0
Thursday 27 Aug 2020 13:51

کتاب، سیدنا امام حسین علیہ السلام اور معرکۂ حق و باطل(2)

کتاب، سیدنا امام حسین علیہ السلام اور معرکۂ حق و باطل(2)
تحریر: ثاقب اکبر

قبل ازیں ہم زیر نظر کتاب کے حوالے سے کچھ مطالب اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر آئے ہیں۔ یہ کتاب بھکھی شریف کے سادات کرام کی بلند مرتبہ اور محترم علمی و روحانی شخصیت علامہ سید محمد امجد منیر الازہری کی ہے۔ نیز ہم نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا ایک جذبۂ محرکہ ایک ناصبی کی کتاب ’’رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا‘‘ ہے۔ اس کتاب میں مولف نے یزید کو ایک برحق خلیفہ اور امیرالمومنین ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت کی واضح تعلیمات اور حقائق کو جھٹلا دیا ہے۔ بہت سارے مقامات پر حق و باطل میں اختلاط پیدا کرکے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں ایک پاک دل مومن جو نبی پاکؐ سے محبت رکھتا ہے اور نبی پاکؐ ہی کے اسوہ اور فرمودات کی روشنی میں اہل بیتؑ سے بھی محبت رکھتا ہے، کا بے قرار ہو جانا فطری ہے۔ اسی فطرت کے جلوے ہم پیش نظر کتاب میں دیکھتے ہیں۔

سطور ذیل میں ہم ’’سیدنا امام حسینؑ اور معرکہ حق و باطل‘‘ میں ناصبیوں کے ممدوح یزید کے حوالے سے جو مطالب پیش کیے گئے ہیں، ان کا خلاصہ درج کر رہے ہیں، تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یزید کس قماش کا آدمی تھا اور جب ایسے شخص کے ہاتھ میں مسلمانوں کی حکومت آجائے تو واقعاً انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے اور تاریخ میں ہے کہ یہی کلمہ امام حسینؑ کی زبان پر جاری ہوا تھا۔ مصنف محترم نے تاریخ کے بہت سے واقعات نقل کرنے کے بعد یزید کی ماہیت ان الفاظ میں بیان کی ہے: یہ ہیں جناب رسالہ رسومات محرم الحرام کے مصنف کے ممدوح امیرالمومنین یزید علیہ ماعلیہ۔
۱۔ جنھوں نے حلال کو حرام کیا، حرام کو حلال۔
۲۔ جنھوں نے کعبۃ اللہ کو منہدم کیا، آگ لگائی۔
۳۔ جنھوں نے مدینہ الرسول کے تقدس کو پامال کیا۔
۴۔ جنھوں نے مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے۔
۵۔ جنھوں نے مابین منبری و روضتی کی جنت کو خچروں کی لید سے ناپاک کیا۔
۶۔ جنھوں نے اذان مسجد نبوی اور جماعت کو معطل کیا۔

۷۔ جنھوں نے صحابہ کرامؓ کو زنجیروں کے طوق پہنائے۔
۸۔ جنھوں نے دختران اسلام کی عزتوں کو روندا۔
۹۔ حرم رسول اللہ اور حرم کعبۃ اللہ کو نیست و نابود کیا۔
۱۰۔ جنھوں نے ایک ہزار ولد الزنا مسلمانوں کو ودیعت کیے۔
۱۱۔ جنھوں نے نابالغ معصوم بچوں کو بے دریغ قتل کیا۔
۱۲۔ جنھوں نے اصحاب علی المرتضیٰ ہونے کی پاداش میں صحابہ کرامؓ کی زندہ کھوپڑیاں اتار کر مرغوں کے آگے ڈال دیا۔
۱۳۔ جنھوں نے زہریلے کیڑے چھوڑ کر زندہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اذیتیں پہنچائیں۔
۱۴۔ جنھوں نے جو ظلم انسان سوچ اور کرسکتا ہے، کا ارتکاب کیا، جس کی نہ کوئی یہودی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی عیسائی، نہ ہندوازم جسے گوارہ کرتا ہے اور نہ ہی بدھ مت جسے برداشت کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود وہ امیرالمومنین بھی ہیں اور جنت کے حقدار بھی، وحشت میں ہر نقشہ الٹا نظر آتا ہے۔(ص۸۱و۸۲)

یہ بات لائق توجہ ہے کہ یزید کے والد نے جب اسے اپنا جانشین بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنی زندگی میں اس کے لیے بیعت لینے کا ارادہ کیا تو خود اس کے قریب ترین احباب کی رائے میں بھی یزید اس کی لیاقت نہیں رکھتا تھا، اگرچہ امیر شام کے سامنے ساری حقیقت بیان کرنا آسان نہ تھا، جیسا کہ علامہ الازہری نے تہذیب التہذیب جلد ۱۱ سے یہ عبارت نقل کی ہے: ’’حضرت امیر معاویہ کے گورنر بھی یہ جرات نہ کرسکتے کہ اعیان مملکت میں والئی شام کو صحیح حالات سے مطلع رکھتے۔‘‘ (ص۹۶) تاہم زیاد ابن ابیہ کا مشورہ لائق توجہ ہے، جسے تاریخ طبری جلد۶ سے مصنف محترم نے نقل کیا ہے۔ ہم ترجمہ پیش کر رہے ہیں: ’’حضرت امیر معاویہ نے جب یہ ارادہ کر لیا کہ لوگ یزید کی بیعت کر لیں تو انھوں نے زیاد کی طرف خط لکھا کہ اس بارے میں زیاد کی کیا رائے ہے؟ اس نے اپنے ہمزاد عبید بن کعب نمیری سے مشورہ کیا کہ امیر المومنین حضرت معاویہ کا خط آیا ہے کہ وہ یزید کے لیے بیعت خلافت لینے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ ساتھ ہی یہ خوف بھی اس پر مسلط ہے کہ لوگ اس اقدام سے نفرت کریں گے۔ زیاد نے عبیدہ سے کہا یہ معاملہ بڑا اہم ہے اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ یزید لاابالی مزاج۔ غفلت و کاہلی اس کا وطیرہ ہے۔ اس کے علاوہ شکار کا دلدادہ ہے۔ تم جائو امیر المومنین کے پاس اور میری طرف سے انھیں یہ پیغام دو اور یزید کی کارستانیوں سے انھیں آگاہ بھی کرو اور عرض کرو کہ آپ اس معاملہ میں جلدی نہ کریں، صبر سے کام لیں۔ مقصود کا تاخیر سے حاصل ہونا نہ ملنے سے بہتر ہے۔‘‘ (ص۹۵)

رسومات محرم الحرام کے مصنف نے کوشش کی ہے کہ یہ ثابت کرے کہ یزید عالم اسلام کا ایک متفقہ خلیفہ تھا اور امام حسینؑ کا اس کے بارے میں کوئی واضح موقف بھی نہیں تھا۔ علامہ الازہری نے اس سلسلے میں امام حسینؑ کا ایک خطبہ نقل کیا ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں: ’’لوگو! بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص ایسے ظالم شخص کو دیکھے، جو اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال کرے، جو اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ ڈالے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرے۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور زیادتی کا برتائو کرے اور دیکھنے والا اپنے قول و عمل سے اب کو بدلنے کی کوشش نہ کرے تو قیامت کے دن اس شخص کو بھی جہنم کے اسی طبقہ میں داخل کیا جائے گا، جس میں وہ ظالم داخل ہوگا۔ اے لوگو! بیشک ان بدبختوں (یزید اور اس کے ماننے والوں) نے شیطان کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے، اللہ رحمٰن کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے، فساد کا بازار گرم کر رکھا ہے اور حدود اللہ اور حدود اسلام کو معطل کر دیا ہے اور مال و دولت کو ہڑپ کر جانا ان کا معمول بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حلال کو یہ حرام کر رہے ہیں اور اللہ نے جو حرام کیا ہے، اسے انھوں نے حلال کر رکھا ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ میں ایسے ظالموں کے خلاف سینہ سپر ہو جائوں۔"(ص۹۷)

اس خطبے پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف محترم کہتے ہیں: "اس خطبہ مبارکہ میں کونسا ابہام رہ گیا ہے یا کونسی وضاحت باقی ہے، جو فاضل مصنف رسالہ رسومات محرم الحرام کو درکار ہے۔"(ص۹۸) حنظلہؓ غسیل ملائکہ کے بیٹے حضرت عبداللہ اہل مدینہ کے ایک وفد کے ساتھ دمشق گئے، تاکہ یزید کا کردار اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ انھوں نے واپس آکر اہل مدینہ کو جو حالات بتائے، اسے مصنف نے تاریخ طبری کی جلد ۸ اور تاریخ کامل کی جلد ۴ سے نقل کیا ہے۔ اس کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں: "وفدِ مدینہ شام سے واپسی پر گویا ہوا: ہم ایک ایسے شخص کے پاس سے آئے ہیں، جس کا کوئی دین نہیں، جو شراب پیتا ہے، طنبورے بجاتا ہے، لونڈیاں اس کے سامنے گاتی ناچتی ہیں، کتوں کے ساتھ کھیلتا ہے، رات گئے تک چور اُچکے کے پاس بیٹھ کر داستان سرائی کرتے ہیں اور اے اہل مدینہ ہم تمھیں گواہ بناتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کی بیعت کا قلاوہ گردن سے اتار کر پھینک دیا ہے۔"(ص۹۹)

اس وفد میں حضرت زبیرؓ کے صاحبزادے منذر بھی شامل تھے۔ انھوں نے بھی واپس آکر جو گواہی دی، موصوف نے اسے مذکورہ تواریخ سے نقل کرکے یوں ترجمہ کیا ہے: "قسم بخدا یزید نے مجھے ایک لاکھ درہم تحفۃً دیئے، لیکن یہ عطیہ و تحفہ مجھے یہ کہنے سے مانع نہیں ہوسکتا کہ میں تمھیں اس کے بارے میں صاف صاف بات بتا دوں۔ وہ شرابی ہے اور اتنی شراب پیتا ہے کہ نشہ کی وجہ سے نماز ترک ہو جاتی ہے۔ وفد کے دوسرے ارکان کی طرح پھر انھوں نے بھی وہ تمام باتیں بتائیں، جو وہ پہلے بیان کرچکے تھے کہ ’’طنبور بجاتا ہے، لونڈیاں اس کے دربار میں اس کی موجودگی میں گاتی ہیں، کتوں سے کھیلتا ہے، رات گئے تک چور اچکے اس کے پاس بیٹھ کر ہرزہ سرائی کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔‘‘(ص۹۹) یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ مصنف محترم کے بقول: "بنو امیہ کے اپنے افراد اس بدبخت کو امیرالمومنین ماننے، کہنے اور سننے کے لیے تیار نہیں، اس کے اپنے بیٹے نے اسے امیرالمومنین خلیفۃ المسلمین نہیں کہا اور نہ تسلیم کیا۔"(ص۹۶) مصنف محترم اس سلسلے میں یہ واقعہ نقل کرتے ہیں: "عمر بن عبدالعزیز کی مجلس میں ایک روز یزید کا ذکر چھڑ گیا۔ کسی شخص نے کہا یزید امیرالمومنین کا فرمان ہے۔ ابھی اس نے یزید امیرالمومنین کہا ہی تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز غصہ سے بے قابو ہوگئے اور کہنے لگے تم یزید جیسے بدبخت، شقی اور نابکار کو امیرالمومنین کہہ رہے ہو۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا کہ اس شخص کو اس جرم میں کہ اس نے یزید بدبخت کو امیرالمومنین کہا ’’بیس کوڑے مارو‘‘ تاکہ آئندہ کوئی یہ جرات نہ کرسکے۔"(ص۹۶)

ہم یہ مضمون اپنی ایک نظم کے چند اشعار پر تمام کرتے ہیں:
ہاتھ آئی ہے اس شخص کے کیوں شام کی شاہی
خونخوار بھی نکلا جو بلا نوش تو تھا ہی
’’لَا وَحْیَ نَزَلْ‘‘ کہتا تھا گو شام کا حاکم
پر گونجتی تھیں نیزے پہ آیات الٰہی
قرآں ہے محمدؐ کی نبوت کا وثیقہ
ہر صفحے پہ ہے ثبت لہو رنگ گواہی
کیا سبط نبی چپکے سے کر لیتے گوارا
پامال اوامر تھے تو رائج تھے نواہی
مظلومی شبیر پہ زینب کی شہادت
بیمار کی زنجیر بھی دیتی ہے گواہی
دُھلتی نہ اگر شاہ شہیداں کے لہو سے
پیشانیِ اسلام پہ رہ جاتی سیاہی
جو منکر دیں تخت خلافت پہ تھا بیٹھا
بندر تھے مصاحب تو پسند اُس کو ملاہی
کیوں کوثر و تسنیم کے وارث رہے پیاسے
گر سوچے تو دریا میں بھی بے تاب ہو ماہی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 882780
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش