QR CodeQR Code

جناح و اقبال کے پاکستان پر بنو امیہ کا قبضہ(2)

3 Oct 2020 02:07

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شیعہ نسل کشی سعودی امریکی زایونسٹ ایجنڈا کے تحت کی جاتی ہے، کیونکہ اگر تحریر و تقریر کی بنیاد پر حملے ہوتے تو مودودی صاحب کی کتاب خلافت و ملوکیت کی بنیاد پر سارے بریلوی دیوبندی اور اہلحدیث ملکر جماعت اسلامی پر حملے کرتے، تفسیر جواہر القرآن اور احسان الہیٰ ظہیر کے نظریات کو بنیاد بنا کر سارے بریلوی اور اہل طریقت دیوبندیوں پر حملے کرتے۔ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے نظریات کی بنیاد پر دیوبندی مفتی منیب پر حملے کرتے۔ مسئلہ مسلکی اختلافات کا نہیں ہے اور مسئلہ مقدسات کا بھی نہیں ہے جناب۔ مسئلہ سعودی عرب کا ہے، جسکا ولی عہد سلطنت ایم بی ایس اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مذاکرات میں مصروف ہے اور اس نے امریکی صدارتی الیکشن تک اس بات کو موخر کرنے کی درخواست امریکا سے کی ہے۔ پاکستان کے مذہبی مسلمانوں کو اس لیے نان ایشو میں الجھا کر باہم دست و گریباں کر دیا گیا ہے۔


تحریر: محمد سلمان مہدی

پچھلی قسط میں ہم تحریک ختم نبوتﷺ سے متعلق حقائق بیان کرچکے۔ مزید یہ کہ پاکستان سنی شیعہ مسلمانوں نے قائد اعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں حاصل کیا۔ ہم پاکستانیوں کے بابائے قوم محمد علی جناح بھی تو شیعہ تھے اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے دوسرا بڑا نام علامہ اقبال کا ہے، انہوں نے تو بہت واضح اہل بیت نبوۃﷺ کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ اول مسلم شہہ مردان علیؑ کہہ دیا۔ علامہ اقبال کی نظر میں تو اسلام کے دامن میں سوائے ضرب یداللٰہی و سجدہ شبیری اور کچھ نہیں!؟ جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مداح، حسنین کریمین کے مداح یہی علامہ اقبال ہیں۔ کچھ اس میں تشیع کا بھی ہے رنگ ذرا سا۔ یہ علامہ اقبال نے کہا ہے۔ مولوی صاحبان اب کہنے کو اور کیا رہ گیا ہے؟ ایک اور مرتبہ واضح کر دیں کہ پاکستان کے سعودی نواز مولویوں نے جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ سارا ناٹک رچایا ہے، اس کو بے نقاب کرنے کے لیے ہم یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوئے۔ شروع سے واضح ہے کہ مسئلہ مقدسات کا نہیں تھا، کیونکہ مکہ و مدینہ پر جنگ مسلط کرکے جنت البقیع مدینہ کے مزارات کو منہدم اور قبور مقدسہ کو زمین بوس کرکے مقدسات کی ایسی کی تیسی آل سعود نے کی۔ برطانوی جاسوس ہمفرے سے متعلق جماعت اہل سنت کے سربراہ شاہ تراب الحق قادری مرحوم نے اہل سنت عوام کو اپنی زندگی میں بتا دیا تھا۔ شاہ تراب الحق قادری سعودی وہابیت کے کٹر مخالفین میں سے تھے، حتیٰ کہ سعودی وہابی امام کعبہ کے پیچھے نماز کو بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی، احمد رضا خان، پنج بیری یا احسان الٰہی ظہیر تھے؟ یا مفتی منیب اور حامد سعید کاظمی یا حنیف جالندھری صاحبان کے ابا دادا تھے، جو یوں عوام کے سامنے ڈینگیں مار رہے ہیں!؟  حقیقت یہ ہے کہ یہ مقدسات کا ایشو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی خلافت و ملوکیت، غلام اللہ خان کی تفسیر جواہر القرآن میں جو لکھا جاچکا، اس پر بھی اسی طرح جلسے جلوس ہوتے۔ اصل مسئلہ بنو امیہ کی ملوکیت کے ناصبی مائنڈسیٹ کا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی ان مولویوں کے بزرگان نے نفرت کی سیاست کرکے مسلمانوں کی طاقت کمزور کی تھی، تب انکے بزرگان آپس ہی میں ایک دوسرے کو کافر، مشرک، بدعتی، گمراہ کہا کرتے تھے۔ زیادہ تر مولوی صاحبان جن کے مرید آج بہت اچھل کود کر رہے ہیں، تقریباً ان سبھی کے بزرگان نے جناح صاحب کی کھلی مخالفت کی اور تکفیر کے فتوے دیئے۔ دیوبندی مولوی عبدالعزیز لال مسجد والے تو آج بھی جناح صاحب کو انگریز کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے۔ لیکن ایسی کسی بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔ نہ ریاستی ادارے اور نہ ہی انکے لاڈلے مولوی۔ حالانکہ ایک طویل عرصے سے حضرت اب وطالب سمیت بہت سے بزرگان کی تکفیر کی مہم ملاؤں نے چلا رکھی ہے۔ رسول اللہﷺ کی محبت ہوتی تو محسن رسولﷺ کی توہین و تکفیر پر مہم چلائی جاتی۔ لیکن اب تو ساری حدیں کراس ہوچکیں۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے،  ایک الزام کہ فلاں فلاں جگہ صحابہ کی گستاخی ہوگئی، اس پر بھی بات کر لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ یا شان توحید و شان رسالتﷺ کے حوالے سے پچھلی تحریر میں چند نکات اشارتاً عرض کئے تھے کہ مقدسات کے حوالے سے توحید و رسالتﷺ پر بھی اختلافی تشریحات موجود ہیں۔ کیا مولوی بندیالوی کی وڈیوز سوشل میڈیا پر نہیں تھیں؟ کوئی اعتراض نہیں ہوا، کیوں!؟ کیونکہ بندیالوی نے اہل بیت نبوۃﷺ، سانحہ کربلا کے سیدالشہداء اور اسیران کربلا کی توہین کی تھی، اس لیے کسی کی غیرت نہیں جاگی! مفتی عبدالعلیم قادری بریلوی نے مولا امیر المومنین، امام حسن، امام حسین علیہم السلام اور جناب سیدہ بی بی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے خلاف کھلے عام گستاخانہ باتیں کہیں اور یزید اور اسکے باپ دادا کا دفاع کیا!؟ کیا ان مولویوں نے کوئی احتجاج کیا، کوئی دھمکی دی، کوئی مقدمہ درج کروانے کا مطالبہ کیا؟ بھٹ شاہ میں امیرالمومنین حضرت علی ؑ کو سب و شتم کرنے والے تکفیریوں کے خلاف کوئی احتجاج یا مہم کیوں نہیں چلی۔ اس ایشو پر سبھی خاموش،کیوں؟

یہ سوال ہے ان سارے بدبختوں سے جو عظمت صحابہ کا نام استعمال کرکے عام لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔؟ کیا اس لیے کہ یہ گستاخ ان کے اپنے ہیں، سگے ہیں۔   سوال یہ ہے کہ مفتی منیب کیا دریائے گنگا کا نام ہے کہ مفتی عبدالعلیم قادری نے گنگا اشنان کرکے پاپوں کا پراشچیت کرلیا!؟ دیوبندی اہل حدیث کی مشترکہ ریلی میں یوسف قصوری اہل حدیث کی سربراہی میں کراچی میں امیر یزید زندہ باد کا نعرہ بھی لگا۔ اسلام آباد لال مسجد کے سابق خطیب مولوی عبدالعزیز دیوبندی نے یزید بن معاویہ کو فاسق فاجر ماننے سے بھی انکار کر دیا۔ ایک عام مسلمان کو معلوم ہونا چاہیئے کہ امام حمد بن حنبل کے مطابق یزید کافر ہے اور امام ابو حنیفہ کے مطابق فاسق و فاجر ہے۔ مسئلہ وہاں سے خراب نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کی حقیقت سمجھنا ضروری ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟ کیونکہ پاکستان میں سعودی عرب کی نئی شریعت کے پیروکار مولوی بستے ہیں، اس لیے ملوکیت ہی انکا نصب العین ہے،  جبکہ اسی پاکستان میں عوام کی اکثریت کا نظریہ سعودی ناصبیت سے ایک سو اسی درجے برعکس اور مخالف ہے۔ یہاں صوفیائے کرام کے پیروکار حنفی موجود ہیں۔

 صرف شیعہ مسلمانوں نے ملوکیت کی مخالفت میں صدائے احتجاج بلند نہیں کی،  بلکہ پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے جانشینوں میں سے ایک جواں سال پیر جامی بھی اشرف جلالی رضا خانی بریلوی مسلک مولوی کی گستاخانہ باتوں پر مزید تحمل نہ کرسکے اور ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی اس جواں سال سجادہ نشین درگاہ گولڑہ شریف نے اشرف جلالی کو للکارا کہ تم اپنے نظریات کو اپنے مرشد رضا خان بریلوی کے نام سے پیش کرو اور ہمارے جد کے نام کا غلط استعمال نہ کرو۔ یہی نہیں بلکہ نامور مشائخ نے بھی مذمت کی اور اب سب سے بڑھ کر برصغیر کے مشہور و معروف حضرت معین الدین چشتی خواجہ غریب نواز درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین سید سرور چشتی نے تو تکفیری و ناصبی نظریئے کو دفنا کر رکھ دیا۔ انہوں نے اہل طریقت کا عقیدہ بیان کر دیا۔ انہوں نے پاکستان کے ان فتنہ گر فسادی مولویوں کے بارے میں کہا ہے کہ کہ ان مولویوں کا مقصد ابو سفیان، معاویہ اور ہندہ کو بچانا ہے،  یعنی یزید کے باپ دادا اور ماں کو بچانے کے لیے صحابہ کا نام استعمال کرکے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

اس ساری صورتحال کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ہے آئینی اور قانونی پہلو۔ درحقیقت یہ سارا معاملہ آئین پاکستان میں حل شدہ ہے۔ مسلمان کون ہے اور غیر مسلم کون ہے، اس پر آئین کا آرٹیکل 260 موجود ہے۔ قرآن و سنت پر عمل کرنے کی آزادی اور اپنی فقہ کے مطابق قرآن و سنت کی تشریح کے تحت زندگی گزارنے کی آزادی آئین کے آرٹیکل 227 میں اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی طرح شہری آزادی، مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلق آئین پاکستان نے واضح طور پر یہ مسائل تحریری طور پر قانونی طور پر حل کر دیئے ہیں۔ لیکن پچھلے چالیس برسوں سے آئین شکن جنرل ضیاء کی باقیات ایک گندا تکفیری یزیدی کھیل کھیلتی آرہی ہے۔ کافر کافر کے نعرے کھلے عام سڑکوں پر لگانے والے، اسی ہزار کا جانی نقصان اور دو سوبلین ڈالر کا مالی نقصان کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑ کر سرعام لٹکانے کی بجائے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دور میں ان کی مین اسٹریمنگ کرکے انہیں عسکری اداروں میں ملازمتیں دینے کا منصوبہ سابق جنرل امجد شعیب نے چینل 24 کے ایک پروگرام میں بیان کیا تھا۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد پھرتیاں دکھائیں گئیں۔ البتہ سوائے نمائشی اور کھوکھلے اقدامات کے اور کچھ نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان، پیغام پاکستان، ضابطہ اخلاق، سب کچھ  ٹائم پاس اقدامات ہیں۔ آئین پاکستان نے یہ مسئلہ حل کر دیا مگر دہشت گرد کسی کے تزویراتی اثاثے ہیں، اس لیے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پاکستان کے تمام مسائل کا حل آئین میں موجود ہے، اس لیے نہ تو کسی نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت تھی، نہ کسی پیغام پاکستان اور نہ ہی کسی اور ضابطہ اخلاق کی ضرورت۔ ماورائے آئین دستاویزات محض ٹائم پاس کرنے اور عوام اور دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے لائی جاتیں ہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ امریکی زایونسٹ بلاک نے براہ راست یا سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے شاہ و شیوخ کے ذریعے پاکستان میں پیدا کیا ہے، اس لیے یہ مسئلہ تبھی حل ہوسکے گا، جب امریکی زایونسٹ سعودی بلاک کی ایسی کی تیسی کی جائے، تاکہ وہ ان سازشوں سے باز رہیں اور دوسرا یہ کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی و مذہبی اسٹیبلمشنٹ میں امریکی زایونسٹ اماراتی سعودی غیر ملکی لابی کے ایجنٹوں کا بلا امتیاز احتساب کرنا ہوگا۔

ماضی میں بھی بیان کیا جاچکا کہ اسٹیبلشمنٹ ان ممالک کو قوم کے سامنے دوست اور محسن قرار دیتی ہے، حالانکہ لسانی و مذہبی دونوں طرح کی دہشت گردی میں یہ نام نہاد دوست ہی ملوث ہیں۔ تازہ مثال کے طور پر دیکھ لیں کہ راحیل شریف سعودی ملازم ہیں۔ انہوں نے پاکستان آکر ملاقاتیں کیں۔ سعودی سفیر نے ملاقاتیں کیں اور اس کے بعد چند مولوی حضرات نے یہ فتنہ شروع کر دیا، حالانکہ ان مولوی حضرات اور ان کے بزرگان نے باقاعدہ ایک دوسرے کو کافر، مشرک، بدعتی، فاسق قرار دیا اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دیا، حتیٰ کہ نکاح کرنا حرام قرار دیا۔ اس صورتحال میں پچھلے چالیس برسوں میں سعودی ناصبی وہابی فرقہ کے آلہ کار مستحکم ہوگئے۔ سعودی حمایت یافتہ دیوبندی فرقے نے بریلوی مسلک کے سابقہ ٹھاٹھ ختم کرکے رکھ دیئے۔ اب بریلوی مسلک کے چند نادان نئے آلہ کاروں نے اپنے ہی مسلک کو نقصان پہنچایا ہے۔ بریلوی مسلک اب کہاں ہے؟  درگاہی سلسلوں کے بزرگان ان سے نالاں ہوچکے ہیں۔

یہ ناقابل تردید زمینی حقائق ہیں۔ نہ تو غالیوں کی کوئی اوقات ہے نہ حیثیت کہ پاکستان میں اس نوعیت کے فتنے ایجاد کرسکتے۔ ہم سبھی گواہ ہیں کہ ان غالیوں نے ریاستی سرپرستی میں پچھلے کئی برسوں سے شیعہ اسلامی مرجعیت کو گالیاں دیں اور شیعہ اسلامی مرجعیت کے مقلدین کو ایران کا ایجنٹ کہتے رہے۔ ایسا اس لیے تھا کہ سعودی عرب، امارات و بحرین، زایونسٹ امریکی بلاک سبھی ان غالیوں اور ناصبیوں کے ساتھ تھے اور ہیں۔ سعودی سفیر کالعدم دہشت گرد گروہ کے مولویوں کی میزبانی کرتا ہے۔ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر کہنے والوں کو ریاستی پروٹوکول حاصل ہے۔ حتیٰ کہ ریاستی ادارے کے اجلاس میں کالعدم دہشت گرد ٹولے کے مولویوں کو بھی بلایا جاتا ہے اور ان سے پوچھ کر ان کی ڈکٹیشن اور فرمائش پر شیعہ اسلامی قائدین کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ یہ ہے زمینی حقیقت۔ دوسری طرف چن چن کر صحیح العقیدہ شیعہ اسلامی علمائے کرام اور خواص کے خلاف اقدامات کئے گئے ہیں۔ پرامن، محب وطن، قانون پسند، جید شیعہ علماء کو بدنام کیا گیا، کسی کو جعلی مقدمات میں پھنسایا، کسی کو فورتھ شیڈیول میں ڈالا تو کسی کے دیگر علاقوں میں داخلہ اور بولنے پر پابندی ہی لگا دی گئی۔ یہ ریاستی اداروں کی پالیسی کی ایک جھلک ہے۔

مخالف مولویوں کا بھی جائزہ لے لیں کہ ان غالیوں کی بکواس کے وڈیو کلپس بناکر شیعہ اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرکے انہوں نے بھی شیعہ اسلامی مرجعیت کے خلاف گندی زبان استعمال کی۔ مقدسات محض بہانے ہیں، کیونکہ پاکستان میں مذہبی منافرت، دہشت گردی اور شیعہ نسل کشی ان سب کے مجرم ایک ہی ہیں۔  شیعہ نسل کشی کرنے والا مائنڈ سیٹ اور سکیورٹی فورسز اور سویلین کو جانی نقصانات سے دوچار کرنے والے ایک ہی مائنڈ سیٹ ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ سنی شیعہ مسلم غیر مسلم کو نہیں دیکھتا بلکہ اپنے آقاؤں کے مفادات کے لیے انکی ڈکٹیشن پر کارروائیاں کرتا ہے۔ جھوٹا ہے وہ شخص جو شیعہ نسل کشی کا سبب کسی بھی ذاکر کو قرار دے، کیونکہ اگر فقہی لحاظ سے بھی بات کی جائے تو امام ابو حنیفہ سے امام احمد بن حنبل تک کسی بھی مشہور فقیہ نے کسی بھی صحابی کو نہ ماننے والے مسلمان کو نہ تو کافر کہا اور نہ ہی واجب القتل قرار دیا۔

پاکستان میں شیعہ نسل کشی سعودی امریکی زایونسٹ ایجنڈا کے تحت کی جاتی ہے، کیونکہ اگر تحریر و تقریر کی بنیاد پر حملے ہوتے تو مودودی صاحب کی کتاب خلافت و ملوکیت کی بنیاد پر سارے بریلوی دیوبندی اور اہل حدیث مل کر جماعت اسلامی پر حملے کرتے، تفسیر جواہر القرآن اور احسان الہیٰ ظہیر کے نظریات کو بنیاد بنا کر سارے بریلوی اور اہل طریقت دیوبندیوں پر حملے کرتے۔ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے نظریات کی بنیاد پر دیوبندی مفتی منیب پر حملے کرتے۔ مسئلہ مسلکی اختلافات کا نہیں ہے اور مسئلہ مقدسات کا بھی نہیں ہے جناب۔ مسئلہ سعودی عرب کا ہے، جس کا ولی عہد سلطنت ایم بی ایس اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے اور اس نے امریکی صدارتی الیکشن تک اس بات کو موخر کرنے کی درخواست امریکا سے کی ہے۔ پاکستان کے مذہبی مسلمانوں کو اس لیے نان ایشو میں الجھا کر باہم دست و گریباں کر دیا گیا ہے۔ اس لئے شیعہ نسل کشی پر بھی منصفانہ موقف ہونا چاہیئے۔ ذاکرین پر الزام لگا دینا تکفیری قاتلوں اور دہشت گردوں کی اسلام دشمن کارروائیوں کے دفاع کے مترادف ہے۔


خبر کا کوڈ: 889827

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/889827/جناح-اقبال-کے-پاکستان-پر-بنو-امیہ-کا-قبضہ-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org