1
1
Thursday 1 Oct 2020 00:37

میر انور بادشاہ کے مزار کو کھلوانے کیلئے تحریک کا آغاز

میر انور بادشاہ کے مزار کو کھلوانے کیلئے تحریک کا آغاز
رپورٹ: سید عدیل زیدی

برصغیر میں دین اسلام کی تبلیغ و ترویج میں صوفیاء کا بہت اہم کردار رہا ہے، ان بزرگ شخصیات نے جہاں محمد (ص) و آل محمد (ع) کی تعلیمات کے سائے میں دین اسلام کو پھیلانے میں اپنی زندگیاں صرف کیں، وہیں مذہب حقہ کے حقیقی پہلو امن، محبت و اخوت کا بھی درس دیا۔ پاکستان میں ایسی ان گنت ہستیاں ملتی ہیں، جنہوں نے خدا کا دین صحراوں سے لیکر پہاڑوں اور میدانوں سے لیکر دشتوں تک پھیلایا۔ ایسی ہی ایک بزرگ ہستی میر انور بادشاہ کے نام سے جانی جاتی ہے، آپ نے افغانستان سے لیکر پاکستان کے کئی علاقوں میں مذہب اسلام کو پھیلایا اور لوگوں کے قلوب کو محبت محمد (ص) و آل محمد (ع) سے منور کیا۔ میر انور بادشاہ کو بادشاہ میر انور شاہ سید میاں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ میاں سادات کے چشم و چراغ میر انور بادشاہ، شہید قائد ملت پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کے اجداد میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ کا مزار قبائلی ضلع اورکزئی میں موجود ہے، میر انور بادشاہ کے عقیدت مند، اگر یہ کہا جائے کہ لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

اورکزئی کیساتھ ساتھ ہنگو، کوہاٹ اور خاص طور پر ضلع کرم میں میر انور بادشاہ کا اپنا خاندان (اولاد) اور عقیدت مند و مریدین کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اورکزئی میں دہشتگردی کی خوفناک لہر کے باعث حکومت نے میر صاحب کے مزار کو زائرین کیلئے بند کر دیا تھا۔ اس مزار کے ساتھ ساتھ اورکزئی کے دور دراز علاقہ ڈبوری میں قائم اہلسنت کی ایک مسجد کو بھی بند کیا گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل حالات بہتر ہونے پر ڈبوری میں قائم اس مسجد کو تو کھول دیا گیا، مگر اس مزار کے حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ مزار اس وقت سکیورٹی فورسز کے زیر کنٹرول اور بند ہے۔ میر انور بادشاہ کے مزار کو دہشتگردوں نے نشانہ بھی بنایا تھا، جس کی وجہ سے مزار کو نقصان بھی پہنچا۔ مقامی ذرائع کے مطابق عظیم بزرگ کے مزار کی تعمیر بھی لگ بھگ 20 سال سے رکی ہوئی ہے۔

میر انور بزرگوار کے مزار کی تعمیر اور اسے زیارت کیلئے کھلونے کے مطالبات عرصہ دراز سے مختلف طبقات کی جانب سے کئے جاتے رہے ہیں، مختلف شیعہ تنظیموں شیعہ علماء کونسل، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی جانب سے بھی مزار کو کھلوانے کے حوالے سے مطالبات سامنے آئے۔ گذشتہ سال ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے تنظیم کے سالانہ جلسہ میں بھی میر انور بادشاہ کے مزار کو کھولنے کی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ ان بزرگ کے جانشینوں اور عقیدت مندوں نے بھی اپنے طور پر ہر فورم پر آواز بلند کی، اس ایشو کو لیکر باقاعدہ کمیٹیاں بھی قائم کی گئیں، لیکن حکومت اس معاملہ پر ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ واضح رہے کہ اس حوالے سے مقامی انتظامیہ کیساتھ 1944ء کے ڈپٹی کمشنر کوہاٹ، 1999ء اور 2006ء کے شیعہ، سنی جرگوں میں بھی فیصلے ہوچکے ہیں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں میر انور بادشاہ کے مزار کو کھلوانے اور اسے اپنی پرانی حیثیت میں بحال کرانے کیلئے کوہاٹ اور پاراچنار کی سطح پر احتجاجات میں شدت نظر آئی، پاراچنار میں بادشاہ انور غگ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے اس مطالبے نے زور پکڑا۔ واضح رہے کہ پاراچنار سے موجودہ رکن صوبائی اسمبلی سید اقبال بھی میاں سادات خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تئیں کوششوں میں مصروف ہیں، انہوں نے گذشتہ روز وزیراعلیٰ محمود خان کیساتھ اس سلسلے میں ملاقات بھی کی۔ گذشتہ ہفتے سے احتجاج کا یہ سلسلہ باقاعدہ منظم انداز میں تحریک کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ دو روز قبل کوہاٹ کے علاقہ کچہ پکہ میں بھرپور دھرنا دیا گیا، جس کے بعد آج اورکزئی میں احتجاج ہوا، مقامی ذرائع کے مطابق اس احتجاج میں شرکت کیلئے دیگر علاقوں سے بھی لوگ آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آج اورکزئی میں دھرنے سے سہیل سید میاں، بشارت سید میاں، ملک نور اکبر، کوثر علی، عباس غلام اور دیگر رہنماوں نے خطاب کیا۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ بدامنی کے دور میں روحانی پیشوا میاں شاہ انور کے مزار پر زائرین کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی تھی اور ساتھ ساتھ ڈبوری مسجد کو بھی بند کیا گیا تھا، اب فورسز کی کوششوں اور قربانیوں سے امن قائم ہوگیا ہے اور ڈبوری مسجد کو بھی کھول دیا گیا ہے، مگر روحانی پیشوا کے مزار پر لگائی گئی پابندی برقرار ہے، جو انہیں کسی صورت قبول نہیں۔ اس وجہ سے روحانی پیشوا کے مریدوں اور عقیدت مندوں نے احتجاجی تحریک شروع کی ہے اور مسئلے کے حل تک ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ دیکھا جائے تو ماضی میں اس مسئلہ پر اس قسم کا احتجاج نہیں کیا گیا، شائد اب میر انور بادشاہ کے عقیدت مندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ انسانی حقوق اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت فوری طور پر اس مسئلہ پر توجہ دے اور مزار کو عقیدت مندوں کیلئے کھولا جائے اور مزار کی تعمیر کیلئے بھی تعاون کرے۔
خبر کا کوڈ : 889458
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید قمر عباس
Kuwait
اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا تو علاقے کا امن و امان خطرہ میں پڑ جائے گا۔کئی دفعہ اس پر جنگیں بھی ہوئی ہیں۔ ۔ہر دفعہ جنگ کا سبب یہی مقدسات پر پابندی ہے۔ لہذا اعلیٰ حکام اس مسئلے کا پرامن طریقے سے حل نکالیں۔
ہماری پیشکش