0
Monday 24 Aug 2020 10:31

امام خمینی اور جہاد(2)

امام خمینی اور جہاد(2)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امام خمینی دشمن کے مقابلے اور اس سے دفاع کے لیے جہاد کو بہترین وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ کہ اپنے جان و مال اور سرزمینوں کا دفاع کریں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کے ستونوں کو مستحکم کریں، تاکہ اغیار اسلامی ممالک پر حملے کا تصور بھی ذہن میں نہ لا سکے۔ امام خمینی کی نگاہ میں ملک کے ستونوں کی مضبوطی سے مراد صرف فوجی شعبہ ہی نہیں ہے، کیونکہ اغیار کی طرف سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی جارحیت کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے۔ پس ملکی استحکام سے مراد تمام شعبوں میں اسلامی ممالک کو مضبوط و توانا بنانا ہے۔ مملکت اسلامی کو ہر شعبے اور ہر زاویئے سے مضبوط و قوی بنانے پر تاکید کی گئی ہے، تاکہ دشمن کسی بھی کمزور نقطے سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ مثال کے طور پر سرحدوں پر حملہ اس کا مقابلہ مملکت اسلامی کے دفاع کا ایک زاویہ ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں، تم کیوں اس انتظار میں رہتے ہو کہ دشمن تمھاری سرحدوں پر حملہ کرے اور جنگ کو تمھارے گھروں تک لے آئے۔ تمھیں چاہیئے کہ دشمن کو اس مقام پر پہنچنے سے پہلے اس کا راستہ روک دو اور اسے اپنے گھر کے دفاع میں مشغول کر دو۔ امام خمینی صدر اسلام اور اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول خدا کی صدر اسلام میں اکثر جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ کفار مکہ ہمیشہ مسلمانون اور ام القراء پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے، اگر مسلمان اس خطرے کے استقبال کے لیے آگے نہ بڑھتے اور قریش مکہ کے فتنے کو آگے بڑھ کر نہ روکتے اور اپنے گھروں میں ان کا انتظار کرتے تو مسلمان گھروں میں محصور ہو کر تباہ و برباد ہو جاتے۔

امام خمینی کی نگاہ میں جہاد کا ایک اور زاویہ معصوم امام کے دور میں ابتدائی جہاد کا تصور ہے۔ ابتدائی جہاد سے مراد جنگ کا آغاز ہے نہ کہ دفاع۔ امام خمینی کی نگاہ میں رسول خدا اور آئمہ معصومین کی موجودگی میں اجازت کے بغیر جہاد ابتدائی جائز نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام اور آئمہ معصومین کی اجازت کے بغیر جہاد ابتدائی کی اجازت نہیں ہے۔ اسلام میں اکثر جنگیں دفاعی تھیں اور بڑی کم تعداد میں جہاد ابتدائی کے زمرے میں آتی ہیں۔ جہاد ابتدائی بھِی کشور گشائی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس طرح کے دفاع کا ہدف انسانوں کو ان کے غصب شدہ حقوق دلانا، خرافاتی و شیطانی افکار کا مقابلہ کرنا اور توحیدی نظام کے لیے متعدد خدائوں کے تسلط سے آزدی حاصل کرنا ہے۔ صدر اسلام میں بھی مسلمانوں کا یہ پیغام تھا کہ ہم تیار ہیں کہ تمھیں غیر خدا کی اسیری و بندگی سے رہائی دلائیں اور خداوند عالم وحدہ لاشریک کی بندگی کا تمھیں تحفہ دیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں دین اسلام ایک عالمی و آفاقی دین ہے، اسلام کا پیغام پوری دنیا میں جانا چاہیئے اور اس راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ابتدائی جہاد سے دور کیا جا سکتا ہے۔

امام خمینی طاغوتوں، باغیوں، بدمعاشوں، شرپسندوں اور امن و امان کو خطرات سے دوچار کرنے والوں سے مقابلے کو جہاد قرار دیتے ہیں اور جو لوگ عام شہریوں کے آرام و سکون کو برباد کرتے ہیں، ان سے مقابلہ اور جہاد معاشرتی ضرورت ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی حکمران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کو امن و صلح کی دعوت دے۔ اگر شرپسند اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور شرپسندی و بدمعاشی سے پرہیز نہ کریں اور عوام الناس کے امن و سکون کو تہہ و بالا کریں تو حکومت اسلامی کو ان کے خلاف سخت ردعمل کا اطہار کرنا چاہیئے اور ان کو سخت ترین سزائیں دیں، تاکہ عوام الناس کے لیے دوبارہ مسائل پیدا نہ کرسکیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں ملت مظلوم کی حمایت میں سفارتی اور تشہیراتی میدان میں بھی خدا کے راستے میں جہاد امکان پذیر ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیے بغیر قانونی اور سفارتی ذرائع سے عالمی سطح پر اسلام و مظلومین کے دفاع کا فریضہ انجام دیں۔ امام خمینی کی نگاہ میں یہ بھِی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 882117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش