1
Friday 11 Sep 2020 20:22

فرقہ واریت میں برطانوی اداروں کی دلچسپی

فرقہ واریت میں برطانوی اداروں کی دلچسپی
تحریر: سید اسد عباس

بی بی سی اردو برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سائٹ ہے، جو برطانوی حکومت کے زیر اثر ہے اور انہی کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے خبریں، تجزیات اور رپورٹیں شائع کرتی ہے۔ میں کافی عرصے سے بی بی سی اردو کا قاری ہوں اور ان کی خبروں، تجزیات کو بغور دیکھتا ہوں۔ بی بی سی اردو میں لکھنے والے اگرچہ سب پاکستانی ہیں، تاہم ایڈیٹر برطانوی نشریاتی ادارے کی پالیسی کے مطابق ہی خبریں، تجزیات اور رپورٹیں شائع کرتے ہیں۔ اپنے مطالعہ کے دوران میں مجھے احساس ہوا کہ بی بی سی مسلمانوں کے مابین اختلاف کے حوالے سے کسی کوشش سے دریغ نہیں کرتا۔ اس کی رپورٹیں جہاں دلچسپ ہوتی ہیں، وہیں ان کے اندر ایسا مواد موجود ہوتا ہے، جو اردو دان طبقہ کے مابین کسی نئی بحث کا آغاز کر دے۔ بی بی سی اردو کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس پر عموماً ایسی رپورٹس شائع ہوتی رہتی ہیں، جن میں جنسیات کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ یہ رپورٹیں بے معنی اور بے مقصد نہیں ہیں۔ آج میڈیا وار کا دور ہے، اس نشریاتی ادارے کی رپورٹس اکثر ذہن سازی کا کام کرتی ہیں۔ بی بی سی اردو کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ اس کی خبریں، رپورٹس اور تجزیات انتہائی تفصیلی ہوتے ہیں، جس میں اگر کچھ جھوٹ کی ملاوٹ بھی ہو تو وہ تفصیلات کے ہمراہ لوگوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس خبری سائٹ پر آپ مخصوص خبریں ہی دیکھیں گے۔ آپ کو اس سائٹ پر وہ خبریں کبھی نظر نہیں آئیں گی، جو برطانوی حکومت یا اس کے اتحادیوں کے مفاد میں نہ ہوں۔

برٹش براڈ کاسٹنگ کمپنی شاید نشریاتی اداروں کی تاریخ میں قدیم ترین ادارہ ہے، سی این این، الجزیرہ، وائس آف امریکہ، آر ٹی اور اسی طرح کے دیگر نامور ادارے عمر کے لحاظ سے بی بی سی کے بچے ہیں۔ اس ادارے کے پاس نہ فقط نشریات کی واضح پالیسی ہے بلکہ یہ ادارہ برطانوی حکومت کی پراپیگنڈہ مشین کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ 11 ستمبر، قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم وفات کی مناسبت سے بی بی سی نے ایک تحریر شائع کی ہے، جس کا عنوان ’’محمد علی جناح: معاملہ بانی پاکستان کی ایک روپیہ تنخواہ اور دو بار نمازِ جنارہ کا‘‘ ہے۔ قائد اعظم کے دو بار نماز جنازہ ادا کرنے کا معاملہ تاریخی ہے، جس کے بارے میں بی بی سی کے لکھاری نے علامہ سید انیس الحسن رضوی کی تحریر کو حوالہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ محرر لکھتے ہیں کہ: محمد علی جناح کے انتقال کے چار روز بعد سید انیس الحسنین نے صغیر حسن نقوی کو جو خط تحریر کیا اس میں لکھا: ’’یہ 11 اور 12 ستمبر کی درمیانی رات تھی۔ میں اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، میں نے دروازہ کھولا تو بتایا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہوگیا ہے اور محترمہ فاطمہ جناح نے مجھے گورنر جنرل ہاؤس بلایا ہے۔

میں سرکاری گاڑی میں گورنر جنرل ہاؤس پہنچا تو فاطمہ جناح نے بیگم نصرت عبداللہ ہارون کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں قائد اعظم کے غسل اور تکفین کا بہ طریقہ شیعہ اثناء عشری انتظام کروں اور بعد ازاں ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں۔ انیس الحسنین کے مطابق انھوں نے کھارادر میں واقع بڑے امام باڑہ پہنچ کر حاجی ہدایت اللہ عرف حاجی کلو غسال کو جگا کر قائد اعظم کی وفات کی خبر دی اور فاطمہ جناح کی خواہش سے آگاہ کیا، جس کے بعد حاجی کلو نے خوجہ اثناء عشری جماعت کے صدر سیٹھ رحیم چھاگلہ اور سیکرٹری عبدالرسول کو اطلاع کرکے ان کی اجازت سے غسل اور کفن کا تمام سامان فراہم کیا اور حاجی کلو، سیٹھ رحیم چھاگلہ اور عبدالرسول میرے ساتھ گورنر جنرل ہاؤس واپس روانہ ہوگئے۔ گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد قائد اعظم کے کمرے سے ملحق غسل خانے میں حاجی کلو اور ان کے مددگاروں نے اثناء عشری طریقے کے مطابق قائد اعظم کی میت کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔ اس کے بعد میں نے قائد اعظم کے کمرے میں نماز جنازہ پڑھائی، جس میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا، کراچی کے انسپکٹر جنرل پولیس سید کاظم رضا، سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون، آفتاب پسر حاتم علوی اور حاجی کلو وغیرہ نے شرکت کی۔

انیس الحسنین نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ: اس کے بعد میت کو راہداری میں رکھ دیا گیا، تاکہ عوام الناس آخری دیدار کرسکیں۔۔۔۔ یہاں تک کہ دن نکل آیا اور میت علموں کے سائے میں (جو بڑا امام باڑہ کھارادر سے اسی غرض سے لائے گئے تھے) فوجی گاڑی پر مقام تدفین کی طرف روانہ ہوئی، جہاں لاکھوں آدمیوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کی۔ قائداعظم کی تدفین کے بعد مولوی سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے بہ طریقہ شیعہ اثناء عشری تلقین بھی پڑھی تھی۔ تلقین پڑھائے جانے کے بعد قبر پر وزیراعظم پاکستان، وفاقی وزراء اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے مٹی دی۔ بعدازاں ہزاروں انسان سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد منتشر ہوگئے۔" بی بی سی کے کالم نگار اس وقت کراچی کے ایڈمنسٹریٹر سید ہاشم رضا کی جانب سے محمد وصی خان کے نام لکھے گئے مکتوب نیز ان کی خود نوشت سوانح عمری "ہماری منزل" کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: ’’میں قائد اعظم کی اس نماز جنازہ میں شامل تھا، جو مولانا سید انیس الحسنین رضوی نے پڑھائی تھی۔ یہ نماز اس کمرے میں ادا کی گئی تھی، جو گورنر جنرل ہاؤس کے جنوبی زیریں حصے میں ہے۔ اس نماز جنازہ میں میرے برادر بزرگ سید کاظم رضا اور یوسف ہارون بھی شریک تھے۔‘‘

درج بالا واقعہ ایک تاریخی حقیقت ہے، جس کو میں نے مولانا سید انیس الحسنین رضوی کے فرزند ڈاکٹر سید حسن رضوی کی زبانی بھی سنا ہے۔ جس کا آڈیو ریکارڈ شاید اس وقت بھی ہمارے پاس کسی فائل میں محفوظ ہو۔ ڈاکٹر حسن رضوی کے مطابق وہ اس وقت کمسن تھے، انھوں نے رات کے وقت پولیس کی گاڑیوں کا گھر پر آنا اور والد کا شیروانی پہن کر نکلنا نیز اپنا خوف و ہراس بھی اس واقعہ میں شامل کیا، باقی تفصیلات تقریباً یہی تھیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ملک میں موجود اس وقت کی فرقہ وارانہ فضا میں قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم وصال پر ان کے حوالے سے ایسی تحریر پیش کرنے کا مقصد فرقہ وارانہ بحث کو بڑھاوا دینے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔؟ یہ ہے بی بی سی اردو کی کارگزاری قائداعظم محمد علی جناح جیسی غیر متنازعہ شخصیت جو مسلک کو انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتی تھی اور جنھوں نے برصغیر پاک و ہند کے تمام مسلمانوں کے قیادت کرتے ہوئے انھیں ایک آزاد وطن مہیا کیا کو ایک متنازعہ کردار کے طور پر پیش کرنا جبکہ ملک میں فرقہ واریت کا طوفان زور پکڑ رہا ہے نہایت معنی خیز اقدام ہے۔

ہمیں ملک میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کی کوششوں کا کھوچ لگانے کے لیے اپنے پرانے حاکم کے اداروں سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیئے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ برطانیہ کے ادارے تقریباً تمام مسلمان ممالک میں سازشوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث پائے گئے ہیں۔ ایران کا انقلاب سبز ہو یا شام پر مختلف طاقتوں کی چڑھائی، بحرین، سعودیہ اور امارات کے اسرائیل سے تعلقات ہوں یا فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق پر قبضہ سب کے پیچھے برطانوی ادارے موجود ہیں۔ اس بوڑھے سامراج کو ناتواں سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔ امریکہ اس بوڑھے سامراج کا بازوئے شمشیر زن ہے جبکہ دماغ اور معلومات اسی کی استعمال ہو رہی ہے۔ برطانوی سامراج نے اپنے مقبوضہ علاقوں پر جتنا علمی کام کیا ہے، شاید ہی کسی حاکم نے کیا ہو۔ ہمیں اس ملک اور اس کے تحت کام کرنے والے اداروں کی تمام کوششون سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے، تاکہ وطن عزیز کسی ناگہانی آفت سے دوچار نہ ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 885674
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش