0
Sunday 13 Sep 2020 15:30

محرّم کے جلوسوں کیخلاف واویلا

محرّم کے جلوسوں کیخلاف واویلا
تحریر: نصرت علی شہانی

برِّصغیر میں رسول اکرمﷺ کے میلاد اور اُن کے نواسے حسینؑ کی یاد میں تقریباً ایک صدی سے نکالے جانے والے جلوس ایک خاص انتہاء پسند طبقے کے علاوہ تمام مسلمانوں کی دینی سماجی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہیں۔ ایک منصوبے کے تحت انتشار پیدا کرنے کے لئے بعض عناصر ایک بار پھر ان جلوسوں کے خلاف صف آراء ہوگئے ہیں۔ حالانکہ شکاگو کے غیر مسلم مزدوروں کے حق میں نکلنے والے یکم مئی کے جلوسوں سے لے کر سیاسی و دینی جماعتوں کے بین الاقوامی تبلیغی اجتماعات، دھرنوں، جلوسوں کے خلاف ان مفتیوں کی طرف سے نہ تو فتوے جاری کئے جاتے ہیں، نہ احتجاجی ریلی اور نہ ہی اسے زندگی کا کاروبار معطّل ہونے کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ گویا وہ جلوس، دھرنے فضائوں میں ہوتے ہیں، جن سے معمولاتِ زندگی ذرّہ بھر متاثر نہیں ہوتے۔ مُلک بھر میں عزاداری کے نکلنے والے لاکھوں جلوسوں میں شاید ایک آدھ میں قابلِ اعتراض بات ہوئی ہو، لیکن اِن مخالفین کے ایک ہی جلوس میں جو بابائے قوم کی وفات کے دن اُن کے شہر اور مزار کے سامنے نکالا گیا اور اُن کے مسلک کے خلاف جن مغلّظات کا اظہار کیا گیا، وہ تقابل کے لئے کافی ہے۔

فقط محرم کے جلوسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرنے والے مفتی تقی عثمانی نے حالیہ تحریری بیان کا آغاز صحابہ کی عظمت سے کیا۔ بلاشبہ جو صحابہ رسول اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق زندگی بھر قرآن اور اہلبیتؑ سے متمسّک رہے، وہ عظیم مرتبہ پر فائز ہیں، لیکن جن پر عہدِ رسالت یا بعد میں شرعی حد جاری ہوئی یا جن پر کربلاء اور مکہ، مدینہ کی تاراجی، اصحاب و دیگر مسلمانوں کی بیٹیوں کی عصمت دری کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُن کے بارے میں ذمہ دار علماء کی رائے مختلف ہے۔ واضح رہے کہ اہلسنت کے علمی حلقوں میں ’’صحابی‘‘ کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں۔ امام بخاری، امام احمد بن حنبل، قاضی ابو بکر محمد بن الطیب، سعید بن المسیب اور دیگر اکابر علماء کے نظریات تاریخ کا حصہ ہیں۔ شیعہ فقہاء، بزرگانِ دین نے اسلامی مسالک کے اکابرین کی توہین کو ناجائز قرار دیا ہے۔

مفتی عثمانی کے بقول چونکہ محرم کے جلوس فرض یا واجب نہیں، لہٰذا اِن پر پابندی عائد کی جائے۔ آئین و قانون کے سراسر منافی، ناقابلِ قبول مطالبہ کرنے والے عثمانی صاحب جانتے ہیں کہ مسجد میں جانا واجب نہیں، نماز پڑھنا واجب ہے، جو گھر پر بھی ادا کی جا سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں مقامات پر ہر جمعہ کو گلیاں، سڑکیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ جمعۃ الوداع اور عیدین پر یہ مسائل اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں، لہٰذا مفتی کے استدلال کے مطابق تو مساجد میں اجتماعات کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہ امن و امان کا مسئلہ، نہ حکومت کے بھاری سکیورٹی اخراجات اور نہ زندگی کا کاروبا ر معطل۔۔۔ اگر مفتی عثمانی کی مراد کاروبار، تجارت کا معطل ہونا ہے تو مذکورہ بالا دیگر بکثرت جلوسوں، اجتماعات میں فقط محرم ہی کے جلوس، اجتماعات میں مُلکی معیشت ترقی کرتی ہے، اربوں روپے نذر، نیاز، تبرّک، لنگر پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ آئین و قانون کے مطابق یہ مذہبی رسومات صدیوں سے جاری ہیں اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہیں گی۔ حکومت فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عمل پیرا قوتوں کی سرکوبی کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ملک و ملّت کو کسی نئی آزمائش سے بچائے۔
خبر کا کوڈ : 885998
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش