1
Tuesday 1 Sep 2020 15:30

کیا اسرائیل کو کعبے سے پاسبان مل گئے؟

کیا اسرائیل کو کعبے سے پاسبان مل گئے؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کافی دنوں سے اسرائیل عرب امارات کے اعلانیہ تعلقات اور امت مسلمہ کی بڑھتی بے حسی کا نوحہ لکھنا چاہ رہا تھا مگر ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس قدر بے حسی کہ  الامان الحفیظ، امن کے نام پر دوسروں کی زمینوں کے سودے کر دیئے گئے۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ یہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ ہے، یہ کس بات پر امن معاہدہ ہے؟ کیا اسرائیل اور عرب امارات کے درمیان کوئی جنگ ہو رہی تھی؟ کیا عرب امارات فلسطینیوں کا وکیل ہے؟ کس اختیار کے تحت عرب امارات نے اسرائیل سے فلسطین کے معاملے پر بات کی؟ کتنے جھوٹے ہیں وہ لوگ جو غرب اردن میں اسرائیلی بستیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار نہ دلوانے کو  بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے، ہم صرف کچھ وقت کے لیے اسے روک رہے ہیں۔ یعنی اسرائیل آج چاہے تو اس کو اپنا حصہ بنا سکتا ہے۔ اسرائیل نے یہی کیا، اس نے کہا ہم نے امن کے بدلے زمین نہیں دی، یہ نطریہ پرانا ہوچکا ہے کہ ہم امن کے بدلے زمین دیں گے۔ عرب امارات نے امت مسلمہ کو دھوکہ دیا ہے اور فلسطین کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ تم نے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اس کو اپنا فیصلہ قرار دو، فلسطینوں کو فروخت نہ کرو، ویسے بھی ہم جانتے ہیں تم میں اتنی جرات نہیں کہ اسرائیل سے کچھ مانگ سکو۔

اسرائیل سے پہلی پرواز ٹرمپ کے داماد کو لے کر متحدہ عرب امارات لینڈ کرچکی ہے اور اہل اسلام کو اس بات کی مبارکباد دی تھی کہ پتہ چلا اس پرواز نے ارض حرمین  کی مقدس فضاوں کو بھی کراس کیا ہے۔ ہم اس پر سعودیوں اور اماراتیوں کے گیت گانے والے تمام مسلمان بھائیوں کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ویسے تو اماراتیوں نے غیرت و حمیت کو طلاق دے دی ہے۔ اسرائیل کے جہاز کے استقبال کے لیے ایسے تیاریاں کی گئی تھیں، جیسے مدت کے بچھڑے دوست دوبارہ مل رہے ہیں۔ اسی دن اہل غزہ پر اسرائیلی طیارے بمباری کر رہے تھے اور ظلم کی انتہا دیکھیں، اسرائیلیوں کے لیے ایک بلند مقام پر اس بمباری سے لطف اندوز ہونے کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا، جسے گارڈین نے رپورٹ کیا۔ اسرائیلی اور اماراتی پرچموں کے ماسک پہنے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اسرائیلی جہاز کا استقبال کر رہے تھے۔ پاکستان میں یوں لگتا ہے کہ ایک سازش کے تحت فرقہ واریت کی فضا قائم کر دی گئی، جس میں لوگوں کو شیعہ سنی میں ایک دوسرے کے خلاف لگا دیا گیا۔ آج سوشل میڈیا کو مانیٹر کریں، لوگ فرقہ وارانہ پوسٹوں میں وقت ضایع کر رہے ہیں اور کوئی بھی اس بڑے المیے پر بات نہیں کر رہا۔

یاد رکھیں، اس معاہدے کو امن کے خوبصورت عنوان میں چھپایا گیا ہے، جیسے اکثر استعماری قوتیں کرتی ہیں کہ قتل عام کو امن کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں چھ مسلمان ملکوں کو  دہشتگردی کے خاتمہ کے نام پر جنگ کے عنوان سے برباد کر دیا گیا اور کئی ملین مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ اگر یہ سارے دہشتگرد ملکر بھی حملے کرتے تو اس قدر لوگ کبھی بھی نہ مرتے، جتنے دہشتگردی کے خاتمے کے نام پر مار دیئے گئے۔ کہیں آمریت کے خاتمے کے نام پر مداخلت کی جاتی ہے اور کہیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور کہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے نام پر ملتوں کو برباد کر دیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح، جی بالکل اسی طرح امارات اسرائیل امن معاہدے کے نام پر فلسطین کا گلا گھونٹنے کا اقدام کیا گیا ہے۔ کتنا ظلم ہے؟ امریکی الیکشن جیتنے کے لیے ایک ملت کی شناخت کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی، صرف اپنی جیت اور امریکی صیہونیوں کی حمایت کے لیے فلسطینیوں کو فروخت کیا گیا۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اقوام کی تحریک آزادی نسلوں تک جاری رہتی ہے، اسرائیل اس طرح امریکی حمایت سے فلسطینیوں کی زمینیں ہڑپ نہیں کرسکتا، اسے انہیں ہر صورت میں ان کے اصلی مالکوں یعنی اہل فلسطین کو واپس پلٹانا ہوگا۔

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو کھلم کھلا تسلیم کر لیا ہے اور سعودی عرب کے اسرائیلی جہازوں کی پرواز کی اجازت سے اس بات کا پتہ چل رہا ہے کہ وہ صرف وقت  مانگ رہے ہیں، باقی تسلیم وہ کرچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلے امریکی الیکشن میں سعودی عرب پر دباو ڈال کر اس سے اعلانیہ طور پر تسلیم کرا لیا جائے۔ ویسے جہاں جہاں بادشاہتیں یا آمریتیں ہیں، وہاں اسرائیل کو تسلیم کرانا امریکہ کے لیے آسان ہے، کیونکہ جمہوریت کا مطالبہ ہی وہ کارگر ہتھیار ہے، جس سے بادشاہتوں اور آمریتوں کا دم پھول جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر، اردن اور سعودی عرب نے تسلیم کیا، جہاں یا تو بادشاہتیں ہیں یا پھر ننگی آمرتیں ہیں۔ اگلے جن ممالک کی تسلیم کرنے کی حوالے سے افواہ چل رہی ہے، ان میں بحرین اور سوڈان کا نام تھا۔ بحرین میں جابرانہ بادشاہت ہیں اور سوڈان میں ظالمانہ آمریت ہے۔ عالم اسلام میں جہاں جہاں لولی لنگڑی ہی سہی جمہوریت ہے، وہاں امریکہ کے لیے اسرائیل کو تسلیم کروانا آسان نہیں ہوگا، اس لیے امریکہ کی یہ کوشش ہوگی کہ ایسی جگہوں پر جمہوریت کا گلا  گھونٹا جائے اور آمریت کی پرورش کی جائے، تاکہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کی راہ ہموار ہوسکے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے بڑے واشگاف الفاظ میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو خوش آئند ہے۔ اسرائیل کی پاکستان دشمنی کسی بھی طرح چھپی ہوئی نہیں ہے، وہ ہر فورم پر انڈیا سے مل کر پاکستان کی مخالفت کرتا ہے۔ عرب امارات کے تسلیم کرنے سے پاکستان اور عرب امارات میں شدید تناو پیدا ہوگا اور اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی بھی طرح سے وطن عزیز کے استحکام کو نقصان پہنچائیں۔ ان قوتوں کا سب سے بڑا ہتھیار فرقہ واریت ہے، اس لیے یہاں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی جائے گی، یہاں امن و امان کا مسئلہ بنا رہے، جس سے سی پیک بھی متاثر ہو اور یہاں اسرائیل کے حق میں فضا بنائی جا سکے، بظاہر اس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ارسطور جاوید چوہدری نے اس پر پورا کالم لکھ مارا ہے کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے اور عجیب و غریب تضاد سے بھرپور دعوے کیے ہیں۔ یونیورسٹی آف لاہور کے پروفیسر ظہور اللہ اسرائیل سعودی قربتوں اور اسرائیلی طیارے کے حرمین سے گزرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "پاکستان میں جب کسی کو سخت ترین گالی دینا ہو تو اسے یہودی ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ امت مسلمہ کے رہنما کدھر جا رہے ہیں؟ اب ان کو کیا کہا جائے؟ علامہ اقبال نے کہا تھا: ’’پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے۔‘‘آج دشمنوں کو کعبے سے ہی اپنے دوست مل گئے ہیں۔ اگر علامہ اقبال زندہ ہوتے تو اس موقع پر کیا فرماتے۔؟
خبر کا کوڈ : 883627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش