0
Monday 7 Sep 2020 14:42

کربلا کی عظیم مائیں

کربلا کی عظیم مائیں
تحریر و تحقیق: توقیر کھرل

امسال محرم الحرام کے دوران ایک پنجابی نوحہ کثرت سے نوحہ سنا گیا، جس میں معرکہ کربلا کے شہدائے کی ماوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ "کربلا دی ماواں" پنجابی نوحہ کو سنتے ہی دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے، اس نوحہ میں شہدائے کربلا کی ماوں کے مصائب و آلائم اور آزماشوں کے کرب کو بیان کیا گیا ہے۔ بلاشبہ کربلا میں شہید ہونے والے بے مثل مجاہدین کی دلیری اور مجاہدت میں اُن کی ماوں کی تربیت بھی شامل تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ شہداء کے بلند حوصلوں کی وجہ بھی بنیں، کیونکہ عظیم ماوں کے اپنے حوصلے بھی بلند تھے۔ کربلا کی عظیم ماوں نے شجاعت و بہادری سے موت کو کھیل بنا دیا، اپنے بچوں کو خود تیار کرکے میدان میں بھیجا اور غم کا سایہ نہ آنے دیا۔

اِن عظیم ماوں میں حضرت وہب کلبی کی ماں تھی۔ وہب ابھی چند روز قبل ہی دولہا بنا تھے۔ شادی کو ایک ہفتہ گزار ہوگا، اس کے دونوں ہاتھ کٹ چکے تھے، دشمن اسے گرفتار کرکے عمر سعد کے پاس لے گئے، حکم ہوا کہ سر اڑا دو، کٹا ہوا سر ماں کی طرف پھینکا گیا، ماں نے دوڑ کر سر اٹھا لیا، اسے چوما اور کہا خدا کا شکر اس نے تمہاری شہادت سے مجھے امام حُسین کے حضور میں سرخرو کیا اور دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے کہا: امت کے بدکردار لوگو! میں گواہی دیتی ہوں کہ آتش پرست اور مسیحی تم سے بہتر ہیں۔ پھر بیٹے کا سر دشمن کی طرف واپس کر دیا کہ ہم راہ خدا میں جو کچھ دے دیتے ہیں، واپس نہیں لیتے۔

مقتل کی کتابوں میں مورخین نے یوں بھی درج کیا ہے کہ جب مادرِ وہب نے امام حُسین علیہ السلام کی تنہائی دیکھی تو بیٹے سے کہا: بیٹا دختر پیغمبر کے فرزند کی مدد کرو، وہب نے ماں کی حکم کی تعمیل میں قدم آگے بڑھائے، میدان میں جا کر حملہ کیا ایک جھڑپ کے بعد واپس آئے پوچھا: اماں آپ خوش ہوئیں۔؟ ماں نے جواب دیا مجھے تو خوشی اس وقت ہوگی، جب تم راہ خدا اور حفاظت اسلام و حُسین میں مارے جاو گے اور خاک و خون میں نہاو گے۔ وہب گئے، دشمن سے لڑے، دونوں ہاتھ کٹے، گرفتار ہوکر عمر سعد کے پاس پہنچائے گئے، اس کے حکم سے سرقلم ہوا۔

حضرت مسلم بن عوسجہ نے جب میدان جنگ میں لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا تو امام حُسین علیہ السلام نے اجازت نہیں دی، اچانک ان کی ماں نے صدا دی، بیٹا تم فرزند پیغمبر سے اپنی زندگی کو عزیز رکھتے ہو، فرزند رسول مارے جائیں اور تم زندہ رہو، میں تم سے راضی نہیں رہوں گی۔ حضرت مسلم بن عوسجہ نے کہا، ماں میں کیا کروں تو ماں نے جواب دیا کہ میدان میں جاو، شاباش خوش رہو، ساقی کوثر سے کے دست مبارک سے آب کو کوثر ملے گی، پیاس کبھی نہیں لگے گی، بیٹے نے معرکہ کارزار گرم کرکے شہادت کا درجہ حاصل کیا۔ بی بی سیدہ زینب، مادر مسلم بن عوسجہ کا اپنے فرزند کی شہادت پر اور مادر عمرو بن جنادہ جیسی دوسری خواتین کا کردار اسی معیار کا نظر آتا ہے، عمرو کی والدہ نے بیٹے کا سر لیا اور اسے صاف کیا، بوسہ دیا او کہا بیٹا شاباش پھر اسے دشمن کی طرف پھینکا۔

ان عظیم ماوں نے دلاواران جنگ اور مجاہدین کی ہمت افزائی میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کی فکری جدوجہد ہی تھی کہ شہید آسودہ حال میں سکون و اطمینان کے ساتھ جان دیتے جاتے تھے، ماوں کی جراتیں اور حوصلے بھی کیا تھے۔ کیا خلوص اور پاک دلی تھی، ماں محبت و احساس کی ایک دنیا ہوتی ہے، لیکن راہِ خُدا میں اس کی مامتا اور احساسات بدل گئے اور تاقیامت عظیم ماوں نے جرات و بہادری کی عظیم مثال قائم کر دی۔ کربلا کے شہداء کی ماوں سے درس عزم و صبر لیتے ہوئے ہماری مائیں اور بہنیں اگر کربلا کے شہداء کی ماوں کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ عمل بنا لیں تو سماج و معاشرہ کے حوالے ایسے بچوں کو تربیت کرکے پیش کرسکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 884816
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش