QR CodeQR Code

نوگورنو قرہ باغ تنازع، کیا یہ ٹائم بم پھٹنے کے قریب ہے؟

29 Sep 2020 18:55

اسلام ٹائمز: اپنے مخصوص اہداف کے حصول کیلئے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم خطے میں بدامنی پھیلانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یہ خطہ ایران کی سرحد پر واقع ہے، جسکی وجہ سے غاصب صہیونی رژیم اسے عدم استحکام اور بدامنی کا شکار کرنے میں خاص دلچسپی رکھتی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں نے خطے میں وسیع جنگ شروع ہو جانے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ موجودہ صورتحال جاری رہنے کے نتیجے میں بیرونی قوتوں کو مداخلت کا بہانہ فراہم ہو جائیگا اور یوں ایسی قوتیں خطے کے مسائل میں مداخلت کرنا شروع کر دینگی، جنکے مفادات خطے کے مفادات سے تضاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جنگی حالات میں دنیا کے دیگر حصوں سے دہشتگرد عناصر اور گروہ بھی اس خطے کی طرف امڈ کر آسکتے ہیں۔


تحریر: حسین الموسوی

آرمینیا اور آذربائیجان دو ہمسایہ ملک ہیں۔ آرمینیا میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جبکہ آذربائیجان مسلمان اکثریتی ملک ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک متنازع علاقہ پایا جاتا ہے، جو نوگورنو قرہ باغ کے نام سے معروف ہے۔ اس علاقے پر کنٹرول کی خاطر 1980ء کی دہائی میں مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں، جو 1991ء میں سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد بھرپور جنگ میں تبدیل ہوگئی تھی۔ یہ جنگ 1994ء تک جاری رہی۔ 1994ء میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی قائم ہوگئی۔ جنگ بندی کے قیام تک ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں تیس ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ یہ علاقہ ایک ٹائم بم کی طرح ہے، جہاں کسی بھی وقت بڑا دھماکہ ہوسکتا ہے اور گھمسان کی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
 
نوگورنو قرہ باغ کے علاقے میں بسنے والے افراد خود مختاری کے خواہاں ہیں۔ 1994ء میں جب جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات شروع ہوئے تو آذربائیجان کے حکام نے نوگورنو قرہ باغ کے مقامی حکام سے بھی مذاکرات انجام دیئے تھے۔ گذشتہ 26 برس کے دوران اس علاقے میں مسلح ٹکراو کے اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ گذشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان فوجی ٹکراو شروع ہوگیا ہے۔ یہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تنازع ابھی تک حل نہیں ہو پایا اور خاکستر میں چنگاری کی مانند ہے، جو کبھی بھی شعلہ ور ہو کر بھرپور آتش سوزی کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ امریکہ، روس اور فرانس نے مل کر مینسک گروپ تشکیل دیا تھا، جس کی بنیادی ذمہ داری سفارتکاری کے ذریعے یہ تنازع حل کرنا تھا۔

مختلف وجوہات کی بنا پر مینسک گروپ وہ کردار ادا نہیں کر پایا، جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ یوں یہ علاقہ بیرونی قوتوں کے درمیان طاقت کی رسہ کشی کا میدان بن چکا ہے اور اس کا نتیجہ آذربائیجان اور آرمینیا کے قومی مفادات کو ٹھیس پہنچنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان شروع ہونے والی حالیہ جھڑپوں میں مختلف قسم کے علاقائی اور بین الاقوامی اسباب کارفرما ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے کردار سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ غاصب صہیونی رژیم آرمینیا اور آذربائیجان کے ساتھ اسلحہ بیچنے کیلئے معاہدے انجام دینا چاہتی ہے۔ اسی طرح یہ رژیم دونوں ممالک کو اپنے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام پر مجبور کرنے کی خواہاں ہے۔

مذکورہ بالا اہداف کے حصول کیلئے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم خطے میں بدامنی پھیلانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یہ خطہ ایران کی سرحد پر واقع ہے، جس کی وجہ سے غاصب صہیونی رژیم اسے عدم استحکام اور بدامنی کا شکار کرنے میں خاص دلچسپی رکھتی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا دونوں نے خطے میں وسیع جنگ شروع ہو جانے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ موجودہ صورتحال جاری رہنے کے نتیجے میں بیرونی قوتوں کو مداخلت کا بہانہ فراہم ہو جائے گا اور یوں ایسی قوتیں خطے کے مسائل میں مداخلت کرنا شروع کر دیں گی، جن کے مفادات خطے کے مفادات سے تضاد رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جنگی حالات میں دنیا کے دیگر حصوں سے دہشت گرد عناصر اور گروہ بھی اس خطے کی طرف امڈ کر آسکتے ہیں۔

لہذا خطے کے ممالک کو انتہائی ہوشیار رہنا ہے اور خطے کو ایسی جنگ میں جھونکے جانے سے بچانے کی ہر ممکنہ کوشش کرنی ہے، جسے ختم کرنے کی طاقت کسی فریق میں نہیں ہوگی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ حالیہ جھڑپوں کے خاتمے کیلئے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔ خطے کا حصہ ہونے کے ناطے اسلامی جمہوریہ ایران بہت اچھے طریقے سے ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ دوسری طرف عالمی برادری کو بھی جنگ کی آگ ختم کرنے کیلئے دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان فوجی ٹکراو خطے کے تمام ممالک کو متاثر کرے گا۔

خطے میں امن کی موجودہ کوششوں کا مقصد محض وقتی طور پر جنگ بندی کا قیام نہیں ہونا چاہیئے، بلکہ اس بحران کی اصل وجہ کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ایران، روس، ترکی، آذربائیجان، آرمینیا اور جارجیا خطے میں قیام امن کیلئے مرکزی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب ایسی سفارتی سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے، جن کا مقصد نوگورنو قرہ باغ تنازع کا بنیادی حل فراہم کرنا ہو۔ دوسری طرف عالمی اداروں کا کردار بھی اہم ہے۔ حالیہ صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بہت اہم اور قیمتی موقع ہے، جس کے ذریعے جنگ بندی اور مذاکرات کا عمل شروع کیا جانا چاہیئے۔ اسی طرح اس حقیقت سے بھی غافل نہیں ہونا چاہیئے کہ بعض قوتیں قفقاز خطے کو بدامنی اور عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔ یوں اس ٹائم بم کو پھٹنے سے بچانے کیلئے خطے کے ممالک کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔


خبر کا کوڈ: 889163

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/889163/نوگورنو-قرہ-باغ-تنازع-کیا-یہ-ٹائم-بم-پھٹنے-کے-قریب-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org