا جاتا ہے، نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کر دیا۔ سعودی عرب نے یہ کارڈ کھیلا اور عوامی سطح پر اشتعال انگیزی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان میں سعودی عرب کیلئے کام کرنیوالے حافظ طاہر اشرفی بھاگے بھاگے سعودی عرب پہنچ گئے۔ لیکن ظاہر ہے ہر حکومت کی اپنی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، جسے حکومتیں اپنے مفادات کے تابع ہی بناتی ہیں تو پاکستان نے بھی اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفاد میں طے کی اور آرمی چیف معاملے کو حل کرنے سعودی عرب پہنچ گئے۔ دوسری جانب محمد بن سلمان اور جارڈ کشنز کی دوستی کے بڑے قصے ہیں، مگر سعودی عرب نے بھی خود ابھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ واقفان حال کہتے ہیں سعودی عرب تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو کے مصداق سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا۔ سعودی وزیر خارجہ نے برلن میں پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرسکتے، جب تک وہ فلسطین کو الگ ریاست تسلیم نہیں کرتے۔

سعودی عرب حرمین شریفین کی وجہ سے بھی ابھی رُکا ہوا ہے، کیونکہ اُمت مسلمہ کی سیادت کی بھی دعویداری ہے، اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو یہ بھی واضح ہے کہ اُمت ایران، ترکی اور ملائیشیا کی طرف دیکھ رہی ہے۔ عرب عوام میں ایران کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ سعودی عرب میں محمد بن سلمان تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے اتاولے ہوئے جا رہے ہیں جبکہ شاہ سلمان اس حوالے سے الگ رائے رکھتے ہیں اور وہ فلسطینیوں کے حامی ہیں، جس وجہ سے سعودی عرب کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ پا رہا۔ جہاں تک بحرین کی بات ہے تو بحرین سعودی عرب اور عرب امارات کی معاشی مدد پر انحصار کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اُسے بھی فیصلہ کرنے میں دشواری ہوگی۔ بحرین علاقائی ردِعمل کو جانچنے کے بعد ہی فیصلہ کرے گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک اور نام عمان کا لیا جا رہا ہے، لیکن عمان بھی شاید ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہے گا۔ کویت نے کھل کر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالا آخری ملک ہوگا۔ سوڈان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ دیا، لیکن اگلے ہی روز وزیر خارجہ نے نہ صرف تردید کر دی بلکہ ترجمان کو بھی برطرف کر دیا گیا۔ سوڈان کی تردید اور اس ایکشن کے باوجود اس پر حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔

سوڈان کو ایران سے دور رکھنے کیلئے یو اے ای اور سعودی عرب بھاری امداد دیتے رہے ہیں۔ مصر میں جب اخوان کی حکومت بنی تو عرب امارات نے اس کیخلاف بغاوت کو منظم کیا اور مالی مدد دی، جس کی بنیاد پر فوج نے صدر مرسی کو گرفتار کرکے اقتدار ہاتھ میں لے لیا۔ قطر میں بھی حکومت کیخلاف صرف اس لیے بغاوت کی کوشش ہوئی، کیونکہ قطر اخوان لیڈروں کو پناہ دیئے ہوئے ہے۔ امارات کے کہنے پر ہی سعودی قیادت نے عرب لیگ میں قطر کا ناطقہ بند کیا۔ عرب بہار نے تو چند ایک ملکوں میں حکومتوں کا تختہ بھی اُلٹا اور دم توڑ گئی، لیکن اس عرب بہار کیخلاف عرب امارات نے جو مہم شروع کی تھی، وہ اب تک جاری ہے۔ اگر اسرائیل اور امارات کی بات کریں تو ان کے کچھ مشترکہ دشمن ہیں، جیسے پولیٹیکل اسلام، ایران اور ترکی اور دونوں ان دشمنوں کیخلاف ایک دوسرے کیساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ترکی میں 2016ء کی بغاوت میں امارات کی مالی مدد کے الزامات اور رپورٹس سامنے آچکی ہیں۔ لیبیا کے الوطیہ ایئر بیس پر ترکی کی ایئر ڈیفنس بیٹریز پر حملہ ہوا تو امارات کے شاہی دیوان سے وابستہ مشیر عبدالخالق عبداللہ نے ٹویٹ کی کہ تمام عربوں کی طرف سے عرب امارات نے ترکی کو سبق سکھا دیا ہے، بعد میں عبدالخالق عبداللہ نے اپنی یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی۔

عرب امارات خود کو مشرق وسطیٰ کا تھانیدار بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے اور اسی مقصد کیلئے اس کے سعودی عرب اور مصر کیساتھ حالات خراب بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یو اے ای یمن میں سعودی مفادات کیخلاف کام کر چکا ہے۔ ایران کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سلامتی کونسل میں ایران کیخلاف اسلحہ کی پابندیوں کی قرارداد بھی مسترد ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے بھی امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ اس قرارداد کے مسترد ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا ایران کے معاملے پر تنہا رہ گیا ہے۔ امریکا سلامتی کونسل میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی ایک شق کے تحت پابندیاں لگانے کی تجویز پیش کرنے کو ہے، وہی جوہری معاہدہ جس سے امریکا یکطرفہ طور پر نکل چکا ہے، لیکن اب پابندیوں کے لیے اسے استعمال کرنا چاہتا ہے، جبکہ امریکہ کی یہ بھی کوشش ہے کہ ایران کو اشتعال دلائے۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اسرائیل کا ساتھ دینے اور اسے تسلیم کرنے والوں کو بعد میں پچھتانا پڑا۔ آج کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے خطے میں خوشحالی آئے گی اور اسرائیل کے دوست بننے والے ملک معاشی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط ہوں گے، لیکن اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کرنیوالے اردن اور مصر کا حال سب کے سامنے ہے۔ امریکہ اور اسرائیل وہ "بے فیضی سنگی" ہیں، جن سے کبھی کسی نے فیض نہیں پایا۔ ممتاز صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ کا شعر ہے کہ
بے فیضی سنگی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا، ہر گچھا زخمایا

(مطلبی دوست سے کسی کو کبھی فائدہ نہیں ملتا، بلکہ اس کی دوستی کیکر کے درخت پر انگور کی بیل چڑھانے کے مترادف ہے، جس کے انگور کیکر کے کانٹوں سے ہمیشہ زخمی ہی ہوتے ہیں)
خبر کا کوڈ : 881978
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش