0
Friday 18 Sep 2020 14:53

گلگت بلتستان صوبے کی بازگشت، قانونی پیچیدگیاں اور تاریخی حقائق

گلگت بلتستان صوبے کی بازگشت، قانونی پیچیدگیاں اور تاریخی حقائق
تحریر: شیر علی انجم

یہ گلگت بلتستان کے عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت آج بھی سیاسی اور تاریخی طور پر اپنے خطے کے حوالے سے لاعلمی کا شکار ہیں۔ ماضی میں پڑھایا گیا کہ ہمارا تو الحاق ہوگیا ہے اور بس حقوق ملنا باقی ہے اور اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کشمیری عوام ہیں، جو گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یعنی وہ چند لوگ جن کے اختیار میں اپنے علاقے کے اختیارات عملی طور پر نہیں ہیں، وہ حقوق گلگت بلتستان کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
پھر ہوا ہوں کہ چند لوگوں نے تاریخ کے اندھیروں میں ہاتھ ڈال کر کچھ اوراق نکالے تو معلوم ہوا کہ معاملہ تو کچھ اور ہے، ہمارا مسئلہ بین الاقوامی ہے۔ جس پر پاکستان دستخط کرچکا ہے اور اقوام متحدہ کا چارٹرڈ 13 اگست 1948ء، جس میں اقوام عالم ضامن اور پاکستان و ہندوستان نے فریق کی حیثیت سے دستخط کئے ہوئے ہیں۔ اس قرارداد میں کیا لکھا تھا؟ تعجب اور ہماری خواہشات کے برعکس کی کہانی تھی۔

ہمارے لئے دکھ کی بات یہ تھی کہ پاکستان نے اس قرارداد کو تسلیم کرکے دستخط بھی کر دیئے تھے اور ہم سے مقامی سطح پر کہا جا رہا تھا کہ بس حقوق چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں اور بہت قریب ہمارے آنگن میں حقوق کی شمع روشن ہو جائے گی۔ اُس قرارداد کے مطابق پاکستان اور ہندوستان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 84 ہزار مربع میل ریاست جموں و کشمیر اقصائے تبتہاہ ایک ملک ہے، جو تقسیم ہند کے بعد رسہ کشی کا شکار ہوگیا اور متنازعہ بن گیا۔ اس ریاست پر چونکہ پاکستان کے قبائلی لشکر حملہ آور ہوئے تھے، اس بناء پر ریاست کے سربراہ مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کو بچانے کیلئے ہندوستان سے مدد مانگی اور ہندوستان نے مدد کیلئے الحاق کی شرط رکھی۔ یوں مہاراجہ نے تین سبجیکٹ کی بنیاد پر الحاقی دستاویز پر دستخط کرکے جموں کشمیر لداخ میں ہندوستانی فوج کی آمد کو قانونی حیثیت دے دی۔

تاریخ کہتی ہے کہ جب مہاراجہ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تو دوسری طرف گلگت لداخ کے اندر بغاوت کی صداوں نے بلند ہونا شروع کر دیا اور کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں مہاراجہ فوج کے افسران نے فوج سے بغاوت کا اعلان کرکے گلگت میں تعینات گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے الگ ریاست کا اعلان کرکے باقاعدہ کابینہ تشکیل اور خود مرزا حسن خان آرمی چیف اور شاہ رئیس خان ریاست کے صدر منتخب ہوئے۔ یاد ریے یہ سارا کام باقاعدہ طور پر عوام کو اعتماد میں لیکر انجام پایا تھا۔ لیکن برطانوی سامراج ایجنٹ گلگت میں تاج برطانیہ کا آخری افسر میجر بروان کو حسن خان نے اپنے ماتحت کر دیا تھا۔ بس چال شروع ہوگئی اور انقلاب گلگت نے صرف 16 دنوں میں دم توڑ دیا اور میجر بروان فرقہ واریت کا پتہ خوب کھیلا، جس میں اسے کامیابی ملی۔ یوں پاکستان سے آئے ہوئے ایک رابطہ افسر کو پولٹیکل ایجنٹ مقرر کر دیا اور کہا گیا کہ آپکا الحاق ہوگیا ہے۔ دوسری طرف اس نے آتے ہی ایف سی آر نافذ کرکے تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے، لیکن لداخ اور کشمیر کی طرف پیش قدمی جاری رہی۔

جب ہندوستان کو کشمیر میں مداخلت کی قانونی حیثیت مل گئی تو اُس وقت کے ہندوستانی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ لے کر گئے۔ تاریخ کہتی ہے کہ جب وہاں بیٹھک ہوئی تو ایک قرارداد پاس ہوئی، جس کو 13 اگست 1948ء کی قرارداد کہا گیا۔ اس قرارداد میں فریقین کے مابین طے پایا کہ پاکستان اپنی فوج اور قبائلیوں کو نکال لے گا اور پاکستان کے زیر قبضہ علاقہ جات کا انتظام مقامی انتظامیہ سنبھالے گی، جو گلگت، مظفر آباد لوکل اتھارٹی کے قیام کو یقینی بنا کر چھے ہفتوں کے اندر رائے شماری کو یقینی بنائے گی۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ اقوام متحدہ کا کمیشن مقامی حکمرانوں کی نگرانی کرے گا۔ اس دوران بھی یقیناً گلگت لداخ کے عوام تمام قسم کے فیصلوں سے مکمل طور پر لاعلم رہے ہونگے اور سردار عالم خان نے اپنے زرخرید لوگوں کے ذریعے عوام کو اصل حقائق سے دور رکھا ہوگا۔

یوں ہمارا وہ الحاق کہاں چلا گیا، کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق لوکل اتھارٹی نصیب ہوئی بلکہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ 1954ء تک گلگت بلتستان کے لوگ اپنا ڈومیسائل مظفر آباد آزاد کشمیر سے حاصل کرتے تھے اور 1937ء اور 1941ء کے ریاستی انتخابات میں گلگت بلتستان سے پانچ نمائندے منتخب ہو کر کشمیر اسمبلی میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کرتے تھے۔ یوں آگے جا کر ریاست جموں و کشمیر کی ترجمان حکومت مظفر آباد اور ریاست پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ کراچی کے نام سے 28 اپریل 1949ء کو طے پایا، جس میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں تھی۔ لیکن اس معاہدے کی ایک شق کے تحت گلگت لداخ (آج کا بلتستان) کے انتظامات وفاق کے سپرد کر دیئے اور کشمیری قیادت گلگت بلتستان کو کرایہ پر دیکر ریاستی نظام کو انجوائے کرتے رہے۔ اُس دور میں گلگت بلتستان میں جاری سیاسی جہدوجہد اور ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان طویل ہے، لیکن مختصر ایک بار پھر گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں گردش کر رہی ہے۔ جو کہ اچھا اقدام ہے، لیکن اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو کس طرح حل کیا جائے گا یہ کام سوال ہے۔

پہلی بات، اگر گلگت بلتستان کو فرض کریں پاکستان کا صوبہ بناتے ہیں تو عملی طور پر اگر ہم کسی صوبے کے خدوخال کو دیکھیں تو ناممکن ہے، کیونکہ گلگت بلتستان کی آبادی کراچی کے ایک ضلع کے برابر بھی نہیں۔ لہذا کہیں شامل ہونا یا کسی علاقے کو شامل کرنا پڑے گا جو کہ یقیناً گلگت بلتستان کے عوام کیلئے ناقابل قبول ہوگا۔ دوسری بات، اس راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادیں ہیں، جن کے مطابق یہ خطہ ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے اور اسی بنیاد معاہدہ کراچی ہوا تھا۔

تیسری بات، اگر ایسا ہوا تو معاہدہ کراچی کو کالعدم قرار دیکر پاکستان کے آئین میں ترمیم کرکے گنجائش نکالنی پڑے گی اور مظفر آباد حکومت جو ریاست جموں و کشمیر کی ترجمان حکومت ہے، کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ اگر ان کو اعتماد میں لیتے ہیں تو کیا وہ چاہے گی کہ اپنے ملک کے ایک حصے کو بغیر کسی رائے شماری کے کاٹ دیا جائے۔ چوتھی بات، ہندوستان بھی مہاراجہ کے الحاق کی بنیاد پر گلگت بلتستان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ لہذا کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستان خاموش رہے گا۔؟ پانچویں بات، ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر لداخ کے وہ لوگ جو پچھلے چھہتر سالوں سے آزادی کے نعرے لگا کر آج تک لاکھوں جانیں قربان کرچکے ہیں، اُن کی قربانی کا صلہ کس طرح دیا جائے گا، جب مسلہ کشمیر ہی دفن ہو جائے۔

ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اگر کسی بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے یہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر کشمیر کے مسئلے کو مکمل طور ختم کرکے دونوں ممالک نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ الگ مسئلہ ہے۔ اگر ایسا نہیں کہ گلگت بلتستان سے چند لوگوں کو مبصر کی حیثیت سے قومی اسمبلی تک رسائی دینے کا نام صوبہ یا حقوق دینا ہے تو یہ عمل گلگت بلتستان کے عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ یا مکمل طور چاروں صوبوں کے برابر اختیارات دینے کیلئے آئین میں ترمیم کرکے باقاعدہ پانچویں صوبے کا باضابطہ طور پر اعلان کریں، بصورتِ دیگر سلامتی کونسل کے قرداد 13 آگست 1948ء کی بنیاد پر داخلی خود مختاری کو مسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے یقینی بنائیں اور سٹیٹ سبجیکٹ رول جس طرح آزاد کشمیر میں بحال ہے، بالکل اسی طرح گلگت بلتستان میں بھی بحال کریں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ارباب اقتدار اور اختیار فقط ماضی کی طرح میٹینگ کرتے ہیں یا اس بار تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 886987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش