0
Sunday 13 Sep 2020 00:32

سرعام شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرنیوالے یزیدی شتر بے مہار کیوں؟

سرعام شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرنیوالے یزیدی شتر بے مہار کیوں؟
تحریر: محمد حسن جمالی

پاکستانی حکمران یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ ہم نے ملک میں فسادات پھیلانے والوں کو کمزور کر دیا ہے، ہم نے فرقہ واریت کی وبا پر قابو پا لیا ہے، ہم پاکستان کو دہشتگردوں کے نجس وجود سے پاک کرکے ہی دم لیں گے، ہم مذہبی جنونیت کو ہوا دینے والے عناصر کو پاکستان میں سر چھپانے کی جگہ نہیں دیں گے اور ہم فرقہ واریت کی آگ جلانے والوں کو عبرتناک سزا دلوانے میں ہرگز دیر نہیں کریں گے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ پاکستان کی سرزمین پر فرقہ واریت کی جنگ نہ صرف کم نہیں ہوئی ہے، بلکہ روز بروز عروج پا رہی ہے، ایک خاص طبقے کے مذہبی مقدسات کی برسرعام کھلی توہین ہو رہی ہے، مختلف بہانوں کا سہارا لیتے ہوئے بعض مغرض افراد پوری منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور انتشار پیدا کرنے میں سرگرم ہیں۔ اسی ٹولے کے ہاتھوں پاکستان کی سرزمین پر غریب عوام کی بہت بڑی تعداد کی جان، آبرو اور مال کا ضیاع ہوا ہے۔ وطن عزیز میں فرقہ واریت کی وبا میں کمی ہونے کے بجائے عوام الناس کے لئے امن اور انصاف ناپید ہوتے جا رہے ہیں، جب ہم اس سنگین صورتحال کے وجوہات تلاش کرتے ہیں تو بہت سارے اسباب ہمیں دکهائی دیتے ہیں، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ فرقہ واریت کی لعنت کے عروج پانے میں دخیل ہیں۔ ہماری نظر میں سب سے اہم سبب نظام حکومت کی کمزوری ہے۔ ہماری ریاست کے اندر سزا و جزاء کے مؤثر قانون کا نہ ہونا ہےـ 

جناب وزیراعظم عمران خان کو وطن عزیز پاکستان میں مذہبی منافرت پھیلانے والے انسان نما درندوں کو لگام دینے کے لئے ٹھوس نظام وضع کرنا ناگزیر ہے، خاص طور پر عوام الناس کو ناموس و عظمت صحابہ کی آڑ میں شیعہ مسلمانوں کی تکفیر پر اکسانے والے سعودی تکفیری سلفی ایجنٹ مولویوں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دلوانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئےـ وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر اعلیٰ عہدہ داران کو اس بات پر یقین کر لینا چاہیئے کہ یہ فسادی گروپ پاکستان کا ہرگز خیر خواہ نہیں، بلکہ یہ وہی بے شرم مٹھی بھر ٹولہ ہے، جو پاکستان بننے کا مخالف تھا، پاکستان کو کافرستان کہتا رہا ہے، یہ قبضہ گروپ ہے، جو ہمیشہ ریاست پاکستان کے قوانین کی کھلی مخالفت کرنے کو اپنی پہچان بناتا رہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو ذرا ہوش کے ناخن لینا ضروری ہے، انہیں اپنے قول اور فعل کے تضاد کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیئے کہ آخر کب تک وہ اپنی چرب زبانی اور بے جان شعار کے ذریعے عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے؟

کب تک وہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے یزیدی ٹولے کو بے لگام گدھے بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں گے؟ کب اور کہاں تک وہ شیعہ قوم کے صبر کا امتحان لیتے رہیں گے۔؟ کب تک وہ شیعہ عزاداروں کے خون کو تکفیری دہشتگردوں کی خوراک بنا کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوکر تماشائی بنے رہیں گے۔؟ یہ کیا ہے کہ جہاں بھی کوئی سانحہ ہوتا ہے یا دہشتگردوں کا حملہ ہوتا ہے یا ملت تشیع کے خلاف ریلیاں نکال کر بکواسات بکے جاتے ہیں تو مجرموں کو بے لگام گدھا بناکر رکھ دیا جاتا ہے، زیادہ سے زیادہ حکمران مذمتی بیان میڈیا پر نشر کروانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ہمیں بہت افسوس ہوا، ہم دہشتگردوں، مجرموں اور ریاست پاکستان کے قوانین کا کھلا چیلنچ کرنے کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ لیکن عملی میدان میں وہ دہشتگردوں اور مجرموں کے خلاف نہ کوئی کارروائی کرواتے ہیں اور نہ ہی پوری توجہ سے ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے تکفیری دہشتگرد برسرعام شیعہ کافر کا نعرہ بلند کرکے پاکستان کی گلی کوچوں میں بلاخوف دندناتے پهرتے ہیں۔

کیا پاکستان کے واضح قوانین کو پاوں تلے روندنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرنا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ کیا فسادات پھیلانے والوں کو جیل کی بند کوٹھریوں کی زینت بنانا عدلیہ اور ادارہ پولیس کا وظیفہ نہیں؟ کیا پاکستان میں 6 کروڑ سے زیادہ تعداد پر مشتمل عظیم ملت تشیع کے خلاف آئے روز جہالت اور منافرت پر مبنی بلند ہونے والی آوازوں کو دبانا اور اس کے سہولت کاروں کی شرارتوں کو سمجھ کر شرارت کرنے والے عناصر کو عبرتناک سزا دلوانا حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری نہیں؟ کیا وطن عزیز میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے والے ناصبی یزیدیوں کو لگام دینا ریاست کی ذمہ داری نہیں؟ اگر ملک میں فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر روز بروز جری تر کیوں ہوتے جا رہے ہیں تو ان سے نمٹنے کے لیے حکمرانوں کی جانب سے ”سنجیدگی” سے کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟

حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پاکستان کی ترقی و تکامل مشروط ہیں امن سے۔ امن و سلامتی کے بغیر پاکستان کی ترقی یقیناً ایک خواب ہے۔ جب تک پاکستان میں امن و امان مضبوط و مستحکم نہیں ہوتا، جب تک مسلمان آپس میں متحد اور بھائی چارگی سے نہیں رہیں گے اور جب تک سب ملکر فرقہ واریت کی فضا پیدا کرنے والوں کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے، نہ وطن عزیز کا علمی، فنی، اقتصادی اور سیاسی کمالات کے مدارج طے کرنا ممکن ہے، نہ ہی پاکستان کے باشندوں کو خوشحال زندگی کا میسر آنا ممکن ہے۔ قیام پاکستان کا مقصد ہی مسلمانوں کو ہندووں کے ظلم و ستم کے چنگل سے نکال کر آزادی، امن، چین اور سکون فراہم کرنا تھا۔ قائداعظم اور علامہ محمد اقبال کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہمارے بعد پاکستان کے باسی بدترین غلامی اور مظالم کے دلدل میں پھنس کر موت و حیات کی کشمکش میں زندگی کے لمحات گزاریں گے اور حکمران عوامی مشکلات اور مسائل سے یکسر غافل ہو کر اپنی عیاشی میں مست رہیں گے۔

بانی پاکستان نے تو مسلمانوں کو امن اور سکون کی فضا میں معاملات اور عبادات بجا لانے کے لئے ہندوں سے جداگانہ ریاست کے لئے جدوجہد کی تھی، لیکن آج حکمرانوں کی بے حسی و عدم توجہ کے سبب اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہوئی مملکت مسلمانوں کے لئے جہنم بنی ہوئی ہے۔ اسلام تو اوّل تا آخر، امن ہے، اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ جو چیز بھی امن کے لیے نقصان دہ، امن سے متصادم اور امن کی مخالف ہے، اس کا اسلامی تعلیمات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کسی کا بھی رویہ دہشت گردی، انتہاء پسندی، انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ضرر رساں ہو یا امن عالم اور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو، وہ ہمارے عقیدے میں مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ بلا تردید شیعہ مسلمانوں کی برسرعام تکفیر کرنے والے دہشت گرد ہیں، یہ میں نہیں کہتا اہلسنت کے نامور عالم دین جناب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں: بے گناہ انسانوں کا قتل دہشت گردی ہے۔

اِسی طرح اِنسانی اَملاک کو تباہ کرنا، دوسروں کی جان و مال اور عزت کے لیے انہیں ہراساں کرنا، نظامِ زندگی کو درہم برہم کرنا، دنگا فساد، گھیراؤ کی دھمکی دینا اور دھمکیوں کے ساتھ ہڑتالیں کروانا، سکیورٹی کو خطرے میں ڈال دینا۔ دوسروں کے مذہب پر حملہ کرنا، ان کی آزادی پر حملہ خواہ وہ کسی بھی نام پر ہو، یہ دہشت گردی ہے اور جو ان کا اِرتکاب کرے، وہ دہشت گرد ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ یہودی، نہ عیسائی۔ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ دہشت گردی مذہب سے بے گانہ ہے بلکہ یہ خود ایک مذہب، کلچر اور طرزِ عمل کی صورت اِختیار کرچکی ہے۔ یہ کسی آسمانی نازل شدہ مذاہب پر کوئی یقین نہیں رکھتی۔ قرآن مجید ان فتنہ پروروں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نسلِ انسانی کے دشمن ہیں۔ باوجود اپنے طریقے، مذہب، معاشرے یا زبان کے اسے مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہر انصاف پسند مسلمان کا ارباب اختیار سے یہ سوال ہے کہ بر سرعام شیعہ مسلمانوں کی تکفیر کرنے والے یزیدی شتر بے مہار کیوں۔؟
خبر کا کوڈ : 885934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش