2
Wednesday 26 Aug 2020 18:19

پاراچنار کے موجودہ ابتر حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، حافظ عبد الحسین دستغیب

پاراچنار کے موجودہ ابتر حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، حافظ عبد الحسین دستغیب
حافظ عبد الحسین دستغیب کا تعلق پاکستان کے سرحدی علاقے پاراچنار سے ہے۔ پاکستان کے مختلف مدارس میں دینی اور دنیوی علوم، فقہ اور اصول کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ قرآن مجید کو بھی مکمل طور پر حفظ کیا۔ علامہ صاحب چند سال قبل یورپ چلے گئے۔ علامہ صاحب پاکستان خصوصاً پاراچنار کے حالات سے بلا کی واقفیت رکھتے ہیں اور اس پر بلا خوف و خطر تبصرے کرنے میں صرف معروف ہی نہیں بلکہ کسی حد تک متنازعہ بھی ہیں۔ آج کل اٹلی میں امامیہ سنٹر میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے پاراچنار کے تازہ حالات کے حوالے سے آن لائن ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جسے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، یورپ میں رہتے ہوئے پاراچنار کے حوالے سے آپکی معلومات بہت منطقی ہوا کرتی ہیں، تاہم بعض لوگوں کو آپ سے شکایات بھی ہیں کہ انکی بعض خبریں اور تبصرے کرم کے حالات کو دیکھ کر مناسب نہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
مولانا حافظ عبد الحسین:
بیشک میں یورپ میں رہتا ہوں، تاہم کرم کے حالات سے دلچسپی کی وجہ سے 24 گھنٹے منسلک رہتا ہوں۔ وہاں کے حالات سے مسلسل آگاہی حاصل کرتا رہتا ہوں۔ رہی لوگوں کی شکایت کی بات تو عرض یہ ہے کہ میں کرم کے حوالے سے ہر وہ حقیقت بیان کرتا ہوں، جو وہاں پاراچنار میں رہ لوگ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ ان لوگوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ میں ہر حقیقت واضح اور دوٹوک انداز میں بیان کرتا ہوں۔ تاہم اگر مجھ سے کوئی ایسی بات سرزد ہوئی ہو، جس سے لوگوں کو اذیت پہنچی ہو تو میں اسکے لئے معذرت خواہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب! سننے میں آرہا ہے، خصوصاً سوشل میڈیا کو سن کر سمجھ میں آرہا ہے کہ بالش خیل کے حوالے سے طوری بنگش قبائل تقسیم ہوکر اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ بتائیں حقیقت کیا ہے۔؟
مولانا حافظ عبد الحسین:
بالش خیل اور شاملات کے دیگر معاملات کے حوالے سے حکومت دوغلی پالیسی اپنا رہی ہے۔ ہر قبیلے کو تسلی دیکر دھوکہ دیتی ہے۔ طوری قبائل نے کبھی جارحیت نہیں کی ہے بلکہ مخالف فریق ہی نے ہمیشہ جارحیت کی ہے۔ طوری قبائل کا وہی موقف ہے۔ ہاں حکومت اور اداروں نے ضرور ایک گیم کھیل کر انہیں تقسیم کرنے کی اپنی سی ناکام کوشش کی ہے۔ تاہم ہمارے بعض مدبر رہنماؤں کی کوششوں سے انکا وہ کھیل نقش برآب ہوچکا ہے، جبکہ اپنے جائز مطالبات سے طوری بنگش قبائل ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے پاراچنار کے اہل تشیع کیساتھ کون سا خطرناک گیم کھیلا ہے۔؟ 
مولانا حافظ عبد الحسین:
حکومت پورے ملک خصوصاً پاراچنار کے شیعوں کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کر رہی ہے۔ سول انتظامیہ اور ایف سی کی تو بات ہی الگ ہے، جبکہ جن پر ہمارے قبائل کا اعتماد تھا، یعنی فوج، وہ بھی اپنی حدود کراس کرچکی ہے۔ اس وقت آرمی میں ایک مخصوص کرنل صاحب ہیں، وہ کچھ اس طرح خطرناک گیم کھیل رہا ہے کہ نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ شیعوں کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شام سے واپس ہونے والے بعض افراد کو باقاعدہ بھرتی کرکے انہیں اہم شخصیات کو قتل کرنے پر لگا رہی ہے۔ شیعہ اہم شخصیات، اہم تنظیموں اور اہم اداروں کو آپس میں لڑانے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، جبکہ خفیہ ادارے بھی علاقے کی حساسیت کو مدنظر رکھے بغیر خطرناک گیم کھیل رہے ہیں۔ وہ علاقے میں طالبانائزیشن کو فروغ دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ طالبان کھلم کھلا علاقے میں مسلح گشت کرتے ہیں۔ علاقے کے عمائدین کی شکایات کے باوجود وہ اس بات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ یہی نہیں بلکہ پاراچنار میں مختلف بم دھماکوں میں ملوث وہ افراد جنکو عدالت کی جانب سے سزائیں ملی تھیں، انہیں رہا کرکے باقاعدہ سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا ہے، جبکہ پاراچنار کے لوگوں اور تنظیموں نے شاید عدم آشنائی یا خوف کی وجہ سے اس بات سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب یہ ایف آئی آر کا کیا ماجرا ہے؟ اسکی اصلیت اور حقیقت کیا ہے۔؟َ
مولانا حافظ عبد الحسین:
ایف آئی آر کے حوالے سے تو طوری قبائل نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ اس میں انہوں نے اس کی حیثیت اور حقیقت آشکار کی تھی۔ تاہم عرض کروں کہ انصاف قائم کرنے والوں کا اپنا انصاف کچھ یوں ہے کہ ایک ایس ایچ او وقوعہ سے 20 کلومیٹر دور صدہ میں بیٹھ کر 7 افراد کو مورد الزام ٹھہراتا ہے، جن میں سے ایک کے پاس بھی کبھی بندوق نہیں دیکھی گئی۔ جو کبھی محاذ پر گئے ہی نہیں، بلکہ جنگ کو روکنے کی غرض سے فوجی افسروں کے شانہ بشانہ رہے، جنکی تصاویر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کی حد تو یہ ہے کہ طوری قبائل کے سات عمائدین اور علماء کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے انکے ساتھ مخالف فریق کے 3 نہایت غیر سنجیدہ اور مفسد بندوں کو تولا گیا ہے۔ مختصرا عرض یوں کروں کہ ایف آئی آر کو انتہائی سوچی سمجھی سکیم کے تحت وضع کیا گیا ہے۔ جس میں ایک ایس ایچ او کو استعمال کرتے ہوئے ایک نہایت خطرناک گیم کھیلی گئی ہے۔ ایس ایچ او خود اتنا ماہر نہیں بلکہ اسکی تیاری میں لوئر کرم کے کرنل عاطف کا بھیانک کردار کسی پر پوشیدہ نہیں، جو کہ لوئر کرم میں بیٹھ کر طوری قوم کے ساتھ کسی بھی دشمنی سے گریز نہیں کرتا، بلکہ اس میں اپر کرم کے بعض فوجی افسروں کا بھی عمل دخل ہے۔

اسلام ٹائمز: مزمل آغا کی گرفتاری یا اغوا کی روئیداد کیا ہے؟ میڈیا پر اس حوالے سے متضاد اطلاعات آرہی ہیں۔؟ 
مولانا حافظ عبد الحسین:
ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ انہیں ماورائے قانون و عدالت اٹھا لیا گیا اور کئی گھنٹے حراست میں رکھنے کے علاوہ انہیں ٹارچر بھی کیا گیا۔ اگرچہ اس حوالے سے بعض غلط اطلاعات آئی تھیں، جنکا حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں ہندو ڈھنڈ سے اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ اٹھا لیا گیا، ان کے ساتھیوں کو پاراچنار جبکہ مزمل آغا کو صدہ میں ایف سی کے حوالے کیا گیا۔ جہاں انہیں ٹارچر کیا گیا۔ بعد میں انہیں ایک سنسان اور ویران مقام پر چھوڑ دیا گیا۔ مزمل آغا کے ساتھ صدہ میں ایف سی نے غیر انسانی سلوک کیا۔ جس کے باعث ان کا آپریشن کیا گیا۔ چنانچہ وہ آج بھی صحیح طریقے سے چلنے اور پھیرنے کے قابل نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا مزمل آغا پر ایف آئی آر نہیں کٹی ہے؟ اگر کٹی ہے تو کیا انکی گرفتاری قانونی نہیں۔؟
مولانا حافظ عبد الحسین:
پہلی بات تو یہ کہ وہ ایف آئی آر یکطرفہ اور مکمل طور پر فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ اس میں سات ایسے افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جنہوں نے کبھی محاذ کا رجوع بھی نہیں کیا ہے۔ جس طرح کہ عرض کیا گیا کہ تمام کے تمام بزرگ سفید ریش عمائدین ہیں۔ جنہوں نے جنگ روکنے میں فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا اور ایک ایس ایچ او نے کئی میل دور بیٹھ کر ان پر ایف آئی آر کاٹی ہے۔ چنانچہ ایف آئی آر قانون کے دائرے سے باہر اور تعصب اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عوام سے قانون کی پاسداری کے طلبگار حکمران اور ادارے خود کو قانون سے بالاتر کیوں سمجھتے ہیں۔ کیا انہیں یہ علم نہیں کہ ایف آئی آر کٹے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے کا حق فوج، ایف سی اور دیگر اداروں کو حاصل نہیں، بلکہ یہ حق پولیس کو حاصل ہے، وہ بھی ملزم کو وارنٹ گرفتاری دکھا کر ہی گرفتار کرسکتی ہے، جبکہ یہ گرفتاری پولیس کے بجائے فوج کے ہاتھوں ہوئی اور پھر دوسری قانونی غلطی یہ ہوئی کہ مزمل آغا کو ایف سی کے حوالے کیوں کیا گیا۔ اگر ان کے ساتھ انکا کوئی کام تھا بھی، تو وہ انہیں اپنے پاس رکھ کر تفتیش کر لیتے، مگر ایسا نہ کیا گیا۔ ایک عرض یہ کرتا چلوں کہ مزمل آغا کو جس بندے یا مبینہ طور پر ایک صوبیدار نے ٹارچر کیا، تو فوج کو اس صوبیدار کا نوٹس لینا چاہیئے تھا، جبکہ ابھی تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ اس جارح کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی ہو۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آرہا ہے، خصوصاً طوری بنگش عوام کیجانب سے یہ شکایت سامنے آرہی ہے کہ انجمن حسینیہ اور تحریک حسینی ایف آئی آر کے بعد اپنے قومی مطالبات سے پسپائی اختیار کرگئے ہیں، اسکی کیا حقیقت ہے۔؟
مولانا حافظ عبد الحسین:
مجھے جتنا علم ہے، قومی معاملات بیشک سست روی کا شکار ہوچکے ہیں، تاہم اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ قومی اداروں نے پسپائی اختیار کی ہے۔ حکومت کے ساتھ قومی معاملات کے حوالے سے باقاعدہ جرگے اور مذاکرات ہو رہے ہیں۔ بالش خیل، کنج علی زئی اور دیگر معاملات پر جرگے تشکیل دیئے جاچکے ہیں۔ جن کی نشستیں باقاعدہ طور پر ہو رہی ہیں۔ ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے قومی اداروں کو ایف آئی آر میں الجھا کر مشکلات سے دوچار کیا جاچکا ہے اور واضح سی بات ہے کہ اب ان کی توجہ قومی مسائل کے علاوہ ایف آئی آر پر بھی مرکوز ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے قومی معاملات پر مکمل توجہ دینے میں کسی حد تک دقت پیش آرہی ہے۔ تاہم اب بھی ایسی کوئی خاص مشکل نہیں، ان شاء اللہ قومی حقوق اور مسائل پر قوم کے تمام ادارے متفق ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 882523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش