QR CodeQR Code

سانحہ وڈانی ڈی جی خان

11 سال گزرنے کے باوجود متاثرین کے زخم تازہ

28 Sep 2020 01:22

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کیلئے تو یہ دھماکہ شائد چند دنوں کی محنت تھی، تاہم اس سانحہ نے اپنے پیچھے ہمیشہ کیلئے کئی داستانیں چھوڑ دیں، اس سانحہ میں تیس افراد نہیں بلکہ تیس خاندان شہید ہوئے۔ زخمی ہونیوالوں کی اکثریت عمر بھر کیلئے کسی نہ کسی صورت اپاہج ہو جاتی ہے اور پھر زندگی کا یہ کٹھن سفر صرف وہ زخمی شخص اکیلا ہی نہیں طے کرتا بلکہ اسکے اہلخانہ بھی اسی کرب سے گزرتے ہیں۔


رپورٹ: سید عدیل زیدی

اسلام و پاکستان دشمن دہشتگردوں نے وطن عزیز کے کونے کونے میں اپنے ظلم و بربریت کی اندوہناک داستانیں رقم کیں، اس شدت پسند اور دہشتگردی کا شکار ملک کا ہر طبقہ ہوا، تاہم مسلکی لحاظ سے پاکستان میں اہل تشیع کو سب سے زیادہ نشانہ بنانا گیا۔ گلگت سے کراچی اور پاراچنار سے کوئٹہ تک، محبان اہلبیت (ع) کے خون سے مادر وطن کی سرزمین کو سیراب کیا گیا۔ اسی طرح ملت تشیع پر دہشتگردی کا ایک وار آج سے ٹھیک گیارہ سال قبل بھی کیا گیا، جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں 9 صفر المظفر 2009ء یعنی آج ہی کی شام ایک ماتمی جلوس میں خودکش حملہ کے ذریعے 30 سے زائد محبان اہلبیت (ع) کو شہید کر دیا گیا۔ یہ ماتمی جلوس عرصہ دراز سے ڈیرہ غازی خان شہر میں واقع امام بارگاہ وڈانی سے شہدائے کربلا کے چہلم کی مناسبت سے نکالا جاتا تھا۔ اس روز نماز مغرب کے بعد بڑی تعداد میں عزادار جلوس میں شریک تھے کہ خودکش حملہ آور نے عین جلوس کے قریب پہنچ کر خود کو ایک زورداد دھماکہ سے اڑا لیا، اس سانحہ میں 33 افراد شہید 75 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔

مقامی افراد بتاتے ہیں کہ یہ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی، دھماکہ کے باعث شہید ہونے والوں اور زخمیوں کے اعضاء بکھر گئے، زمین پر جابجا خون بکھرا ہوا تھا، اس موقع پر لوگ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف بھرپور نعرے بازی کی۔ اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی کا دور حکومت تھا۔ دہشتگردی کے اس واقعہ میں کئی معصوم بچے بھی شہید ہوئے تھے، شائد بے گناہوں کے خون بکھرنے پر آسمان کو بھی جلال آگیا، بارش اور ژالہ باری کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا، جس کے باعث امدادی کارروائیوں میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سانحہ نے ڈیرہ غازی خان کے لوگوں کو ہلاکر رکھ دیا۔ اندوہناک سانحہ نے شہر کی فضاء کو سوگوار بنا دیا۔ واضح رہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری اس وقت انتہائی سرگرم تحریک طالبان سوات گروپ نے قبول کی تھی اور اس دہشتگرد گروپ کے ترجمان مسلم خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’ہم نے صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے بدلہ لیا ہے۔‘‘ واقعہ کے بعد حکومت نے تین افراد کو گرفتار بھی کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ وہ اس سانحہ کے ذمہ دار تھے۔

دہشتگردوں کیلئے تو یہ دھماکہ شائد چند دنوں کی محنت تھی، تاہم اس سانحہ نے اپنے پیچھے ہمیشہ کیلئے کئی داستانیں چھوڑ دیں، اس سانحہ میں تیس افراد نہیں بلکہ تیس خاندان شہید ہوئے۔ زخمی ہونے والوں کی اکثریت عمر بھر کیلئے کسی نہ کسی صورت اپاہج ہو جاتی ہے اور پھر زندگی کا یہ کٹھن سفر صرف وہ زخمی شخص اکیلا ہی نہیں طے کرتا بلکہ اس کے اہلخانہ بھی اسی کرب سے گزرتے ہیں۔ سانحہ وڈانی امام بارگاہ کے شہداء کی یاد کو تازہ رکھنے کیلئے ڈی جی خان کے محبان اہلبیت (ع) ہر سال ان کی برسی شایان شان طریقہ سے مناتے ہیں، آج بھی برسی کا ایک بھرپور اجتماع منعقد ہوا، جس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ اعجاز حسین بہشتی، مفسر قرآن علامہ محمد حسن جعفری، ایم ڈبلیو ایم جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار نقوی، امامیہ آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین سید سجاد حسین نقوی، مولانا عطا محمد جتوئی سمیت ہزاروں کی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔

آج جب اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کی برسی آئی ہوگی تو یقیناً یہ دن ان کے لواحقین کیلئے انتہائی تکلیف کا باعث بنا ہوگا، ان کے گیارہ سال پرانے زخم ایک بار پھر ضرور تازہ ہوئے ہوں گے۔ وہ مائیں جن کے لعل اس سانحہ میں شہید ہوئے اور وہ خود اب بھی حیات ہیں، نہ جانے ان ماوں نے کس طرح یہ دن گزارا ہوگا۔ یقیناً ان کے پیاروں کو محبت اہلبیت (ع) میں عزاداری کے دوران نشانہ بنایا گیا اور ان کا قصور صرف اور صرف عشق محمد (ص) و آل محمد (ع) تھا، یہی امر ان شہداء کے پسماندگان کیلئے سکون کا باعث ہوسکتا ہے اور اپنے دکھوں اور زخموں پر مرہم انہیں صرف کربلا کی طرف دیکھ کر ہی ملتا ہوگا۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ شہدائے وطن کی یاد کو کسی نہ کسی صورت زندہ رکھا جائے، اسی وجہ سے ملک میں پیش آنے والے سانحات کے حوالے سے گاہے بگاہے رپورٹس شیئر کی جاتی ہیں۔ سانحہ وڈانی امام بارگاہ ڈیرہ غازی کی یاد میں مقامی شاعر نے اپنے جذبات کا اظہار سرائیکی زبان کے ان اشعار میں کچھ اس طرح سے کیا ہے۔

9 صفر ڈیرے اندر کربل دا منظر میں ڈٹھے
ٹکڑے کتھاٸیں، لاشاں کتھاں، مقتل دا منظر میں ڈٹھے
مانواں ٹریاں، بھینڑیں رنیاں، ودے نال ٹردے بال ھن
بھینڑیں گلیندیاں ویر ھن، مانواں گلیندیاں لعل ھن
شام غریباں میں ڈٹھی، ھل چل دا منظر میں ڈٹھے
9 صفر ڈیرے اندر کربل دا منظر میں ڈٹھے
ٹکڑے جو تھٸے کجھ کیں چنڑیٸے کجھ کیں چنڑیٸے
قاسم دے ٹکڑے یاد آٸے، جیں جیں ڈٹھے جیں جیں چنڑیٸے
یاد این لوریاں گین اجڑ، جھولیاں پل پل دا منظر میں ڈٹھے
9 صفر ڈیرے اندر کربل دا منظر میں ڈٹھے
کجھ بال ھن 9 سال دے کجھ ھن اٹھارہ سال دے
کجھ ھن جواں اکبر جیڑے، کجھ سینگے فروہ دے لعل دے
ھمشیر دے گم ویرتھٸے ڈکھ دی ھک دل دل دا منظر میں ڈٹھے
9 صفر ڈیرے اندر کربل دا منظر میں ڈٹھے
ول وطن تیں ملیٸے کفن ھن، تیں قبراں بنڑدیاں میں آپ ڈٹھیاں
کجھ بال روندے میں آپ ڈٹھے کجھ مانواں جھنڑدیاں میں آپ ڈٹھیاں
صفدر اج دا منظر تاں اج ڈٹھم ول کل دا منظر میں ڈٹھے
9 صفر ڈیرے اندر کربل دا منظر میں ڈٹھے


خبر کا کوڈ: 888767

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/888767/11-سال-گزرنے-کے-باوجود-متاثرین-زخم-تازہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org