1
Sunday 27 Sep 2020 16:30

کورونا اور عالمی سطح پر چہ میگوئیاں

کورونا اور عالمی سطح پر چہ میگوئیاں
تحریر: عظمت علی
rascov205@gmail.com

جب سے کورونا کا پھیلاؤ شروع ہوا ہے، سوشل میڈیا پر "بل گیٹس" کا نام بہت زیادہ تیزی سے گردش کر رہا ہے۔ اردو ہندی زبان میں تو کم لیکن انگلش زبان میں یہ نام کافی شہرت بٹور چکا ہے۔ بی بی سی نے yougov.com نامی ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 28 فی صد امریکن نوجوان کے ذہن میں یہ بات موجو د ہے کہ "بل گیٹس کورونا منفی کے سرٹیفکیٹ کے لیے چپ (Chip) کا استعمال کرے گا۔" پس پردہ نظریات کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاتھ میں ایک چپ لگائی جائے گی، جس کے ذریعے یہ ثابت ہوسکے گا کہ ہم کورونا مریض ہیں یا نہیں۔ جب یہ نظریہ عروج پر پہنچا تو بل گیٹس نے واضح طور پر ایسا کرنے سے منع کر دیا، حالانکہ اب بھی کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ چِپ کا ہمارے ہاتھ میں لگایا جانا ضروری ہے۔ دیر چاہے سویر۔ کورونا کی خاطر ہو یا دیگر مقاصد کے لیے۔ اس کی وجہ ہماری آسانیوں کو بتایا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ہم خریداری کرسکیں گے اور کہیں بھی کسی شناخت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ جیسے ہی ہاتھ پر بار کوڈ مشین دکھائی، ساری حیثیت اسکرین نمایاں ہو جائے گی۔ یہ ہوئی مثبت بات مگر کچھ لوگوں نے اسے منفی نظریات اور غلامی کے تصور سے بھی جوڑا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس چِپ کے ذریعے ہم ایک خاص گروہ کی نگرانی میں ہوں گے۔ اگر ان کے خلاف کوئی اقدام کیا تو ہمارے سارے کاروبار حیات ایک کلک پر بند ہو جائیں گے اور جیتے جی گویا مر جائیں گے۔ بہرکیف، اس طرح کی باتیں ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتی جارہی ہیں۔

اس کے ماسوا سوشل میڈیا پر گیٹس کے ماضی میں دیئے گئے بیانات کے سبب اسے ٹرول کیا جا رہا ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نے "ٹیڈ ٹاک" پر ویکسن اور آبادی کم کرنے کے تعلق سے بہت سے باتیں کی ہیں۔ ویکسن بنانے کی بات تو ایک زمانہ سے چل رہی ہے۔ اسی طرح ایک عالمی وبا کی بھی۔ ساتھ ہی آبادی کم کرنے کی بھی۔ اگر ہم ان تینوں کو یکجا کرتے ہیں تو اسے کورونا کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے لوگوں نے اس بیماری کے پھیل جانے پر مائیکروسافٹ کے کو فاؤنڈر پر نشانہ سادھا ہے۔ اس نے 2010ء میں ایسی ہی باتیں کی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی حضرات کی زبان پر آبادی کم کرنے کی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ آبادی کم کرنے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک گروہ کا ماننا ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، سو قدرتی وسائل ناکافی ہو رہے ہیں۔ اس لیے آبادی کم کرنے کی پالیسی اپنانا نہایت ضروری ہوا جاتا ہے۔

خود بل گیٹس کا کہنا ہے کہ "ہم ویکسن کے ذریعے غربت اور طفلانہ موت کی شرح کم کریں گے۔ چونکہ یہ دونوں چیزیں زیادہ اولاد کے جنم دینے کا باعث ہیں۔ جب انسان غریب ہوتا ہے تو اسے فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر ایک بچہ نالائق نکل گیا اور زندگی کے سفر میں تنہا چھوڑ گیا تو کم از کم دوسرے سے تو توقع کی گنجائش رہ جائے گی۔ اسی طرح جب بچپن کے عالم میں موت کی شرح کم ہو جائے گی تو والدین خود بخود کم اولاد کی پیدائش پر راضی ہوجائیں گے۔" مذکورہ نظریہ کو بل گیٹس نے اپنے بیان میں جگہ دی تھی لیکن تاحال دونوں نظریات پر کوئی کام شروع نہیں ہوا ہے۔ ہاں! آبادی کم کرنے کی دیگر راہیں فعال ہیں۔ ایجنڈا 2030 اس کی ایک شاخ ہے۔ یہ 1992ء میں منعقد ایک کانفرنس کا حصہ ہے، جس کا نام ایجنڈا 21 تھا مگر جب یہ ناکام رہا تو اسے ایجنڈا2030 میں تبدیل کر دیا گیا۔ پہلی نگاہ میں اس میں ساری باتیں مثبت نظر آئیں گی مگر درحقیقت اس کا نتیجہ منفی ہے۔

بہرحال، اس وقت کورونا نے پورے عالم کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے سامنے ساری بیماریاں ہیچ نظر آتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بہت سی رپورٹس سہارا دیتی ہیں کہ مرس، ایبولا، ایڈز، ہیپاٹائی ٹیز اور انفلوئنزا، یہ سب کورونا سے زیادہ قاتل بیماریاں تھیں لیکن اس وقت اتنا شور نہیں تھا اور نہ ہی کاروبار حیات پر تالے لٹکے ہوئے تھے۔ ہاں!مگر فی الحال صورت حال تو یہ ہے کہ سارے اسپتال اور ڈاکٹرز صرف کورونا کی مالا جپ رہے ہیں۔ اگر کسی کو دیگر امراض لاحق ہو جاتی ہیں تو اسپتال میں جگہ ندارد۔ وہ یونہی اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ عجیب مرض ہے، آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، ابھی تک اس کی تشخیص کا کوئی معیار معین نہیں ہوا ہے اور نہ ہی دوا آئی ہے۔ اس لیے اب لوگوں کے ذہن میں جہاں خوف بیٹھ گیا ہے، وہیں لوگوں کی چھٹی حس بھی جاگ گئی ہے کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ کوئی اسے "نیو ورلڈ آرڈر" سے جوڑ رہا ہے تو کوئی اسے آبادی کم کرنے اور ذہنی غلام بنانے سے۔

اتنی بات تو واضح ہے کہ اس بیماری نے کروڑوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا ہے۔ غربت کا گراف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کنگز کالج، لندن اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ایک بلین سے زائد لوگ غریب ہو جائیں گے۔ اس وقت اتنے برے حالات ہیں جبکہ ابھی دوا نہیں آئی ہے۔ جب دوا آجائے گی تو اس وقت شرح غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ چونکہ اس وقت ہر انسان کو جان کے لالے پڑے ہوںگے اور ہر انسان دوا کے حصول کی دوڑ میں خود کو کامیاب ہوتا ہوا دیکھنا چاہے گا۔ اڑتے اڑتے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ خود ویکسین میں "سائڈ ایفکٹ" رہے گا اور جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کورونا سے نجات دلا کر کسی اور مرض میں لا کھڑا کر دے گی۔ بہرکیف، پس پردہ کیا عزائم ہیں، ان لوگوں کا کیا ارادہ ہے اور مستقبل میں کیا کچھ ہونے کو ہے، سوائے معبود حقیقی کے اس کی تفصیل کوئی نہیں جانتا۔ ہاں! اس کے برے اثرات تو پوری دنیا پر نمایاں نظر آرہے ہیں۔ بس دوا کا انتظار ہے، پھر دیکھئے، آگے آگے ہوتا ہے کیا۔۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 888733
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش