1
Thursday 17 Sep 2020 19:28

عرب حکمرانوں سے دوستی کے بعد اسرائیل مخالف محاذ کی نئی صورتحال

عرب حکمرانوں سے دوستی کے بعد اسرائیل مخالف محاذ کی نئی صورتحال
تحریر: ڈاکٹر محمد السعید ادریس (کالم نگار ڈیلی الاہرام مصر)

جمعرات 15 ستمبر 2020ء کے دن امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک اہم تقریب منعقد ہوئی جس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اعلی سطحی حکومتی عہدیدار بھی موجود تھے۔ اس تقریب کا مقصد اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان دوستانہ تعلقات کو منظرعام پر لانا تھا۔ یہ دن مشرق وسطی میں جاری سیاسی اور فوجی محاذ آرائی کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہو گا۔ یہ تبدیلیاں دو محاذوں پر رونما ہوں گی۔ ایک اسرائیل عرب محاذ جبکہ دوسرا اسرائیل ایران محاذ۔ اس وقت خطے میں دو قسم کے اسرائیل مخالف محاذ پائے جاتے ہیں۔ ایک محاذ بعض عرب گروہوں اور ممالک پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا محاذ ایران کی مرکزیت میں پایا جاتا ہے۔
 
1)۔ اسرائیل مخالف عرب محاذ
غدار عرب حکمرانوں کی جانب سے اپنا اصلی چہرہ عیاں کرنے اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے نتیجے میں مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق کیلئے سرگرم فلسطینی گروہ اور ان کے حامی عرب ممالک اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ بعض فلسطینی گروہ ماضی میں امریکی حکمرانوں کے جھوٹے وعدوں کی لالچ میں دھوکے کا شکار تھے اور غاصب صہیونی حکمرانوں سے امن مذاکرات میں مصروف تھے۔ وہ امید کر رہے تھے کہ گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے اور مستقبل قریب میں تمام فلسطینی گروہوں اور عوام کی جانب سے متحد ہو کر اپنے حقوق کے حصول کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کا امکان ہے۔
 
امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں نے بعض عرب حکمرانوں کے ساتھ امن معاہدے میں "قیام امن" کا معنی واضح انداز میں بیان کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "یہ معاہدہ بہت مطلوبہ حالات میں انجام پایا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر عرب ممالک نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اسرائیل جیسے ہے ایسے ہی باقی رہے گا اور ہم اسے موجودہ صورتحال میں ہی قبول کرتے ہیں۔" امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا: "مسئلہ فلسطین سے متعلق روایتی راہ حل جو اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے سے پہلے پیش کیا گیا تھا اب کوئی افادیت نہیں رکھتا۔" مائیک پمپئو کے اس بیان کا واضح مطلب مقبوضہ فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو قانونی حیثیت عطا کرنا ہے۔
 
12 ستمبر 2020ء کے دن فلسطینی گروہوں نے ایک جرات مندانہ اقدام انجام دیتے ہوئے لبنان میں مشترکہ اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس میں تحریک آزادی فلسطین پی ایل او کی اجرائی کمیٹی کے رکن عزام الاحمد نے ایک مشترکہ سیٹ اپ کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا نام "عوامی مزاحمت کی قومی اور متحدہ قیادت" رکھا گیا تھا۔ اس مشترکہ قیادت نے اپنا پہلا بیانیہ جاری کرتے ہوئے 15 ستمبر کے دن متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اس دن کو انتفاضہ کی بنیاد پر اسرائیل سے سازباز کو مسترد کرنے کا دن قرار دیا۔ اسی طرح اس بیانیے میں آنے والے جمعے کو "روز عزا" قرار دیا گیا اور تمام فلسطینی گروہوں سے اندرونی اختلافات فراموش کر کے اسرائیلی قبضے کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دینے کی دعوت دی گئی۔
 
2)۔ ایران کی مرکزیت میں اسرائیل مخالف محاذ
خطے میں ایران کی مرکزیت میں اسرائیل مخالف محاذ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بعض عرب حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ میں نئے قوانین سامنے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران ایران اور اسرائیل کے درمیان شدید ٹکراو دیکھا گیا ہے۔ اس ٹکراو کی شدت خاص طور پر جنوبی لبنان اور شام کے محاذوں پر بہت واضح انداز میں محسوس کی گئی ہے۔ اسی طرح اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف بھی بہت زیادہ سرگرم نظر آیا ہے۔ اسرائیل اپنی سرحدوں کے قریب ایران کی فوجی موجودگی سے شدید خوفزدہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے لبنان اور شام میں جارحانہ اقدامات انجام دیے ہیں۔
 
دوسری طرف اسرائیل ایران کی جانب سے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے بھی شدید پریشان ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اسرائیل کچھ حد تک ایران کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے قابل رہا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایران کو لبنان اور شام سے نکال باہر کرنے میں مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیل کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ امریکہ کو ایران سے جوہری معاہدے سے باہر نکال کر ایران پر دباو کی شدت میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن اس مقصد میں بھی اسرائیل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ لہذا اب وہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر کے خلیج فارس خطے تک رسائی حاصل کرنے کے درپے ہے اور یوں ماضی کی ناکامیوں کا ازلہ کرنا چاہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 886827
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش