1
Monday 14 Sep 2020 21:32

قطر میں انٹرا افغان امن مذاکرات

قطر میں انٹرا افغان امن مذاکرات
تحریر: فرہاد ہمتی

کئی ماہ کی کشمکش کے بعد آخرکار قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہفتہ 12 ستمبر کے دن سے حکومتی وفد اور طالبان کے درمیان انٹرا افغان امن مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ قطر میں منعقد ہونے والا یہ اجلاس اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جس میں افغانستان کے متخاصم دھڑے شریک ہو رہے ہیں۔ چونکہ اس اجلاس میں افغانستان کے کئی حکومتی عہدیدار بھی شامل ہیں لہذا یہ اس سے پہلے ماسکو میں منعقد ہونے والے دو اجلاس سے قدرے مختلف ہے۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے موجود افغان حکومتی وفد کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کر رہے ہیں جن کے پاس قومی مصالحتی اعلی کونسل کی سربراہی کا عہدہ بھی ہے۔ افغانستان کے ذرائع ابلاغ کے بقول جنگ بندی کا قیام، جمہوریت کا دفاع اور آئین کی بالادستی ایسے موضوعات ہیں جن پر زور دیا جائے گا۔
 
مختلف سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار قطر میں شروع ہونے والے ان انٹرا افغان امن مذاکرات کے بارے میں مختلف قسم کی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس بارے میں دو بڑی رائے پائی جاتی ہیں۔ پہلی رائے کے مطابق افغانستان کے مختلف دھڑوں کے درمیان براہ راست بات چیت اس ملک میں پائیدار امن کے قیام کی جانب اہم اور سنجیدہ قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس رائے کے حامی تجزیہ نگاروں کا دعوی ہے کہ انٹرا افغان امن مذاکرات افغانستان میں گذشتہ کئی عشروں سے جاری جنگ کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور افغانی شہری کئی سال جنگ اور قتل و غارت کے بعد آخرکار پرامن زندگی سے لذت اندوز ہو سکیں گے۔ ایسی ہی رائے رکھنے والے ایک افغانی سیاست دان اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے ماہر عبداللطیف نظری ہیں۔
 
عبداللطیف نظری اس بارے میں کہتے ہیں: "اگر ان انٹرا افغان امن مذاکرات میں طاقت کی منصفانہ تقسیم انجام پا جائے تو اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ افغانستان میں کچھ حد تک امن اور استحکام پیدا ہو جائے گا اور یوں دھیرے دھیرے ایک معینہ مدت میں اس چالیس سالہ سکیورٹی بحران پر قابو پانا ممکن ہو جائے گا۔" دوسری طرف بعض دیگر تجزیہ نگار اور سیاسی ماہرین اور افغانستان کی کئی اہم سیاسی شخصیات ان مذاکرات کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پا چکا ہے جبکہ دوسری طرف برسراقتدار دھڑا انتشار کا شکار ہے جس کے باعث ملک پر ایک بار پھر طالبان مسلط ہو جانے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔
 
افغانستان کے صدر کے سابق مشیر اور معروف قانون دان عبدالعلی محمدی طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے اور موجودہ انٹرا افغان امن مذاکرات پر اس کے اثرات کے بارے میں کہتے ہیں: "طالبان سے امن معاہدے کی روشنی میں امریکی حکام عملی طور پر افغانستان میں حکومت کی نوعیت کا اختیار طالبان کو دے چکے ہیں۔ اب یہ طالبان پر ہے کہ وہ دیگر سیاسی دھڑوں کو راضی کر کے ملک میں کس قسم کی حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے۔" دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان مذاکرات میں خاص دلچسپی لے رہے ہیں کیونکہ ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا یا بے نتیجہ ہو جانا آئندہ صدارتی الیکشن میں ان کی پوزیشن کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انٹرا افغان امن مذاکرات میں شمولیت کیلئے وزیر خارجہ مائیک پمپئو کو قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجا ہے۔
 
دوسری طرف بعض ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان اور حکومتی وفد کے درمیان شدید اختلافات اور تنازعات کے باعث انٹرا افغان امن مذاکرات طویل مدت کیلئے جاری رہیں گے اور انتہائی مختصر مدت میں ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونے کی امید لگانا معقول نہیں ہے۔ امریکہ کی وزارت خارجہ میں افغانستان اور پاکستان ڈیسک کے سابق سربراہ لاوریل میلر کم از کم تین مہینے سے پہلے ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونے کو ناممکن قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: "اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں ہے کہ امریکی حکام نومبر سے پہلے پہلے ان مذاکرات کو نتیجہ خیز ثابت ہونا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ماہرین اس بارے میں حتمی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ لیکن میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ تین نومبر تک کسی بھی صورت میں ان مذاکرات کا حتمی نتیجہ سامنے نہیں آ سکتا۔"
 
 واشنگٹن میں انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ پولیٹیکس سے وابستہ محقق حسن عباس اس بارے میں کہتے ہیں: "موجودہ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان عوام امن کے خواہاں ہیں جبکہ دوسری طرف طالبان طاقت کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ انٹرا افغان امن مذاکرات شور شرابے کے ساتھ ہوں گے اور طولانی ہوں گے۔ ان مذاکرات کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ثالثی انجام دینے والی قوتیں معتبر اور غیر جانبدار ہوں۔ یہ مذاکرات ممکن ہے ایک سال تک جاری رہیں۔" بعض ماہرین کا خیال ہے کہ طالبان اتنی آسانی سے جنگ بندی پر راضی نہیں ہوں گے کیونکہ یہ گروہ جنگ کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے ضروری سمجھتا ہے۔ دوسری طرف طالبان جنگ کے میدان میں فوجی کامیابیوں کو حکومت کے ساتھ مذاکرات میں کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 886231
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش