0
Friday 18 Sep 2020 18:02

 فرقہ واریت اور سیاسی رہنماوں کا بیانیہ(خصوصی رپورٹ)

 فرقہ واریت اور سیاسی رہنماوں کا بیانیہ(خصوصی رپورٹ)
رپورٹ: توقیر کھرل

سال رواں محرم الحرام میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ محرم سے قبل حکومت اور مذہی انتہاء پسندوں کے جارحانہ اقدامات سے خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ محرم کے دوران یہ تناو فساد کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ بدقسمتی سے وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ محرم کے پہلے عشرہ کے بعد مُلک میں فرقہ واریت کی آڑ میں نفرت کی فضاء کو عام کر دیا گیا ہے۔ کالعدم تنظیموں کو جلسے جلوس کرنے کی کھُلے عام اجازت دے دی گئی ہے۔ شیعہ مسلمانوں کی جلوسوں میں تکفیر کی جا رہی ہے اور شیعہ نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات سے حراساں کیا جا رہا ہے۔ جبری  تبدیلی مذہب کے خلاف اہل تشیع کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے، جبکہ دوسری طرف کسی حکومتی اہلکار کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ حالیہ کشیدگی کے خلاف پاکستان میں سماجی و سیاسی کارکنوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مُلک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے کے لئے عملی اقدمات اٹھائے جائیں۔

پاکستان میں حقوق انسانی کے لیے سرگرم تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایچ آر سی پی نے گذشتہ دنوں ایک بیان میں توہین مذہب کے بڑھتے ہوئے مقدمات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بظاہر حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہی ہے۔ ایچ آر سی پی کے چیئر پرسن ڈاکٹر مہدی حسن نے اس بیان میں بتایا کہ بظاہر محض اس سال اگست کے مہینے میں 40 کے قریب مقدمات توہین مذہب کے قانون کے تحت درج ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید نے اس کا الزام ہمسایہ ملک بھارت پر لگایا ہے۔ ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان پاکستان میں شیعہ سنی فساد کرانے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے۔ پاکستان پر امتحان کا وقت ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عمار علی جان کہتے ہیں کہ جس طرح کی نفرت اہل تشیع کے خلاف پھیلائی جا رہی ہے، اس پر ہم سب کو فکر مند ہونا چاہیئے۔ لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے توہین مذہب کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ یاد رکھیں یہ پاگل پن یہیں تک نہیں رکے گا۔ وہ وقت دور نہیں جب اہل سنت کے ذیلی فرقوں بریلوی، دیوبندی، سلفی میں پائی جانے والی پوشیدہ مخاصمت کا سرعام اظہار ہونے لگے گا۔ پاکستان کا تصور تو یہ تھا کہ یہ اسلام کی تجربہ گاہ ہوگی، مگر آج یہ ملک مسلمانوں کے اندر سے کافر ڈھونڈنے والی ایک مشین بن چکا ہے۔ کمزور مذہبی برادریوں کے خلاف ایک ایسے وقت میں تشدد بڑھ رہا ہے کہ جب ریاست نہ تو روزگار دے پا رہی ہے، نہ مناسب تعلیم اور صحت کی سہولت، حتی کہ شہریوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں پہنچ رہا۔ جب حکمران طبقے عوام کے مطالبات پورے نہیں کر پاتے تو اکثریت کو اقلیت کے خلاف بھڑکاتے ہیں، یہ اشارہ دیا جاتا ہے کہ اکثریت پر قانون ہاتھ نہیں ڈالے گا۔

کراچی میں یہی کچھ دیکھنے کو ملا، جہاں ایک شیعہ مخالف مظاہرے میں لوگ فرقہ وارانہ نعرے لگا رہے تھے اور کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ فرقہ وارانہ نفرت ہمارے سماج کو توڑ پھوڑ دے گی، اس کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی نقطہ نظر سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔ اس خطرناک کھیل میں عام لوگوں کی جانیں جائیں گی۔ جب لوگ سایوں سے لڑ رہے ہوں گے، ریاست شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لے گی۔ اہل تشیع سے اظہار یکجہتی کا مطلب ہے کہ ہم نفرت اور تقسیم کی سیاست کو رد کرتے ہیں۔ تقسیم در تقسیم لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہوتا ہے۔ اگر لوگ متحد ہوں تو پھر اصل مسائل پر بات ہوتی ہے۔ وہ مسائل جو ہر شہری کے لئے اہم ہیں: شہری آزادیاں، صحت، تعلیم، جینڈر اور ماحولیاتی انصاف۔ وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور نفرت کے سوداگروں کو شکست دیں۔

سینیٹر شیری رحمٰن نے سینٹ کے اجلاس میں کہا ہے کہ پچھلے ایک ماہ سے ہر طرف سے یہ خبر آرہی ہے کہ اہل تشیع نوجوانوں اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی ٹارگٹ کمپین ٹارگٹ کلنگ کی تشدد کی کمپین ہوا پکڑ چکی ہے۔ اب تک بیس ٹارگٹ کلنگ کی خبر آئی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر انتہاء پسندوں نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیئر رہنماء اور سینیٹر شیری رحمٰن نے سینیٹ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں اس ایوان اور حکومت کی توجہ ایک انتہائی اہم اور حساس معاملے کی طرح دلوانا چاہتی ہوں، ملک میں شیعہ مسلک کے خلاف ایک سوچی سمجھی مہم ہوا پکڑ چکی ہے۔ ملک میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتہاء پسندی کی روش حساس اور خطرناک ہے۔ کالعدم تنظیمیں ہر شہر میں ریلیاں نکال رہی ہیں۔ اقلیتوں میں خوف پنپ رہا ہے۔ اس معاملے پر حکومت کو پالیسی بیان دینا چاہیئے۔ ملک میں فرقہ واریت کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس خطرناک سلسلے پر حکومت کو قابو پانا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کا کیا ہوا۔ شیری رحمٰن نے کہا کہ اس وقت فوری ایکشن کی ضرورت ہے۔ کالعدم تنظیموں کو سیدھا پیغام دینا ہوگا۔ یہ نیشل ایکشن پلان کا حصہ تھا، ہم اس پر خاموشی نہیں اختیار کرسکتے۔ پاکستان کا ہر شہری تحفظ کا حقدار ہے۔ حکومت پاکستان کے عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

سابق وزیر داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء سینیٹر رحمان ملک نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت تھی تو ہم نے کسی بھی کالعدم فرقہ وارانہ جماعت کو اجازت نہیں دی تھی کہ وہ زیرو پوائنٹ سے آگے آکر جلسہ کرے، کالعدم جماعت کو کھلی چھوٹ دینا آنے والے وقت میں حکومت کیلئے مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔ جو بھی شیعہ کو کافر کہتے ہیں، انہیں یہ حق نہیں بلکہ یہ کہنا ناجائز ہے، اس طرح ایک دوسرے پر وار کرنا ٹھیک نہیں۔ پارلیمنٹ ہاوس کے باہر سے جاری کردہ اپنے ویڈیو بیان میں رحمان ملک نے کہا کہ ہم مسلمان بھائی ہیں، ہمیں محبت اور پیار سے رہنا چاہیئے، کسی ایک فرد کی اسٹیٹمنٹ پر پورے کے پورے فرقے کو نشانہ نہیں بنانا چاہیئے، پورے پاکستان کے شیعہ سنی عوام سے میری اپیل ہے کہ ہوشمندی سے کام لیں، کیونکہ یہ ایک شرارت ہے، یہ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت چل رہا ہے، ملک میں شیعہ سنی فساد کی طرف جانے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت کو چاہیئے اس کو روکے۔
خبر کا کوڈ : 887036
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش