0
Monday 24 Aug 2020 06:56

پیغام محرم الحرام

پیغام محرم الحرام
تحریر: ایڈووکیٹ سید شکیل بخاری 

کربلا آج بھی ہے اک لگاتار پکار
ہے کوئی پیروی ابن علی عؔ کو تیار

تاریخ میں ہزاروں، لاکھوں واقعات رونما ہوئے، بڑے بڑے بادشاہ گزرے، لاتعداد جنگیں ہوئیں، ان تمام کا کوئی نہ کوئی مقصد تھا اور کسی نہ کسی ہدف کے لئے انجام پائے، کچھ جنگیں برسراقتدار آنے کی نیت سے کی گئیں اور کچھ مال و دولت کے حصول کے لئے، کچھ ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے انجام دی گئیں تو کچھ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر انجام پائیں۔ الغرض ہر ایک کا مقصد مختلف تھا، ان کے مرنے سے ان کا مقصد ختم ہوگیا، حتیٰ بعض کا نام تک باقی نہ رہا، وہ تاریخ میں کہیں گم ہوگئے اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں اپنے رب کے حضور پیش کیں اور جنہوں نے الہیٰ پیغام کے لئے قیام کیا اور رب ذولجلال و الاکرام کے حکم کا نفاذ کیا یا اس کی کوشش کی وہ دائمی ہوگئے۔۔

واقعہ کربلا الہیٰ نہضتوں میں سے ایک نہضت ہے، جو امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے قائم کی اور بقاء انسانی و بقاء دین مبین کی خاطر کربلا کے صحرا میں قیام کیا۔ امام حسین علیہ السلام کا پیغام 14 سو سال سے زندہ ہے اور جاری و ساری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پیغام کیوں نہ مٹا بلکہ روز بروز بڑھ رہا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ پیغام تھا کیا، اس کی حقیقت کیا ہے۔؟ دونوں سوالوں کے جواب میں عرض کرونگا کہ جو پیغام ذات خداوند متعال سے جڑا ہو، اس ذات کے حکم کی تعمیل پر مشتمل ہو، اسے فنا نہیں ہے، وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی ذات اقدس نے کربلا نہ تو اقتدار کے لئے سجائی اور نہ ہی نام و نمود کے لئے، نہ ہی اس کا مقصد ذاتی خواہشات کی تکمیل تھا بلکہ آپ نے اپنے قیام کے مقصد کو واضح کر دیا۔

اپنی وصیت میں اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں: **میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کرنا اور امر بالمروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔** جب امت محمدی گمراہ ہوچکی تھی اور جب حضور اکرم خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں اور ان کی سنت کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا اور صورتحال اس طرح سے تھی کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا تھا اور باطل کو حق کا لقب دے کر امت کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ اس موقعہ پر اگر امام چاہتے تو آرام کی زندگی بسر کرسکتے تھے، لیکن امام نے ایسا نہیں کیا بلکہ امام حریت کا نعرہ لگا کر اقدار اسلامی، امر دین اور خوشنودی خدا کے لئے گھر چھوڑ کر صحرا کو آباد کرتے ہیں۔

اس قیام کے ذریعے امام حسین علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے کہ جب بھی برائی پھیلنے لگے اور دین میں بدعات پیدا کی جانے لگیں تو اہل دین و علم قیام کریں اور اپنی حکمت اور تدبر سے اس کا خاتمہ کر دیں۔۔۔ امام حسین علیہ السلام کے لئے ممکن تھا کہ یزید کے سامنے جھک کر زندگی بچا لیتے، دنیاوی مال و دولت کو حاصل کر لیتے ایسا نہیں کیا۔ جلتی دھوپ میں، تیز خنجر کی دھار پر امام نے حیات ابدی کا سودا کر لیا۔ امام حسین علیہ السلام پر میدان کربلا میں اس قدر مصائب ڈھائے گئے ہیں کہ آپ کی ولادت سے پہلے، ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہیں گے۔ جناب یحییٰ علیہ السلام پر بھی آسمان اور فرشتوں نے گریہ کیا تھا جبکہ امام حسین علیہ السلام پر بھی پورے عالم کے ساتھ ساتھ آسمان اور فرشتوں نے گریہ کیا۔

تاریخ میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے، جبکہ حق و صداقت کی حاکمیت کے لئے، ظلم کی بیخ کنی کے لئے سب بڑا امر بالمعروف اور نیکی امام حسین علیہ سلام کا قیام ہے۔ کربلا کا پیغام ہر زمانے کے لئے ہے، چاہے وہ چودہ سو سال پہلے کا یزید لعین ہو یا آج کا ظالم یزید امریکہ و اسرائیل ہو۔ اگر آج عرب امارات وقت کے یزید کی بیعت کرتا ہے، یہ اسی طرح ظلم میں شریک ہوگیا ہے، جیسے کربلا میں لشکر یزید کے سپاہی تھے۔ کشمیر، فلسطین، یمن اور شام میں ظلم کرنے والے اپنے اجداد یزید و شمر کے پیروکار ہیں اور ان کا مقابلہ صرف اور صرف کربلا کو رہنماء مان کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 882101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش