2
9
Thursday 1 Oct 2020 08:52

جناح و اقبال کے پاکستان پر بنو امیہ کا قبضہ(1)

جناح و اقبال کے پاکستان پر بنو امیہ کا قبضہ(1)
تحریر: محمد سلمان مہدی

قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان میں آج کل چند مولوی حضرات کی سرگرمیوں سے لگتا ہے کہ ان میں کسی نے نئے سیل ڈال کر آن کر دیا ہو۔ بات اب حد سے بڑھ چکی ہے۔ اس لیے مجبور ہیں کہ ان بے لگام فتنہ گر فسادی ملاؤں کے جاہلانہ جذباتی بیانیہ کا علمی، عقلی، منطقی، اسلامی اصولوں اور پاکستانی آئین کی روشنی میں مدلل جواب دیا جائے۔ ہم ان موضوعات کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتے آئے ہیں کیونکہ مقصود ہمیشہ اتحاد امت اسلامی اور پاکستان کا امن و سکون رہا ہے۔ لیکن جب سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے ملازم بنے ہیں اور جب سے ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیاء نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اسلام اور عرب دشمن پالیسی کی وجہ سے مسلمان ممالک کا ایک نیا بلاک تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، تب سے پاکستان میں ایک منظم سازشی منصوبے کے تحت اصل ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے فرقہ پرستانہ بیانیہ کے ذریعے عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مہم شدت کے ساتھ چلائی جا رہی ہے۔ لیکن سلام ہو پاکستانی قوم پر اور خاص طور پر سنی شیعہ مسلمان عوام پر کہ جنہوں نے حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کے نئے جانشینوں کا بیانیہ پہلے دن ہی مسترد کر دیا۔ پاکستان کو بنو امیہ اور بنو مروان کی اسلام دشمن سلطنت بنانے کے لیے صحابہ کرام کا نام استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ اہل بیت نبوۃﷺ کی شان میں کھلی گستاخی کرنے والے سب اس مہم میں متحد ہوچکے ہیں اور اسی ناصبی تکفیری اتحاد نے ایک عام مسلمان کے سامنے حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔

اس ناچیز کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے کہ جس کے اجداد کا عقیدہ وہی رہا ہے، جو حضرت معین الدین چشتی خواجہ غریب نواز درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین سید سرور چشتی نے 12 ستمبر کو ایک وڈیو بیان کے ذریعے نشر کیا۔ ہم اپنے اجداد کی تقریباً ایک ہزار سالہ تاریخ سے آگاہ ہیں۔ ہم نے اپنے دادا، نانا حتیٰ کہ پرنانا کو بھی بچپن اور لڑکپن میں دیکھا اور ان سے بات چیت کی ہے اور جو بچپن اور لڑکپن کا دور ہم نے جنرل ضیاء کے ابتدائی دور سے لے کر اس کی موت سے پہلے گذار لیا، اسی میں ہمیں اپنے بزرگوں سے اہل بیت نبوۃﷺ کی محبت ورثے میں ملی، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اس کیفیت کو ایک اصطلاح میں تفضیلی کہتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے محلے میں گیارہویں شریف اور بارہ ربیع الاول کی میلاد کرنے والے چند گھرانے دیوبندی ہوگئے۔ دیگر اضلاع اور صوبوں میں آباد ہمارے رشتے دار اور جاننے والوں کا بھی یہی حال ہوا۔ معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہا بلکہ چند گھرانے اثناء عشری شیعہ ہوگئے۔ کچھ ایسے دیوبندی احباب تھے، جو بعد ازاں اہل حدیث وہابی ہوگئے۔ لیکن باوجود این اختلاف مسلک مجموعی طور پر سبھی ایک دوسرے سے محبت اور بھائی چارے کے اس پرانے ماحول پر ہی باقی رہے۔

البتہ یہ ضرور ہوا کہ سبھی کو ایک دوسرے کے نظریاتی اختلافات کی درست معلومات سے آگاہی ضرور ہوئی۔ اختلافی مسائل پر اس ناچیز نے کبھی بھی چھیڑ خانی کی پہل نہیں کی۔ ہمیشہ گریز کیا۔ حتیٰ کہ جواب دینے سے بھی حتی الامکان اجتناب کرتے رہے۔ لیکن مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی صاحبان کے بعد جب حامد سعید کاظمی صاحب اور ایک اور مرتبہ مفتی حنیف جالندھری صاحب جیسے لوگ بھی غیر منصفانہ اشتعال انگیز موقف کے ساتھ وارد ہوئے ہیں تو ضروری سمجھتا ہوں کہ بین المسالک اختلافات پر ان بزرگان کو متوجہ کر دوں۔ اختلافی مسائل میں سب سے پہلے توحید یعنی ایک اللہ، عادل، احد، واحد، خالق و مالک کائنات و انسان پر ایمان کا موضوع ہے۔ کیا اس ایشو پر اہل حدیث اور دیوبندی و بریلوی مسلک کے بزرگان ایک پیج پر ہیں!؟ یہ سوال ہے ان سبھی سے جو کبھی کراچی کی سڑکوں پر تو کبھی ملتان تو کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر یا منصورہ لاہور میں جمع ہوتے ہیں۔

  چلیے چند مسالک اور ان کی اہم شخصیات کے نام بھی لے لیتے ہیں۔ کالعدم دہشت گرد دیوبندی ٹولہ انجمن سپاہ صحابہ (موجودہ نام اہل سنت و الجماعت پاکستان)  اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کے دیوبندی مولوی حضرات، بریلوی مسلک کے مفتی منیب، حامد سعید کاظمی، مظفر شاہ قادری، شاہ عبدالحق قادری ولد شاہ تراب الحق قادری، قاری زوا بہادر، مفتی عبدالعلیم قادری۔ اہلحدیث مولوی ابتسام الہیٰ ظہییر، ساجد میر، یوسف قصوری وغیرہ۔ میرا سوال ہے ان اہل حدیث وہابی، دیوبندی اور بریلوی تین فرقوں کے ان چند مولوی حضرات سے کہ وہ کسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔ کیا آپ تینوں کے توحید کے موضوع پر اختلافات نہیں ہیں!؟ کیا آپ نے ایک دوسرے پر کفر و شرک و بدعت و گمراہی کے سنگین الزامات عائد نہیں کیے ہیں!؟ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے دیوبندی و وہابی اہل حدیث سے متعلق نظریات اور دیوبندی و اہل حدیث بزرگان کے بریلوی مسلک سے متعلق نظریات کیا کسی سے ڈھکے چھپے ہیں!؟ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں!؟ دنیا شتر مرغ کی طرح اپنا سر ریت کے اندر ڈال کر نہیں بیٹھی، سبھی واقفان حال جانتے ہیں۔ مولوی اسماعیل دہلوی  نے کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان کے عنوان سے جو کتب لکھیں، پھر رشید گنگوہی دیوبندی صاحب کی طرف سے اس نظریئے کی تصدیق اور ان دونوں کے خلاف شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد احمد سعید دہلوی یا دیگر اکابرین کا جواب، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔

لیکن ان سب حقائق کے باجود پاکستان میں اتحاد بین المسلمین اور بین المسالک ہم آہنگی کے لیے شروع سے یہ طے ہوچکا ہے کہ اختلافی مسائل کو چوک چوراہے پر نہیں اچھالا جائے گا۔ اسی فارمولا کے تحت مناظرے کا دور اختتام کو پہنچا۔ مجھ حقیر کی بھی خواہش ہے کہ امت اسلامی کا اتحاد برقرار رہے اور مشترکات پر متحد رہیں۔ لیکن کیا آپ شیعہ مسلمانوں کو سنگل آؤٹ کرکے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے اپنے درمیان جو اصولی اختلافات ہیں، وہ ڈھکے چھپے رہیں گے۔؟ خدا گواہ کہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کے مسلک کے نوجوانوں کو پتہ چلے کہ برصغیر کے ان تین مسلک کے بزرگان نے ایک دوسرے کو کس طرح باطل و گمراہ فرقہ حتیٰ کہ کافر، مشرک اور بدعت کے فرزند تک قرار دیا۔ لیکن اب آپ کے بعض بزرگان کی زبان درازی اور اشتعال انگیزی مجبور کرتی ہے کہ حقائق کی محض چند جھلکیاں بیان کریں۔ محترم حامد سعید کاظمی صاحب آپکے والد احمد سعید کاظمی نے الحق المبین کے عنوان سے سال 1946ء میں ایک کتاب الحق المبین لکھی تھی، جو بعد میں شائع ہوئی۔ یقینا آپ نے پڑھی ہوگی کہ دیوبندی وہابی ایک الگ فرقہ ہے اور آپ اپنے بریلوی مسلک کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں۔

معاویہ اعظم اور محمد احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی، مفتی تقی عثمانی وغیرہ کا تو دیوبندی مسلک ہے تو آپ کے اجداد کے افکار کی روشنی میں تو یہ اہل سنت نہیں ہیں۔ اسی طرح شاہ جماعت اہل سنت کے سربراہ بریلوی مسلک شاہ تراب الحق قادری نے آن ریکارڈ کہا ہے کہ سعودی وہابی اہل حدیث امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ امام کعبہ بھی وہابی اہل حدیث ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں، یہ شاہ تراب الحق قادری نے کہا ہے اور مفتی منیب کے کراچی جلسے میں شاہ تراب الحق قادری مرحوم کے بیٹے شاہ عبد الحق نے جو تقریر کی تو وہ اہل سنت عوام کو بتائیں کہ مفتی منیب اور حامد سعید کاظمی اور شاہ عبدالحق صاحب آپکا نظریہ اگر درست ہے تو احمد رضا خان، احمد سعید کاظمی اور شاہ تراب الحق قادری کا نظریہ باطل ہے یا نہیں؟ بیک وقت دونوں نظریئے تو درست نہیں ہوسکتے اور مفتی تقی، معاویہ اعظم، محمد احمد لدھیانوی، اورنگزیب فاروقی بھی بتا دیں کہ دارالعلوم دیوبند کے بزرگان اور ان بزرگان سے تعلیم یافتہ پاکستانی بزرگان کے نظریات باطل ہیں یا سال 2020ء میں آج کل جو مہم چلائی جا رہی ہے، یہ باطل ہیں۔ چلیے نام لے لیتے ہیں آپکے تین بزرگان کے (باقی نام بھی کہیں گے تو آئندہ بیان کر دیں گے)۔

ذرا مولوی غلام اللہ خان کی تفسیر جواہر القرآن میں جو بریلوی مسلک سے متعلق تحریر ہے، مفتی منیب، حامد سعید کاظمی، مظفر قادری، شاہ عبدالحق قادری اور ثروت اعجاز اور قاری زوار بہادر کے سامنے وہ بھی بتا دیں، تاکہ ہمیں نہ پوچھنا پڑے ہن آرام اے۔!؟ اور پھر بھی سکون نہ ملے تو مولوی حسین علی الوانی دیوبندی اور مولوی محمد طاہر پنج پیری دیوبندی مسلک کے نظریات سنا دیں۔ توحید اصول دین میں سے ہے، نہ کہ فروع دین میں سے کہ اس کو شیعہ مسلمان نظر انداز کر دیں اور ایک عام شیعہ مسلمان حیران پریشان ہے کہ ان غیر شیعہ مولویوں کا اتفاق اس بات پر ہے کہ نعوذ باللہ بری تقدیر اور شر بھی اللہ کی طرف سے ہے(العیاذ باللہ)۔ توحید سے متعلق بھی بہت سے نکات ہیں، لیکن اس مختصر تحریر میں گنجائش نہیں۔  کم ترین الزام دیوبندی بریلوی علماء کا ایک دوسرے کے خلاف فاسق کا ہے۔ یہ اصولی اختلاف ہے، نہ کہ فروعی!

اب آتے ہیں ختم نبوت یعنی حضرت محمدﷺ کو اللہ کا آخری نبی اور رسول ماننا، اس پر غیر متزلزل ایمان رکھنا۔ بلاشبہ اس پر سارے سنی شیعہ مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ البتہ پاکستان میں قادیانی جو خود کو احمدی اور لاہوری گروپ بھی کہتے ہیں، ان کو غیر مسلم قرار دینے کا عمل، اس میں بھی دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث وہابی مولوی آج کے نوجوانوں کے سامنے مکمل سچ بیان نہیں کر رہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نہ تو ان مولویوں کی کوئی حیثیت ہے، نہ اوقات کہ قادیانی ایشو پر مسلمانوں کی کامیابی کا کریڈٹ لیں۔ جا کر اچھی طرح چیک کر لیں کہ اس وقت پارلیمنٹ میں اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی کی تھی اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب تھے، جو پیپلز پارٹی المعروف پی پی پی کے چیئرمین یعنی سربراہ بھی تھے۔ اگر پارلیمنٹ کی وہ غالب اکثریت ووٹ نہ دیتی تو قادیانی بھی مسلمان ہی ہوتے۔ آجکل ابتسام الہیٰ ظہیر صاحب بڑے چہک رہے ہیں، ابھی بریلویوں کے لیے ان کے والد احسان الہیٰ ظہیر اور ثناء اللہ امرتسری نے کیا کہا ہے، یہ سب کچھ موجود ہے اور اہل حدیث ساجد میر یا ابتسام الہیٰ ظہیر سمیت ہر شخص جو صحابہ کے نام پر یزید کے باپ دادا کو بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے یا تین خلفاء کی بات کر رہا ہے، وہ اپنے نظریات اور قادیانیوں کے نظریات کا موازنہ کرلے، کوئی فرق نہیں ہے۔

قادیانی نظریات برائے صحابہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے ابتسام الہیٰ ظہیر، محمد احمد لدھیانوی اور قاری زوار بہادر کے ہیں۔ اچھی طرح چیک کر لیں کہ واقعہ کربلا کے حوالے سے جو بیانیہ محمود احمد عباسی دیوبندی ناصبی کا تھا، اسی سے ملتا جلتا قادیانیوں کا ہے۔ جس طرح اہل بیت نبوۃﷺ کے مقابلے میں صحابہ صحابہ کے قصیدے آجکل گائے جا رہے ہیں، قادیانیوں کی کتابیں اور ان کے اخبارات اٹھا کر چیک کر لیں، کوئی فرق نہیں۔  جس طرح اشرف جلالی نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے، قادیانی بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ جاکر چیک کرلیں کہ آغا شورش کاشمیری نے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے قدموں میں بیٹھ کر یہ کہا تھا کہ جناب وزیراعظم یہ قادیانی بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بھی گستاخ ہیں۔ ویسے بھی قادیانی خود کو سنی ظاہر کرتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی بھی تو پہلے سنی ہی تھا۔

جس وقت پارلیمنٹ نے قادیانیت کو غیر مسلم قرار دیا، تب قادیانی ملک میں حتیٰ کہ عسکری اداروں میں بھی اہم عہدوں پر تھے تو کیا اب وہ اہم عہدوں پر نہیں اور صاف ظاہر ہے کہ برطانیہ اور اسرائیل کے جاسوس قادیانی اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات و بحرین اسرائیل کے ساتھ ہوچکے ہیں تو قادیانی اور سعودی نواز اعلیٰ افسران ہی مولویوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ یہ تو ہوا پارلیمنٹ اور حکومت کے حوالے سے حقیقت کا بیان۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس پارلیمنٹ میں شیعہ اراکین اسمبلی بھی تھے اور انہوں نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی حمایت میں ووٹ ڈالے تھے۔ رہ گئی علمائے کرام اور دیگر غیرت مند مسلمانوں کی طرف سے پارلیمنٹ کے باہر جدوجہد تو اس میں بھی شیعہ علمائے کرام کسی سے پیچھے ہرگز نہ تھے بلکہ صف اول کے مجاہد تھے اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت میں بھی سارے مسالک کے علماء بشمول شیعہ علمائے کرام یہ سب شامل ہوا کرتے ہیں۔

لیکن سعودی عرب کو امریکا کا حکم ملا کہ اب اسرائیل کو تسلیم کرنا اور کروانا ہے تو انہوں نے پاکستان کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کی سازش کی۔ خود سعودی سفیر نے ملاقاتیں کیں اور یزید کے باپ دادا کے تحفظ کے لیے تحفظ بنیاد اسلام پنجاب ایکٹ کے نام سے بڑے پیمانے پر فتنے کا آغاز کیا۔ تسلسل برقرار رکھنے کے لیے پلٹتے ہیں ختم نبوت تحریک کی طرف۔ موجودہ مولویوں کے مرشد جسے یہ امیر شریعت کہتے ہیں، ان کے ساتھ اس تحریک میں ایک شیعہ جوان مظفر علی شمسی ہوا کرتے تھے اور موجودہ مولویوں کے ایک طبقے کے امیر شریعت بخاری نے مظفر علی شمسی شیعہ سے درخواست کی کہ شیعہ اسلامی عالم دین علامہ کفایت حسین کو بھی لائیں۔ وہ اور دیگر شیعہ علمائے کرام و ذاکرین بھی اس تحریک میں شامل تھے۔ یاد رہے کہ جو قرارداد مقاصد پاکستان میں اسلامی قوانین کو آئینی تحفظ دینے کی بنیاد ہے اور جو آئین کا حصہ ہے، اس پر شیعہ اسلامی عالم دین مفتی کفایت حسین اور مفتی جعفر حسین کے بھی دستخط ہیں۔

اب یہ سعودی ملازم تکفیری و ناصبی مولوی حضرات نوجوانوں کے سامنے نامکمل باتیں کرکے دھوکہ دیتے ہیں، کیونکہ جب آج کے عام نوجوان مسلمان کو معلوم ہوگا کہ شیعہ علمائے کرام اور دیگر بزرگان کا بھی تحریک ختم نبوت میں فعال اور کلیدی کردار تھا تو ان کا شیعہ دشمن تکفیری و ناصبی متعصبانہ بیانیہ کون قبول کرے گا۔ اس حوالے سے ایک آخری بات کہ جس ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا، یعنی قادیانیت کو غیر مسلم قرار دینا، اس بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے غیر آئینی طریقے سے فوجی بغاوت کے ذریعے انہی مولویوں کی مدد سے اقتدار سے محروم کرکے جیل میں ڈالا اور ان کا عدالتی قتل کروا دیا یعنی پھانسی اور یہ مولوی اس آئین شکن امریکی و سعودی ایجنٹ جنرل ضیاء کے سہولت کار بنے رہے۔   یہ صلہ دیا ان مولویوں نے ختم نبوت کے عقیدے کے محافظ بھٹو کو اور پاکستان جیسا آزاد ملک جس قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا، اس شیعہ کو بھی اسی کے حاصل کردہ آزاد مسلم ملک میں مسلمان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جو اس ملک کا بانی اور بابائے قوم ہے، یا للعجب!؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ: یزید کے باپ دادا کا پاکستان کے عنوان سے یہ تحریر چونکہ طویل ہے، اس لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس پہلے حصے میں ختم نبوتﷺ کے موضوع کو فوکس کیا ہے۔ دوسری قسط میں صحابہ و خلافت اور بنوامیہ کو فوکس کیا جائے گا۔ اتحاد امت کے داعی ہر عام و خاص مسلمان سے اور خاص طور پر علمائے کرام سے معذرت کہ یہ تحریر اس مخصوص فتنہ گر فسادی ٹولے کے گمراہ کن پروپیگنڈا کے جواب کے طور پر لکھی گئی ہے
خبر کا کوڈ : 889472
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

رشید علی جعفری
Pakistan
نہایت معذرت:
تحریر کا انداز مشکل سا لگ رہا ہے۔ رواں نہیں ہے۔ کسی مسئلے کو واضح نہیں کیا گیا ہے۔
Pakistan
https://www.islamtimes.org/ur/article/888748/

https://www.islamtimes.org/ur/article/889827/
@ مسٹر رشید علی جعفری ☝☝☝☝
ہماری پیشکش