0
Thursday 17 Sep 2020 20:00

مقبوضہ کشمیر، نوجوان کی پُراسرار ہلاکت

دوران حراست شہید کیا گیا، اہل خانہ
مقبوضہ کشمیر، نوجوان کی پُراسرار ہلاکت
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر کے جنوبی قصبہ سوپور میں ایک 24 سالہ نوجوان عرفان احمد ڈار کی مبینہ طور پر پولیس حراست میں شہادت کے خلاف لوگوں نے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے کئے۔ اہل خانہ نے واقعہ کی جوڈیشل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پولیس کا الزام ہے کہ مذکورہ نوجوان عرفان احمد ڈار عسکریت پسندوں کے لئے خفیہ طور پر کام کرتا تھا اور پولیس حراست کے دوران فرار ہوا، جس کے بعد اس کی لاش برآمد کی گئی۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی سوپور میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا، انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی اور بازار بند ہوئے۔

اہل خانہ کی فریاد
عرفان احمد کے بڑے بھائی جاوید احمد ڈار نے اپنے گھر کے باہر خواتین کی آہ و فغان کے بیچ میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں، ڈیڑھ ماہ کی فوٹیج چیک کریں اور اس کے علاوہ میرے اور میرے بھائی کے موبائل فونز کو چیک کریں، اگر کچھ مشکوک نکلا تو جو چاہیں ہمارے ساتھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ عرفان کو منگل کو دن کے پونے ایک بجے پولیس نے گرفتار کیا جبکہ مجھے چار بجے گرفتار کیا گیا اور وہاں ہمیں کہا گیا کہ آپ کا راز فاش ہوگیا ہے۔ جاوید احمد نے کہا ’’عرفان میرا بھائی ہی نہیں بلکہ میرا دوست بھی تھا، وہ میرے ساتھ ہر بات اور ہر مسئلہ شیئر کرتا تھا، وہ صبح سات بجے سے شام نو دس بجے تک دکان پر کام کرتے تھے۔‘‘ جاوید احمد نے کہا کہ دس روز قبل ہمارے گھر کی تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا ’’دس روز قبل قابض فورسز نے ہمارے گھر کا محاصرہ کیا، کوئی الماری، کوئی چیز اب سالم نہیں ہے، ہم نے ان سے کہا کہ آپ کیمرہ چیک کریں اور دیکھیں کہ یہاں کون آتا جاتا ہے، یہاں کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا۔‘‘

جاوید احمد نے کہا ’’گرفتاری کے بعد ہم دونوں کو فوجی کیمپ میں الگ الگ رکھا گیا۔‘‘۔جاوید احمد نے مزید کہا ’’میں بیمار تھا اور رات کے تقریباً 11 بجے مجھے پولیس نے رہا کر دیا لیکن میرے چھوٹے بھائی کو حراست میں ہی رکھا گیا۔‘‘ جاوید احمد نے کہا کہ اُس کے مہلوک بھائی عرفان کا کسی عسکری تنظیم یا ملی ٹنٹ سرگرمیوں سے کوئی تعلق ہرگز نہیں تھا، میرا بھائی بے گناہ تھا اور وہ اپنے گھر کے ساتھ ہی ایک دکان چلاتا تھا۔ جاوید کا مزید کہنا تھا کہ عرفان غیر شادی شدہ تھا اور بقول اُس کے پولیس کی جانب سے عرفان کی تحویل سے کچھ اسلحہ برآمد کئے جانے کا دعویٰ بے بنیاد اور سراسر جھوٹ ہے۔ جاوید احمد نے عرفان کی دوران حراست ہوئی ہلاکت کے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ عرفان کے گھر والوں نے اُس کی ہلاکت کو ”زیر حراست قتل“ قرار دیا ہے۔

مقامی لوگوں کے مظاہرے
سوپور قصبہ کی صدیق کالونی کے علاقے میں رہنے والے جس نوجوان دکاندار عرفان احمد ڈار کو پولیس نے منگل کے روز گرفتار کیا تھا، اُس کی دوران حراست موت واقعہ ہونے کی خبر پھیلتے ہی قصبہ میں تشویش اور قابض فورسز کے خلاف ناراضگی کی لہر دوڑ گئی۔ اس دوران مہلوک نوجوان عرفان کے آبائی علاقہ صدیق کالونی سے خواتین نے ایک جلوس نکالا اور انہوں نے نعرے بازی کرتے ہوئے سب ڈسٹرکٹ اسپتال سوپور تک مارچ کیا جبکہ اقبال مارکیٹ کے نزدیک بھی کچھ خواتین نے جمع ہوکر احتجاج کرتے ہوئے آزادی کی حمایت اور قابض فورسز کے خلاف نعرے لگائے۔ صدیق کالونی کے عقب سے گزرنے والے بائی پاس روڑ پر بھی کچھ لوگوں نے جمع ہوکر احتجاج کیا۔ کچھ وقت کے لئے قصبہ سوپور میں کاروباری سرگرمیوں اور گاڑیوں کی نقل و حمل میں رکاؤٹ پیدا ہوئی، تاہم بعد ازاں صورتحال معمول پر آگئی۔ پولیس نے نوجوان کی لاش پہلے ہی سرینگر کنٹرول روم بھیجی تھی، جس کے بعد اسے سونہ مرگ میں پولیس سٹیشن کے احاطے میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔ اس طرح اس نوجوان کی لاش بھی ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئی۔

اس دوران سماجی کارکنوں اور مزاحمتی قائدین کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (م) نے سوپور کے عرفان احمد ڈار کی ہلاکت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ایک بیان میں حریت کانفرنس (م) نے کہا کہ حالیہ شوپیان فرضی مقابلے میں مارے گئے ابھی انصاف کے منتظر ہی تھے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سوپور سے تعلق رکھنے والے ایک 24 سالہ نوجوان عرفان احمد ڈار جسے 14 اگست 2020ء کو حراست میں لیا گیا تھا، کو بہیمانہ طور پر ہلاک کر دیا گیا ہے، جس کا مقصد عام لوگوں میں خوف و ہراس کے ماحول کو قائم رکھنا ہے، جو حد درجہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ حریت کانفرنس نے حقوق انسانی کے علمبردار تمام اداروں سے اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کی ان بے دریغ پامالیوں پر توجہ مبذول کریں اور انہیں انصاف دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
خبر کا کوڈ : 886788
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش