QR CodeQR Code

ابلیس سر سے پائوں تلک بے نقاب ہے!

23 Sep 2020 22:03

اسلام ٹائمز: اب دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ تکفیریت کیساتھ کاندھے ملا کر چل رہے ہیں، انہیں جب میلاد کے جلوسوں میں یہی لوگ پتھر ماریں گے تو کیسا محسوس کرینگے، جس طرح دہشتگرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جس طرح آگ کا کام جلانا ہے، جس طرح بچھو کا کام ڈنک مارنا ہے، جس طرح احسان فراموش کا کام احسان کرنیوالے کو چوٹ لگانا ہے، اسی طرح تکفیر کی فیکٹری لگانے والے کا کاروبار اسی صورت چمکے گا، جب وہ ہر ایک کی تکفیر کریگا، جب اس نے تکفیر کرنا چھوڑ دی تو اسکا کام ٹھپ ہو جائیگا، اسکے کاروبار کی ایمپائر زمین بوس ہو جائیگی۔ لہذا ہم تو اس تکفیر سے نہ پہلے پریشان ہوئے تھے، نہ اب ہیں۔ ہم محبت حسین پر یکجان ہیں، اکٹھے ہیں، محبتیں بانٹ رہے ہیں، حسینیوں کیلئے صلائے عام لگائے ہوئے ہیں، جن کیساتھ آپ نے کاندھا ملانے کی ناکام کوشش کی ہے، ان سے آپ ہی خیر کی توقع رکھنے کی غلطی کرو اور بھگتو۔۔۔۔۔۔


تحریر: ارشاد حسین ناصر

جس فتنے کا آغاز ناصبی ملا جلالی حرامی نے کیا تھا اور اس میں آصف علوی نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے دشمن کے گھر میں لگی آگ کو اپنی طرف ہوا دے دی، اس کے بعد سے اب تک اسی فتنے کی زد میں بہت کچھ آچکا ہے۔ اگرچہ جو کچھ نظر آیا ہے اور جو سنا، پڑھا، دیکھا گیا ہے، تاریخ کا حصہ بنا ہے۔ اگر دل کی بات پوچھیں تو حقیقت میں یہ سب نہیں ہونا چاہیئے تھا کہ پاکستان ایک کثیر المکتبی ملک بن چکا ہے، جہاں تمام مکاتیب فکر کی اچھی خاصی تعداد ہے اور ایک مکس معاشرہ ہے۔ یہاں مذہب یا مکتب کے نام پر تفریق ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتی ہے، اس کا فائدہ ہمیشہ پاکستان دشمنوں نے اٹھایا ہے اور اس کام کیلئے ان کی سرمایہ کاری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، مگر یہ سب اس لحاظ سے بہت ہی سود مند رہیگا کہ ایک نہ ایک دن یہ سب بے نقاب ہونا تھا، جلد یا بدیر چہروں اور شخصیات کی پہچان ہونا تھی، جو ہوگئی۔ اب کوئی لاکھ تردیدیں کرتا پھرے، وضاحتیں دیتا پھرے، توبہ، توبہ کرتا پھرے، جو آشکار ہوچکا، وہ تاریخ کے اوراق پر رقم ہوچکا ہے۔ یہ وہ نامہ اعمال ہے جسے ان کے ہاتھوں میں تھما دیا جائے گا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اسی کی بنیاد پر ہی ان کے اعمال و ایمان کا جائزہ لیا جائے گا۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
ظلم یزیدیت پہ مکمل شباب ہے
ابلیس سر سے پائوں تلک بے نقاب ہے
آقا آپ کو قسم ہے لہو حسین کی
آجائو اب تو سانس بھی لینا عذاب ہے

کتنے ایسے چہرے جن پہ نقاب پڑا تھا، اس چند روزہ مہم میں بے نقاب ہوئے، ہمارا دوست وہی ہے، جو امام حسین کو دوست رکھتا ہے اور ہمارا دشمن وہی ہے، جو امام حسین کے قاتلوں سے ملا ہوا ہے۔ ہم نے اس مختصر عرصہ میں کئی نئے دوست اور بہت سے چھپے ہوئے دشمنوں کو سامنے پایا ہے، اگر ہمیں ملک کی سلامتی عزیز نہ ہوتی تو نجانے کیا کچھ ہو جاتا۔ آپ دیکھیں کہ اس ساری صورتحال سے اگرچہ ہمیں بھی بہت زیادہ خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ عالمی فرقہ واریت کی سازش ایک بار پھر ہمارے ملک کے بے گناہ و معصوم لوگوں پر تھونپی جا رہی ہے، مگر اس بار ہماری ملت نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اس کے بروقت تدارک اور اس کے سامنے بند باندھنے کیلئے اپنے تجربات کی روشنی میں اقدامات بھی کیئے ہیں۔

یہ تجربات جلسوں کے مقابل جلسوں کی صورت میں نہیں تھے بلکہ چند بڑوں کی باہمی بیٹھک اور کچھ نکات پہ مشترکہ موقف اور اتحاد بین المومنین کی جھلک تھی، جسے ساری دنیا نے سراہا اور اس کے اثرات کو بھی محسوس کر رہی ہے۔ ہمارے پاس اپنی طاقت کے اظہار کیلئے محرم و صفر کے دو مہینے ہوتے ہیں، جن میں ہماری پوری ملت گھروں سے باہر ہوتی ہے۔ ہم ہر قسم کے خوف و ڈر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان دو مہینوں میں اپنی شناخت کیساتھ میدان عمل میں ہوتے ہیں، مجالس، محافل، جلوس عزا، ماتم داریاں، عشرے، خمسے اور قافلہ سالار حریت، امام المجاہدین حضرت ابا عبد اللہ الحسین اور ان کے جانثار انصار و اعوان کی قربانیوں کا تذکرہ اور ان سے ملنے والا سبق ہماری مائیں بچوں کو گھٹی میں پلاتی ہیں اور لبیک یاحسین ، لبیک یازینب سلام اللہ کے انقلاب آفریں شعار ہمارے کانوں میں رس گھولتے اور ہماری روح کو تازگی بخشتے ہیں۔

یہ تازگی تا زندگی باقی رہتی ہے، غم حسین کی طرح اور ہم راستہ نہیں بھٹکتے، ہم ماں کی گود سے اپنے دشمن کو شناخت کرتے ہیں اور اس پر نفرین کرتے ہیں، اس سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، اس کو ملعون گردانتے ہیں اور اسے اپنا عقیدہ سمجھ کر زندگی کا سفر طے کرتے ہیں۔ یہ درسگاہ کربلا، عزاداری شہدائے کربلا ہمیں ہر سال تجدید عہد کا موقعہ دیتی ہے، ہم ہر سال اس غم کو ایسے ہی مناتے ہیں جیسے ابھی تازہ واقعہ ہے۔ دنیا اسی پر تو حیران و پریشان ہے کہ یہ غم مٹائے نہ مٹے، اس کو مٹانے کے خواہش مند مٹ گئے، ان کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، مگر سیدہ زینب سلام اللہ کی دعا کا اثر یہ عزاداران امام مظلوم کا قافلہ رواں دواں ہے اور ایسے ہی رواں دواں رہیگا، ہم تو رسول اعظم ۖ کی ولادت باسعادت کے ایام اور ان کے فرزند امام حسین اور مخدرات عصمت و طہارت کا غم منانے والے ہیں، ہم نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں، ہزاروں جوان قربان ہوئے، گھر گھر ماتم کی صدائیں آئیں، شہر شہر مقتل بنا۔

مسجدیں اور امام بارگاہیں بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوئیں، پابندیاں، سختیاں، جیلیں، کوڑے، پھانسیاں اور نجانے کیا کچھ سہہ گئے، مگر اس راہ کو نہیں چھوڑا اور دنیا کو بتا دیا کہ رسول اعظم ۖ اور ان کے اہلبیت کے عشاق ایسے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی مساجد و امام بارگاہوں کو ہر ایک کیلئے کھولا اور سب کو خوش آمدید کہا، جو بھی غم حسین کا پرسہ پڑھنے یا دینے آیا، ہم نے اسے با چشم و سر خوش آمدید کہا اور ہم نے اپنے جلوسوں میں پیاسوں کی یاد میں دودھ کی سبیلیں لگائیں، تاکہ پیاسوں کی یاد تازہ رہے۔ ہم اسی طرح میلاد النبی ۖ کے جلوسوں کے شرکاء کو بھی مشروبات کی سبیلوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ صفر کے بعد ربیع الاول کا مہینہ نبی آخر رسول اعظم حضرت محمد ابن عبد اللہ کی آمد کا مہینہ ہے، جس میں ہماری طرف سے جلوس بھی نکالے جاتے ہیں اور جلوس نکالنے والوں کو خوش آمدید بھی کہا جاتا ہے، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں، مشروبات اور شیرینی سے شرکاء جلوس کی تواضع کی جاتی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ تکفیریت کے ساتھ کاندھے ملا کر چل رہے ہیں، انہیں جب میلاد کے جلوسوں میں یہی لوگ پتھر ماریں گے تو کیسا محسوس کریں گے، جس طرح دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جس طرح آگ کا کام جلانا ہے، جس طرح بچھو کا کام ڈنک مارنا ہے، جس طرح احسان فراموش کا کام احسان کرنے والے کو چوٹ لگانا ہے، اسی طرح تکفیر کی فیکٹری لگانے والے کا کاروبار اسی صورت چمکے گا، جب وہ ہر ایک کی تکفیر کرے گا، جب اس نے تکفیر کرنا چھوڑ دی تو اس کا کام ٹھپ ہو جائے گا، اس کے کاروبار کی ایمپائر زمین بوس ہو جائے گی۔ لہذا ہم تو اس تکفیر سے نہ پہلے پریشان ہوئے تھے، نہ اب ہیں۔ ہم محبت حسین پر یکجان ہیں، اکٹھے ہیں، محبتیں بانٹ رہے ہیں، حسینیوں کیلئے صلائے عام لگائے ہوئے ہیں، جن کیساتھ آپ نے کاندھا ملانے کی ناکام کوشش کی ہے، ان سے آپ ہی خیر کی توقع رکھنے کی غلطی کرو اور بھگتو۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 888044

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/888044/ابلیس-سر-سے-پائوں-تلک-بے-نقاب-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org