0
Saturday 3 Oct 2020 21:32

نکورنو قرہ باخ جنگ زادوں کا نیا میدان

نکورنو قرہ باخ جنگ زادوں کا نیا میدان
تحریر: سید اسد عباس

آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین نگورنو قرہ باخ کے تنازعے پر ایک مرتبہ پھر خونریز جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور عالمی برادری دونوں ممالک سے پرامن رہنے کی اپیلیں کر رہی ہے۔ نگورنو قرہ باخ کا تنازعہ نیا نہیں 1918ء میں روسی سلطنت کے خاتمے کے بعد آذربائیجان اور آرمینیا آزاد ہوئے تو اسی وقت دنوں ممالک کے مابین نگورنو قرہ باخ کا علاقہ متنازع ہوگیا۔ سوویت یونین کے زمانے میں یہ علاقہ آذربائیجان کی انتظامیہ کے تحت ایک خود مختار علاقہ قرار پایا۔ جیسے ہی سوویت یونین کا خاتمہ ہوا، ایک مرتبہ پھر نگورنو قرہ باخ کے مسئلہ نے سر اٹھایا، جو کہ دونوں ممالک کے مابین جنگ اور پھر امن معاہدے پر منتہی ہوا۔ 2016ء میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان خونریز مسلح جھڑپیں ہوئیں، جن میں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور انسانی ہجرت محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ نفوس پر محیط تھی۔

نگورنو قرہ باخ چوالیس سو مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ ہے، جس کی آبادی ایک لاکھ چھیالیس ہزار پانچ سو تہتر نفوس پر مشتمل ہے، اکثریتی آبادی عیسائیت کی پیروکار ہے۔ یہ علاقہ تیل جیسی معدنیات کے وسیع ذخائر رکھتا ہے۔ نگورنو قرہ باخ ایک بڑا سیاحتی مقام بھی ہے، الکوحل اور خوراک کی پیداوار کے ساتھ بجلی کا سامان اور گھڑیاں بنانے کے حوالے سے معروف ہے۔ نگورنو قرہ باخ سلجوق، عثمانی، صفوی اور منگولوں کے تسلط میں رہا، تاہم اس کی حیثیت ہمیشہ نیم خود مختار ریاستوں کی ہی رہی۔ موجودہ آرمینیا کا رقبہ 29743 مربع کلو میٹر اور آبادی 2956900 ہے، جس میں مسلمانوں کی تعداد 0.3 فیصد محض ایک ہزار کے قریب یعنی نہ ہونے کے برابر ہے۔ برآمدات میں کاپر، لوہا، سیگریٹ، سونا اور مشینری بڑا حصہ ہیں۔ یہ ملک نہ صرف خوراک میں خود کفیل بلکہ برآمد بھی کرتا ہے۔ اسی طرح آذربائیجان کا رقبہ چھیاسی ہزار چھ سو مربع کلو میٹر اور آبادی ایک کروڑ ایک لاکھ ستائیس ہزار آٹھ سو چوہتر ہے۔ کل آبادی کا 96.9 فیصد مسلمان جبکہ تین فیصد آبادی عیسائی ہے، 0.1 دیگر مذاہب ہیں۔ برآمدات میں تیل، گیس، مشینری اور کھانے پینے کی اشیا شامل ہیں۔

عالمی سطح پر نگورنو قرہ باخ کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1994ء میں جب آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جنگ بندی ہوئی، اس وقت نگورنو قرہ باخ کے علاقے پر آرمینیا کی افواج اور علیحدگی پنسندوں کا قبضہ تھا۔ یہاں کی مقامی آبادی نے ایک ریفرینڈم کے ذریعے آزادی کا اعلان کیا اور جمہوریہ ارتسخ کی بنیاد رکھی۔ مبصرین کے مطابق اس ریاست کا وجود مختلف موارد میں آرمینیا پر انحصار کی وجہ سے آرمینا ہی کا مرہون منت ہے۔ ارتسخ حکومت کو چونکہ اس وقت تک کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا، لہذا اس کے دنیا میں کسی سے بھی سفارتی تعلقات نہیں۔ روس آرمینیا کی پشت پر ہے جبکہ آذربائیجان کے روابط قریبی ہمسایوں کی نسبت یورپی یونین، مغرب اور اسرائیل سے زیادہ ہیں۔ ترکی آذربائیجان کا حامی ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آذربائیجان کی زیادہ آبادی اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھتی ہے، اس کے باوجود آذربائیجان کے تعلقات ہمسایہ ملک ایران سے اچھے نہیں۔ اس کے برعکس آذربائیجان کے اسرائیل اور سعودیہ سے مضبوط اور گہرے تعلقات ہیں۔ ایران نے کئی مرتبہ ایسے شواہد مہیا کیے ہیں کہ آذربائیجان کی سرزمین کو ایران کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ آذربائیجان کی حکومت نے اسرائیل اور نیٹو کو اپنے متعدد ہوائی اڈوں پر رسائی دے رکھی ہے، جہاں سے اسرائیلی جہازوں کو بوقت ضرورت ایران پر حملے کی بھی اجازت ہے۔ اسرائیل اور آذربائیجان کے مابین ایران پر حملے کی متعدد آزمائشی مشقیں بھی ہوچکی ہیں۔ آذربائیجان کی افواج کا 60 فیصد اسلح اسرائیل سے آتا ہے، جس کے بدلے میں آذربائیجان اسرائیل کو تیل مہیا کرتا ہے۔ آذربائیجان ایک سیکولر ریاست ہے اور ایران میں موجود مذہبی قیادت اور نظریہ کو اپنے ملک میں پنپنے نہیں دینا چاہتا، یہی وجہ ہے کہ آذربائیجان کے روابط ایران کے بجائے اس کے مخالفین سے ہیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان کا مسئلہ ہے تو مقامی، تاہم اس وقت یہ شام کے بعد عالمی جنگ کا نیا میدان بننے کے لیے تیار ہے۔ وہی شام میں لڑنے والی قوتیں اور نیا فلسفہ جنگ۔ خوش قسمتی سے ترکی، نیٹو، اس کے اتحادی عرب و عجم اور اسرائیل نگورنو قرہ باخ کے معاملے میں عالمی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ کی جانب کھڑے ہیں، یعنی نگورنو قرہ باخ آذربائیجان کی سرزمین ہے، جس پر آرمینیا کا قبضہ ہے جبکہ شام میں عالمی طور پر تسلیم شدہ مسئلہ یعنی بشار کی حکومت کے حامی آج آرمینیا کی پشت پر ہیں۔ آرمینیا اپنی جنگ کو اسلام بمقابلہ عیسائیت جنگ کے طور پر پیش کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ نگورنو قرہ باخ کے تنازع کو عیسائیت کا مسئلہ قرار دے کر ہمیشہ کے لیے حل کروا لیا جائے۔

مسئلہ کا ظاہر یہ ہے کہ ایک جانب قابض عیسائی آبادی ہے اور دوسری جانب مسلمان ریاست کا عالمی طور پر تسلیم شدہ خطہ، جس پر عیسائی ریاست کا قبضہ ہے۔ جنگ کے ڈونرز، منصوبہ سازوں اور سرمایہ کاروں کے لیے ایک اچھا موقع ہے کہ مذہبی جذبات سے بھرپور استفادہ کرکے سیاسی اور تزویراتی مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ ترکی آذری اور مسلم شناخت کے سبب آذربائیجان کی صف میں موجود ہے، اسرائیل ویسے ہی آذربائیجان کا اتحادی ہے، نیٹو ممالک کے اگرچہ آذربائیجان سے اچھے تعلقات ہیں اور وہ اس میدان میں روس کو دھول چٹانا چاہتے ہوں گے، تاہم وہ کبھی بھی اس جنگ کا کھل کر حصہ نہیں بنیں گے۔ ممکن ہے کہ یورپی اور مغربی ممالک کے عوام نیز حکومتیں پس پردہ آرمینیا کی مدد بھی کریں۔

ایران ہم مسلک اور ہم مذہب ہونے کے باوجود اسرائیل، نیٹو اور اس کے عرب اتحادیوں سے روابط کے سبب آذربائیجان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوسکتا، یقیناً اس کا کردار اس جنگ کو ختم کرنے اور گفت و شنید سے مسائل کو حل کرنے کی جانب لے جانے والا ہوگا۔ روس بھی یہی چاہے گا کہ خطہ کسی نئی جنگ کا شکار نہ ہو، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلکی اور مذہبی شناختوں سے بالاتر ہو کر روس اور خطے کے دیگر ممالک متنازع علاقے کے حوالے سے ایک منصفانہ حل پیش کریں، ورنہ یہ جنگ کبھی بھی علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اگر اس خطے میں ایسی کوئی جنگ چھڑتی ہے تو اس کا ظاہر مذہبی اور باطن اقتصادی، تزویراتی اور اقتصادی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 890001
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش