0
Thursday 27 Aug 2020 01:23

افغانستان کی کشیدہ صورتحال اور طالبان کی پاکستان یاترا

افغانستان کی کشیدہ صورتحال اور طالبان کی پاکستان یاترا
رپورٹ: سید عدیل زیدی

افغانستان میں بحالی امن کیلئے 29 فروری کو طے پانے والا معاہدہ جس طرح اپنی تشکیل تک مختلف نشیب و فراز سے گزار، اسی طرح اس معاہدے کی تکمیل میں اب بھی کئی رکاوٹیں نظر آرہی ہیں۔ طالبان کی جانب سے معاہدے کی پاسداری کی یقین دہانی، افغان حکومت اور طالبان کے قیدیوں کی رہائی اور پاکستان کے تعاون کے باوجود افغانستان کی صورتحال میں ٹھہراو نہیں آسکا۔ آئے روز بم دھماکوں سمیت دہشتگردی کے واقعات کا تسلسل کیساتھ رونماء ہونا امن معاہدے کی تکمیل میں رکاوٹ سمجھا جارہا ہے۔ افغان حکومت نے 4100 طالبان قیدیوں کو، جبکہ طالبان نے 889 قیدیوں کردیا ہے۔ افغان امور پر نظر رکھنے والے ایک باوثوق ذرائع نے اسلام ٹائمز کو بتایا ہے کہ گوکہ افغان حکومت بظاہر طالبان قیدیوں کو رہا کر رہی ہے اور امریکہ کے کہنے کے مطابق امن معاہدے پر عملدرآمد کرانے میں بھی پیش پیش نظر آرہی ہے، تاہم اشرف غنی انتظامیہ اس معاہدے کی تکمیل کو طالبان کی فتح اور اپنی کمزور سے تعبیر کرتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف طالبان کا خیال ہے کہ وہ اگر اس صورتحال میں نرمی دکھاتے ہیں تو وہ خود ان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، اسی وجہ سے طالبان کیجانب سے تسلسل کیساتھ پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کی صورتحال اور امن معاہدے پر ہندوستان کو بھی شدید تحفظات ہیں، نئی دہلی کا ماننا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان مضبوط ہوتے ہیں تو اس کا مطلب وہاں اسلام آباد کی لابنگ کی مضبوطی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ہندوستان اور افغان حکومت کے درمیان درپردہ بات چیت بھی چل رہی ہے، اور پاکستان کیلئے نیا گیم پلان تیار کیا جارہا ہے۔ اس گیم پلان کی خبر پاکستان کی سیکورٹی اداروں کو ہوچکی ہے۔ رواں ماہ افغانستان میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ اور افغان انٹیلیجنس ایجنسی ‘‘این ڈی ایس’’ کی سرکردگی میں پاکستان مخالفت دہشتگرد گروپوں کو اکٹھا گیا ہے، جن میں تحریک طالبان، جماعت الاحرار اور حزب الاحرار شامل ہیں۔ اس بیٹھک میں مزکورہ دہشتگرد جماعتوں کے نمائندوں سے کئی معاملات طے گئے اور انہیں پاکستان میں دہشتگردی کیلئے ٹاسک بھی سونپا گیا، را اور این ڈی ایس نے فنڈز بھی مہیا کرنے کے وعدے کر لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق دونوں ایجنسیوں کا کالعدم دہشتگرد تنظمیوں کے ساتھ پکتیکا میں یہ اجلاس 16 اگست کو منعقد ہوا تھا۔ تاہم اس سازش کی خبر پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو ہوچکی ہے۔

افغانستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کی اطلاعات کے تناظر میں گذشتہ دنوں افغان طالبان کے ایک اہم وفد کو ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی۔ طالبان کے وفد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، اس موقع پر افغانستان کی مجموعی صورتحال پر بات چیت کی گئی، میڈیا پر آنے والے خبروں کے مطابق اس ملاقات میں اسلام آباد کی جانب سے خاص طور پر طالبان کے وفد کو امن معاہدے پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا اور اس حوالے سے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ یاد رہے کہ اتوار (23 اگست) کو طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ’’ملا برادر اور دیگر مذاکرات کار افغانستان کے امن کے عمل میں ہونے والی حالیہ پیش رفت، دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان لوگوں اور تجارت کی نقل و حرکت میں نرمی اور آسانی پیدا کرنے کے بارے میں بات چیت کریں گے’’۔ واضح رہے کہ یہی ملا برادر پاکستان میں آٹھ سال کی اسیری کاٹ چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں سب سے بڑا کردار پاکستان کا ہے اور طالبان بھی اس وقت اسلام آباد کو ہی اپنا واحد ‘‘ہمدرد’’ تصور کر رہے ہیں۔ 

پاکستان کیلئے اہم ترین مسئلہ افغانستان میں ہندوستان کے اثر و رسوخ کو کاونٹر کرنا ہے، یقینی طور پر اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں طالبان اور شاہ محمود قریشی کے مابین پکتیکا اجلاس کی سازش کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہوگی۔ ایسی صورتحال میں یقیناً افغان طالبان ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کریں گے جو پاکستان کے مفاد کیخلاف جائے۔ پرامن افغانستان یقینی طور پر پاکستان کیلئے ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کی جانب سے طالبان کے وفد کو دورہ کی دعوت دی گئی، تاکہ معاملات کو براہ راست ڈسکس کیا جاسکے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین رواں سال فروری میں طے پانے والے امن معاہدے لے تحت تمام تر معاملات 14 ماہ کے دوران مکمل کئے جائیں گے، باقی ماندہ 8 ماہ کے دوران مقرر کردہ اہداف کو اسی صورت میں حاصل کیا جاسکتا ہے کہ جب اعتماد کی فضاء قائم ہو۔ یقیناً طالبان وفد کے دورہ پاکستان سے کم از کم طالبان اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی سطح بڑھی ہوگی، تاہم جبکہ افغانستان کے اہم ترین فریقین یعینی افغان حکومت اور طالبان ازخود باہمی معاملات کو بہتر نہیں کرتے، اس وقت تک بیرونی قوتیں بھی کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتیں۔
خبر کا کوڈ : 882655
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش