0
Monday 31 Aug 2020 20:43

محمد بن سلمان نیتن یاہو سے خفیہ ملاقات کے خواہاں کیوں؟

محمد بن سلمان نیتن یاہو سے خفیہ ملاقات کے خواہاں کیوں؟
تحریر: نادر بلوچ

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خفیہ دورہ امریکہ کی تفصیلات عالمی میڈیا پر لیک ہوئیں تو شہزادے نے دورہ ہی منسوخ کر دیا، اس دورے کی منسوخی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دورہ کتنا اہم تھا، ترک خبر رساں ادارے ٹی آر ٹی اور مڈل ایسٹ آئی کے مطابق سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے 31 اگست کو واشنگٹن ڈی سی کا خفیہ دورہ کرنا تھا، جہاں ان کی ملاقات اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے شیڈول تھی، سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے وائٹ ہاوس سے اس ملاقات کو خفیہ رکھنے کی شرط عائد کی تھی، اگر سعودی شہزادہ یہ دورہ کرتے تو مارچ 2018ء کے بعد اُن کا یہ پہلا دورہ ہوتا۔ اسرائیلی وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کیلئے سعودی شہزادے نے واشنگٹن میں چار گھر بھی خریدے، جہاں انہوں نے قیام کرنا تھا اور ان چاروں میں سے کسی ایک گھر میں اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کرنا تھی۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ سعودی شہزادے نے اپنے ہی ملک کے سفارتخانے اور حتیٰ اپنے ہی سفیر کے گھر قیام کرنے کے فیصلے سے بھی اجتناب کیا، جس سے اس خفیہ ملاقات کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مڈل ایسٹ آئی کے مطابق ملاقات کو خفیہ رکھنے اور سعودی سفارتخات میں قیام نہ کرنے کا مقصد ان احتجاجات سے بچنا مقصود تھا، جو معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ہوسکتے تھے۔ یاد رہے کہ جمال خاشقجی کو ترکی کے دارالحکومت میں قائم سعودی سفارتخانے میں بلا کر نہ صرف قتل کیا گیا تھا، بلکہ اس کی لاش کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے میت بھی غائب کر دی گئی تھی، جس کا آج تک پتہ نہ لگ سکا۔ سعودی ولی عہد کو یقین تھا کہ اگر اعلانیہ دورہ کریں گے تو امریکہ میں جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اس کے خلاف زبردست مظاہرے ہوسکتے ہیں، جو عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں۔ یوں شہزادے نے اس دورے کو ہر حال میں خفیہ طور پر رکھنے کی شرط عائد کی۔ اس خفیہ ملاقات کا بندوبست کرانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر پیش پیش تھے، جو ڈیل آف سنچری کرانے میں بھی فرنٹ پر نظر آئے، یہ بھی یاد رہے کہ امریکی صدر کے داماد ایک یہودی النسل ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش ہے کہ نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن سے پہلے پہلے وہ سعودیہ سمیت دیگر عرب ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرا لیں، تاکہ الیکشن میں جو بائیڈن کو شکست دے سکیں، اس سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو صدر ٹرمپ کو دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ڈیل آف سنچری پر عمل درآمد نہ ہوا تو صہیونی لابی کسی صورت ان کا صدارتی الیکشن میں ساتھ نہیں دے گی۔ جس کے بعد امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسرائیل کا ہنگامی دورہ کیا، اس کے بعد وہ یو اے ای اور بحرین پہنچے۔ متحدہ عرب امارت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ بھی ڈیل آف سنچری پر عمل درآمد کی پہلی کڑی ہے۔ آج تل ابیب سے ابوظہبی پہنچنے والی پہلی فلائٹ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے، اس فلائٹ میں ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر بھی سوار تھے، جنہوں نے واضح پیغام دیا کہ عرب دنیا اور مسلم دنیا دیکھ لے کہ کس طرح ہم ابوظہبی کیلئے روانہ ہوئے ہیں۔

عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والوں کو یقین ہے کہ نومبر سے پہلے پہلے صدر ٹرمپ کی ہر ممکن کوشش ہوگی کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے اور تعلقات نارمل ہو جائیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے بعد دنیا کی نگاہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان اور  ولی عہد محمد بن سلمان پر تھی کہ وہ کیا موقف اختیار کرتے ہیں، مگر دونوں کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، البتہ سعودی وزیر خارجہ نے ہلکے پھلکے انداز میں یہ عزم ضرور دہرایا کہ سعودی عرب اس وقت تک اسرائیل کیساتھ تعلقات بحال نہیں کرے گا، جب تک اسرائیل فلسطین سے متعلق عالمی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرتا۔ عالمی معاہدے سے ان کی کیا مراد تھی، یہ واضح نہیں کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور محمد بن سلمان ایک دوسرے کے اقتدار کیلئے لازم و ملزوم سمجھے جا رہے ہیں، کیونکہ امریکی صدر کے پاس امریکی عوام کو اپنے دعووں پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔

امریکی صدر کو خارجہ محاذ پر ان پانچوں برسوں میں سوائے ناکامیوں کے کچھ بھی نہیں ملا، ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ دنوں میں ایران پر عالمی پابندیاں بھی بحال نہیں کرا سکے، یوں امریکہ کو سلامتی کونسل میں مسلسل دوسری بار بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ایک افغانستان سے انخلا اور دوسرا اسرائیل کو تسلیم کرانے سے متعلق اگر کچھ ہو جاتا ہے تو وہ پیش کرسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اگر سعودی عرب پر دباو ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرا لیا جائے تو اس کی دوسری ٹرم یقینی ہوسکتی ہے اور یہ اس کیلئے ٹرمپ کارڈ ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ اس طرح صہیونی لابی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جیسا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پہلے ہی واضح طور پر کہہ چکے ہیں۔ اسی طرح محمد بن سلمان کیلئے بادشاہ بننے کا خواب بھی ٹرمپ کی حمایت کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا، صدر ٹرمپ سعودی شہزادے کو کہہ چکے ہیں کہ اگر وہ اگلے پچاس سال تک سعودی بادشاہ بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنا ہوگا اور سعودی عرب کو لبرل بنانے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

سعودی شہزادہ کسینو سنٹر اور سینما بنانے سمیت سیاحت کے فروغ کے نام پر کئی ایسے اقدامات کرچکے ہیں، جو امریکی شرائط پر عمل درآمد کی جانب بڑا قدم نظر آتا ہے، لیکن بادشاہت کا خواب اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ نظر آتی ہے کہ جب محمد بن سلمان نے  اپنے چچا زاد بھائی سابق وزیر داخلہ محمد بن نائف کو کرپشن الزامات لگا کر نظربند کیا ہوا ہے اور بادشاہ بننے کی راہ میں اس آخری روڑے کو بھی ہٹانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب ایم بی ایس کے خلاف امریکی عدالت میں کیس بھی دائر ہوگیا ہے، محمد بن نائف کے دور میں سعودی انٹیلی جنسی ایجنسی میں کام کرنے والے اہم رکن سعد الجبری کی جانب سے دائر مقدمے میں کہا گیا ہے کہ محمد بن سلمان نے انکے بچوں کو بھی اغوا کروایا اور سعودی عرب میں مقیم انکے بعض عزیز اقارب کو گرفتار کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

محمد بن سلمان عدالت کے چنگل سے بچنے کے لئے امریکی صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ پومپئو کا سہارا لے سکتے ہیں۔ یعنی امریکہ نے شہزادے محمد بن سلمان کو ڈرانے دھمکانے اور یہ واضح کرنے کیلئے بادشاہ کیلئے محمد نائف بھی لائن میں موجود ہیں اور امریکہ کسی بھی وقت اپنی لائن تبدیل کرسکتا ہے، اسے بھی کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ محمد بن سلمان پر جمال خاشقجی کا قتل اور اب نیا کیس اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ شہزادے کو بلیک میل کرکے اسرائیل کو تسلیم کرانے کیلئے مزید دباو بڑھایا جائے گا۔ اب شہزادہ محمد بن سلمان ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں یا بچ بچاو کی پالیسی پر کامیابی سے نکل جاتے ہیں، اس کا فیصلہ اگلے ڈیڑہ ماہ میں ہو جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 883448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش