0
Saturday 3 Oct 2020 07:09

شہید انسانیت حسین(ع)

شہید انسانیت حسین(ع)
تحریر: محمد حسن جمالی

انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔

انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔

نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔

اسی طرح حسین ابن علی کی منطق میں اگر کوئی راہ حق میں عزت سے مر جائے تو حقیقت میں وہ مرا نہیں ہے بلکہ ایسی حیات کا مالک بنا ہے، جس کے بعد کوئی موت نہیں۔ حسین ابن علی کی نظر میں ظلم کے زیر سایہ ظالموں کی حکمرانی قبول کرکے زندہ رہنا موت کے مترادف تها، جس کی وجہ سے آپ نے یزید جیسے ظالم و سفاک انسان کی بیعت قبول کرنے سے انکار کیا اور راہ حق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے حیات خالدہ کے مالک بن گئے اور دنیا والوں کو درس حریت، عزت، غیرت، ایثار و فداکاری دے گئے۔ اسی طرح حق و باطل کی پہچان کروا کر اہل حق کی حمایت اور اہل باطل سے نفرت کرنے کا سبق بهی سکها کر گئے۔ امام حسین (ع) دین پر اپنی جان نچهاور کرکے بظاہر دنیا والوں کی نظروں سے تو غائب ہوگئے مگر حقیقت میں آپ حیات خالدہ کے مالک بن کر آج بهی کروڑوں اربوں انسانوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں روز بروز عاشقان حسین میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی ایک جهلک اربعین کے دن کربلا کی مقدس سرزمین پر نظر آنے والا عاشقان حسینی کا بے نظیر سمندر ہے۔

پوری دنیا سے مسلم و غیر مسلم ہر سال اربعین کے دن کربلا پہنچتے ہیں۔ ہر سال زائرین کی تعداد کا بڑھ جانا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حسین (ع) کے چاہنے والے زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی میڈیا سمیت دنیا کا میڈیا کربلا میں جمع ہونے والے بے شمار انسانوں کے اہداف و مقاصد اور اتنی بڑی جمعیت کی پرشکوہ پیادہ روی کے عظیم منظر کو نہیں دکهاتا، یہ خود اپنی جگہ ایک بہت بڑا ظلم ہے۔ بہرصورت آج حسین (ع) کے ماننے والوں کو بهی چاہیئے کہ ان کی سیرت پر چلیں۔ ان کی منطق کو اپنائیں اور وقت کے یزیدیوں کے مظالم کے سامنے اپنے آپ کو بے بس سمجهتے ہوئے خاموش رہنے کی بجائے حسین ابن علی کی طرح ظلم کے خلاف قیام کریں۔ ظالموں کی غلامی میں زندہ رہنے کے بجائے ظلم کے خلاف میدان میں نکل کر صدائے حق بلند کرکے عزت کی زندگی کے حصول کے لئے جدوجہد کریں۔

آج ہمارے ملک پاکستان میں غریب عوام پر ظالم حکمران مظالم کے پہاڑ گرائے جا رہے ہیں، آئے روز عوامی مسائل اور مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران محب وطن افراد کے لئے دہشتگرد ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی سرزمین سے ہر باشعور، پڑهے لکهے، حق اور اہل حق کی سربلندی اور باطل پرست افراد کے ناپاک عزائم کو خلاک میں ملانے کی کوشش کرنے والوں کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر پکڑ پکڑ کر لاپتہ کروا رہے ہیں۔ حق لکهنے اور بولنے والوں کو قتل کروا کر یا قتل کی دھمکی دے کر خاموش کروا رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کی ظالمانہ حکمرانی کے سبب حق بولنا اور لکهنا جرم بن گیا ہے۔ انصاف، حقوق کی مساوات اور حکمرانوں کے غلط اقدامات پر آواز اٹهانا موت کو گلے لگانے کے مترادف بن گیا ہے۔ پاکستان کی سرزمین حسینت کے لئے تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔ قائد کے شہر میں کهلے عام شیعوں کی تکفیر ہو رہی ہے۔ یزیدی پاکستانی مسلمانوں کو پوری منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت کی جنگ میں دهکیل رہے ہیں، مگر حکمران خواب خرگوش میں مست ہیں۔

غرض اگر پاکستان میں حکمرانوں کے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ مجموعی رویئے اور برتاو کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے شیعہ قوم کو ستم کے دائرے کے اندر قیدی بنا کر رکها ہوا ہے۔ انہیں نہ اظہار بیان کی آزادی ہے اور نہ لکهنے کی۔ ان کی تکفیر کرنے والوں کے خلاف مئوثر کارروائی بهی عمل میں نہیں آئی۔ یہ زندگی بلاشبہ حسینت کے لئے ذلت کی زندگی ہے، اس زندگی سے تو عزت کی موت بہتر ہے۔ حسین ابن علی کے ماننے والے اب جان لیں کہ اب خاموش رہنا کسی صورت میں روا نہیں۔ حکمرانوں کے مظالم کے خلاف حسین ابن علی کی سیرت پر چلتے ہوئے قیام کریں۔ تکفیری ٹولے کے مقابلے میں متحد ہوکر عزت کی زندگی کے لئے تگ و دو کریں۔ اس راہ میں جو جس طاقت سے لیس ہے، اپنی اسی طاقت کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کرے۔ یقین جانیے اس راہ میں کسی کی جان بھی چلی جائے تو اسے حیات ابدی نصیب ہوگی۔ بے شک حسین ابن علی نے بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا ہے۔ بقول ہندو شاعر
جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے
مر کے جینا سکها دیا تو نے
خبر کا کوڈ : 889849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش