2
0
Monday 7 Sep 2020 01:06

شدت پسندی اور لیبلنگ

شدت پسندی اور لیبلنگ
تحریر: سید امتیاز علی رضوی

مذہبی حلقوں کی ایک بڑی مشکل واضح ہے، یہ اور بات ہے کہ ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ مشکل ایک دوسرے پر لیبل لگانے کی مشکل ہے۔ یہ لیبلنگ کا مسئلہ کفر و ارتداد کے لیبل سے شروع ہوتا ہے اور شدت و ضعف کے ساتھ مختلف مذہبی عنوانوں کے تحت چلتے چلتے بین الاقوامی اور ملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ کے لیبل پر ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح مخالف کو واجب القتل ہونے کی سند بھی عطا کر دی جاتی ہے اور یہیں سے دہشت گردی اور قتل و غارت کا خوفناک کھیل شروع ہوتا ہے۔ ایسے مذہبی ماحول میں ایک محقق و مصلح انسان کے لئے سچی بات کرنا دشوار ہو جاتا ہے اور اس طرح کے رویئے سے بات کا وزن بھی کم کر دیا جاتا ہے نیز بات میں تاثیر بھی نہیں رہتی۔ “اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں” کی غلط منطق سے جڑے مذہبی لوگ پہلے ہی طے کئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ ہم نے تو کسی کی بات سمجھنی ہی نہیں اور یہ بھی سب کو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے نے بھی ہماری بات نہیں ماننی۔

جب یہ صورت حال ہو تو بات دلیل سے سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، لہذا کیا ہوتا ہے کہ لوگ گھات میں رہتے ہیں کہ مخالف پر کیا لیبل لگایا جائے۔ سوچتے ہیں کہ کفر، منافقت، فسق، فجور، ناصبی ہونا، نصیری ہونا، غالی ہونا، مقصّر ہونا، رافضی ہونا، گستاخ نبی ہونا، گستاخ صحابہ و اہل بیت ہونا، منکر حدیث ہونا وغیرہ وغیرہ میں سے کون سا لیبل ہمارے مخالف پر جچتا ہے۔ اس لیبلنگ کے رویہ کی انتہا یہ ہے کہ ایک شیعہ دوسرے شیعہ پر وہابی یا مقصّر شیعہ ہونے کا الزام لگاتا ہے تو دوسرا پہلے پر نصیری یا غالی شیعہ کی تہمت جڑ دیتا ہے۔ یہ سلسلہ مختلف حلقوں میں مختلف لیبلوں کے ساتھ جاری رہتا ہے، جیسے ولائی، انقلابی، ایجنٹ MI6، ایجنٹ CIA، ایجنٹ ISI، ایجنٹ موساد و ایجنٹ را۔ اس کے علاوہ لوگوں کو لبرل، سوشلسٹ، کمیونسٹ کے عمومی طعنوں کے علاوہ اب شخصیات اور تنظیموں کے ناموں کے طعنے بھی ملنا شروع ہوچکے ہیں جیسے ڈھکوانہ، جوادی فرقہ، وحدتی، تحریکی، موسوی گروپ، بھائی گروپ (یعنی آئی ایس او کے سابقین)، ہاشمی رفسنجانی والے، مہدی ہاشمی والے، مجلسی، سیمیناری، ماتمی، نمازی، کڑے والے، چپیے والے، بُندہ گروپ، ملنگ گروپ حتی دعائے کمیل والے اور حدیث کساء والے گروہ بھی تشکیل پا چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

اتحاد و وحدت قائم کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ فتویٰ بازی کا سلسلہ روکنا پڑے گا اور اپنے نفس پر قابو رکھ کر ایک دوسرے پر لیبل لگانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ جتنی آسانی سے بے بنیاد الزامات لگا کر شیعہ مخالف شیعوں پر کفر و رافضیت کے فتوے لگاتے ہیں، اسی طرح آسانی سے بے بنیاد الزامات پر شیعہ ایک دوسرے پر تقصیر و غلو، یا فسق و فجور کے الزام لگانے سے بھی پرہیز نہیں کرتے، حتیٰ مجلس میں نعرہ نہ لگانے یا ہاتھ کھڑا نہ کرنے پر کسی کی حلالیت پر اعتراض کرتے ہوئے اسے نطفۂ حرام ہونے کی تہمت لگانے سے بھی اجتناب نہیں کرتے۔ لہذا ہمیں سب سے پہلے اتحاد و وحدت کے خواب دیکھنے کے بجائے اختلاف کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہوگا، اختلاف کو برداشت کرنے اور مخالف کو گلے لگانے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔ کرنے کا اہم کام یہ ہے کہ علم و تحقیق کی سمجھ بوجھ پیدا کی جائے۔

ہمیں یہ روش اپنانا ہوگی کہ جو انسان اپنے عقائد و نظریات کو خود سے جس طرح بیان کرے، اسے اسی طرح قبول و تسلیم کیا جائے اور اس کے بیان پر غیر ضروری جرح کرنے کے لئے نکتے نکالنے کے طریقہ کار کو ترک کیا جائے۔ ہمیں تہذیب سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا اور علم و فضل کو عام کرنا ہوگا، جوانوں کو صرف اپنے گروہ و پارٹی کے نعرے لگوانے کے بجائے علمی مطالعہ کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ اگرچہ یہ لیبلنگ یا فتویٰ بازی کا رجحان ایک قومی مزاج بن چکا ہے، جو اب صرف مذہبی لوگوں کا خاصہ نہیں رہا ہے، لیکن مذہبی حلقوں میں اس رویئے کا غلبہ ہے، لہذا منفی سیاست کے لئے بھی مذہبی گروہ استعمال ہوتے ہیں۔ منفی سیاست کرنے والے اس لیبلنگ یا فتوے بازی کے ٹول(آلہ) کو مذہبی لوگوں کے ذریعے ہی استعمال کرتے ہیں، جس وجہ سے خون بھی بہایا جاتا ہے۔ جس کی واضح مثال طالبان، القاعدہ اور داعش ہیں۔
خبر کا کوڈ : 884713
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Romania
انجینئر صاحب سے زیادہ مفید گفتگو کی توقع تھی اور باقی ہے۔
جعفر علی میر
Pakistan
باسمہ تعالی
اس مقالہ کے اندر یہ بات درست ہے کہ لیبلنگ یا الزام تراشی اور تہمت زنی سے گریز کرنا چاہیئے لیکن دو اہم نکات سے اغماز کیا گیا ہے:
1۔ اس میں دقت کی ضرورت ہے کہ ھر تھمت کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہیں؟ کیونکہ ہر لیبل فقط الزام یا تھمت نہیں ہوتا مثلاً رافضیہ کہنے کہ پیچھے مخصوص مبانی اور اعتقادی تعصب دخیل ہے، لیکن جوادیہ کہنے کے پیچھے فقط تنظیمی بغض و ذاتی حسد پوشیدہ ہے جبکہ غالیہ قرار دینا کی بنیاد کوئی ایسی چیز نہیں بلکہ بعض جاہل ذاکروں کی وہ تقاریر ہیں، جن میں نعوذ باللہ حضرت عباس کو خالق خدا تک کہا جاتا ہے اور اہل سوشل میڈیا تو ایسے سینکڑوں کلپس سے واقف ہیں۔ لہذا ان سب کو ایک ہی پلڑے میں رکھنے سے حق و باطل کی تشخیص اور تمییز مشکل ہو جائے گی اور یہ نا انصافی اور ناجائز ہے۔
2۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اگر ہم اپنا موقف واضح نہیں کرینگے اور فقط الزام تراشی یا تہمت قرار دے کر اپنے فریضہ سے کاندھا خالی کرنے کی بجائے کھل کر انحراف، گمراہی یعنی غلو، نصیریت، ناصبیت اور تکفیریت کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرنا چاہیئے۔
جعفر علی میر
ہماری پیشکش