0
Tuesday 8 Sep 2020 11:30

پاکستان میں آر ایس ایس کی نئی صورت

پاکستان میں آر ایس ایس کی نئی صورت
تحریر: ثاقب اکبر

بھارت میں اس وقت آر ایس ایس کی حکومت ہے، بی جے پی اس کا سیاسی ونگ ہے۔ ہمارے وزیراعظم اسے نازی ازم کا انڈین برانڈ سمجھتے ہیں، کیونکہ تاریخی طور پر آر ایس ایس ہٹلر کے نازی ازم سے متاثر ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو نافذ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ دوسری قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کی جان ان کے نزدیک کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتی۔ آر ایس ایس کو دیکھا جائے تو وہ اسی ناپاک مشن کو پورا کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔ وہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتی ہے اور ان کے وجود کو ختم کر دینا چاہتی ہے۔ وہ گائے کو مقدس جانتی ہے اور اس کے مقابلے میں مسلمان کی جان کو بے وقعت قرار دیتی ہے۔ نظریات کے اس پورے پیکیج کو ہندوتوا کہا جاتا ہے۔ اس کے ماننے والوں نے نریندرا مودی کی قیادت میں گجرات میں جس طرح سے مسلمانوں کا قتل عام کیا، وہ تاریخ کے اوراق میں ایک سیاہ المیے کی صورت میں ہمیشہ باقی رہے گا۔ مودی اس وقت گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ اس کا خون خوار چہرہ سامنے آنے کے بعد امریکہ نے اس پر اپنے ہاں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اب چونکہ ٹرمپ خود بھی ایک بے پردہ کردار ہے، لہذا مودی جیسے عریاں قاتل سے اس کے مراسم پوری دنیا پر آشکار ہیں اور اس پر انھیں کوئی شرمساری کا احساس بھی نہیں بلکہ افتخار ہی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کردار کا نام یزید ہے، جسے اپنی حقیقت کو آشکار کرنے میں کوئی عار نہ تھی۔ وہ امام حسین ؑ اور ان کے اہل بیت کا خون بہانے کے بعد سرعام کہتا تھا کہ آج میرے بدر کے بزرگ ہوتے تو کہتے کہ یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں تو نے ہمارا بدلہ لے لیا۔ اہل بیت کے دشمنوں کے چہرے پر پہلے جو نقاب تھی، اقتدار کے نشے نے یزید کی جوانی کی مستی کے ساتھ مل کر وہ کیفیت پیدا کر دی، جسے شاعر یوں بیان کرتا ہے:
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
پاکستان میں ان دنوں ایک بظاہر مذہبی گروہ ایسی حرکتیں انجام دے رہا ہے کہ یوں لگتا ہے کہ یہ آر ایس ایس کی نئی صورت اور اس کا پاکستانی برانڈ ہے۔ یہ وہی گروہ ہے جو ہزاروں انسانوں کا خون بہا چکا ہے۔ اس خون آشام گروہ نے اپنے مخالفین کو کافر کافر کہا اور یہ بھی کہا کہ جو ان کے مورد نظر گروہ کو کافر نہ کہے وہ بھی کافر ہے۔ اس طرح درحقیقت جو اقلیتی گروہ تھا، وہ اپنے خونیں خنجروں اور تلواروں کے زور پر اس ملک میں دندناتا رہا، پھر جب ان کے منہ کو خون لگ گیا تو کوئی ان کی نظر میں قابل بخشودنی نہ رہا۔ ان کو روکنے اور منع کرنے والا ہر کوئی کافر قرار پایا۔ لہذا ہر مسلک کے اعتدال پسند اور ناصحین ان کے لیے قابل گردن زدنی ہوگئے۔ بات یہیں تک نہ رکی، ہر طرف بارود بکھیرنے والوں، انسانی چیتھڑے اڑانے والوں، انسانی سروں سے فٹبال کھیلنے والوں کو زعم پیدا ہوگیا کہ وہ اپنے اسلحے اور پراپیگنڈے کے زور پر پاکستان پر قبضہ بھی کرسکتے ہیں۔ ریاست اور اس کے اداروں کو خوفزدہ کرکے اور دباﺅ میں لا کر اپنا من پسند ایجنڈا ان پر مسلط کرسکتے ہیں۔

ان وحشیوں کے پاس اسلحہ بھی بہت تھا اور پیسہ بھی بہت۔ اس لیے وہ آپے سے باہر ہوگئے اور جی ایچ کیو پر حملہ آور ہوگئے۔ انھوں نے کامرہ اور مہران بیس کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ وہ نہتے شہریوں کا خون پیتے پیتے اب پاک افواج کے مراکز پر بھی ٹوٹ پڑے۔ وہ چیف آف آرمی سٹاف اور وزرائے اعظم کا نشانہ لینے سے بھی نہ چوکے۔ پھر جب پاکستان کے اداروں اور سیاسی قوتوں نے مل کر ان سے نمٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ زیر زمین چلے گئے۔ ان کے کئی نامور بزرگوں نے اتفاق و اتحاد کی دستاویزوں پر دستخط کر دیئے اور اپنے چہرے پر امن پسندی کی نقاب چڑھا لی۔ افسوس یہ نقاب بہت عارضی ثابت ہوئی اور اب وہ پھر ایک مرتبہ اپنے کریہہ اور وحشی چہروں کے ساتھ سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے دشمن پہلے بھی ان کے پشت پناہ تھے اور اب بھی یہ انہی کا ایجنڈا پورا کرنے کے لیے یہ سرگرم عمل ہوئے ہیں۔ ہر طرف سے ”آدم بو، آدم بو“ کی آواز آرہی ہے۔ یہ آواز انہی مردم بیزار وحشیوں کی ہے۔

انفرادی واقعات کو یہ کسی مسلک کا اجتماعی نظریہ قرار دے کر عوامی جذبات سے کھیلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کے درپے ہیں۔ ان کے پیروکاروں کی ایسی ایسی ویڈیوز اور پوسٹیں سامنے آرہی ہیں، جن سے ان کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ ان عقائد کا اظہار کریں، جو یہ کہیں۔ تاریخ کے بدنام افراد کو مقدس قرار دے رہے ہیں اور دوسروں کو بھی مجبور کر رہے ہیں کہ وہ یہی ”عقیدہ“ اختیار کریں۔ یزید کو ”رحمة اللہ علیہ“ کہنا اس کی ایک مثال ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام مسلمان یزید کو اپنے مقدسات میں شمار کر لیں۔ ایک واقعے نے مزید دل ہلا دیا کہ کربلا میں یزیدی فوج کے کمانڈر عمر ابن سعد کو برا کہنے والے ایک اہل سنت شخص کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ پولیس والوں کو اس کی حقیقت معلوم نہ ہو، لیکن مقدمہ درج کروانے والوں کو ضرور اس کی حقیقت معلوم ہے۔ جب یزید ”رحمة اللہ علیہ“ قرار پا رہا ہے تو پھر اس کے کمانڈروں کے لیے بھی ”تقدس“ کی گنجائش نکل آتی ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے، جس کے پیش نظر ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پاکستان میں آر ایس ایس کی نئی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی آر ایس ایس صرف یہ نہیں چاہتی کہ وہ ان عقائد و نظریات کی حامل ہو بلکہ وہ طاقت کے زور پر تمام دیگر مسلمانوں سے بھی یہی عقائد منوانا چاہتی ہے۔ اگر پورے ارادے کے ساتھ اسے لگام نہ دی گئی تو وہ ایسے نظریات کو تسلیم نہ کرنے والے گروہوں میں سے ایک ایک کا انتخاب کرے گی اور اپنی کارروائی آگے بڑھاتی رہے گی۔

بھارت میں ممکن ہے ہندو انتہاء پسند اور آر ایس ایس کے خونیں منصوبوں کو تسلیم کرنے والے حقیقت میں اکثریت میں نہ ہوں، لیکن جب ہندو مذہب کا عنوان اختیار کیا جاتا ہے تو پھر اس سے اکثریت ہی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اس عددی اکثریت کے زور پر وہ مسلمان اقلیت کو خوفزدہ کرکے اور اسے دیوار سے لگا کر اپنی کامیابی کا جشن منانا چاہتی ہے۔ یہی حال پاکستانی برانڈ آر ایس ایس کا ہے۔ وہ اپنے آپ کو عددی اکثریت کا نمائندہ ظاہر کرکے بظاہر عددی اقلیت کو ملیا میٹ کر دینا چاہتی ہے۔ اسے اس سے غرض نہیں کہ پاکستان پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ جیسے بھارت میں آر ایس ایس کو اندازہ نہیں کہ اس کے اس طرز عمل سے آخر کار بھارت مضبوط نہیں ہوگا بلکہ کمزور ہوکر ٹوٹ جائے گا، لیکن لہو پیتی طاقت کا نشہ انسان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ کیا پاکستان کے مخلصین اس صورتحال پر غور کریں گے۔؟

تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ قائداعظم وسیع تر ہندوستان میں رہ کر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی شرط پر کانگریس کے ساتھ تعاون پر تیار تھے، لیکن کانگریس پر اس وقت عددی اکثریت کا بھوت سوار تھا، لہذا بھارت کو ماتا قرار دینے والوں کے ہاتھوں سے ہی بھارت ٹوٹ گیا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی اقلیت نے بھارت میں اپنے مستقبل کو محفوظ نہ پایا بلکہ مخدوش دیکھا۔ تاریخ عبرت کے لیے ہوتی ہے۔ آج پاکستان میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں، لیکن مسلکی بنیاد پر نفرتوں اور وحشت آفرینی کا نتیجہ اللہ کے قانون کے مطابق ہی نکلے گا۔ اللہ کا یہ قانون تاریخ کے عروج و زوال میں کارفرما دکھائی دیتا ہے۔ آیئے پاکستان کو طاقتور بنائیں، آیئے پاکستان کے دشمنوں کو ناکام بنا دیں، لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ہم اختلاف رائے کو برداشت کرنا نہ سیکھیں، ایک دوسرے کے لیے احترام کے جذبات کا اظہار نہ کریں اور مسلکی ہم آہنگی کی راہ پر استوار نہ ہوں۔ خدا کرے ہمارے اندر یہ خصوصیات پوری قوت سے ظہور کریں اور اس کے نتیجے میں پاکستان ایک مقتدر آزاد اسلامی فلاحی ریاست کی صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہو۔
خبر کا کوڈ : 884968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش