0
Sunday 4 Oct 2020 11:04

پاکستان، بیرونی سازشوں کا نشانہ

پاکستان، بیرونی سازشوں کا نشانہ
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کی بھی عجیب قسمت ہے، ہر ملک نے اِسے استعمال کرنے کی ہی کوشش کی اور دھونس جمائی ہے۔ اِس میں ہمارے ماضی کے حکمرانوں کے کرتوت بھی شامل حال رہے ہیں، جن کی وجہ سے ہم استعمال ہوتے آرہے ہیں۔ ماضی میں سب سے بڑی ڈیل جنرل ضیاءالحق نے کی تھی اور روس کیخلاف امریکی ایماء پر پرائی آگ میں کود پڑا تھا۔ اس پرائی جنگ میں شمولیت کیلئے ہم نے گرم پانیوں کو بچانے کا دعویٰ کیا تھا، پاکستان کے عوام کو یہ بتایا گیا کہ روس گرم پانیوں تک آنا چاہتا تھا، جسے روکنے کیلئے افغانستان میں ہی اس کا راستہ روکا گیا ہے، جبکہ اب روسی حکام وضاحت کرچکے ہیں کہ ان کا ہدف گرم پانی کبھی نہیں رہے، لیکن امریکہ کی روزِ اول سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ جھوٹ کی بنیاد پر ملکوں کے ملک تباہ کرتا آیا ہے۔ جیسے عراق میں صدام کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے جھوٹ کو بنیاد بنا کر چڑھائی کی۔ اسی طرح افغانستان میں روس کی گرم پانیوں تک آمد کا جھوٹ گھڑا گیا۔

امریکی جھوٹ کی ایسی بیسیوں مثالیں دنیا میں موجود ہیں، جن کو بنیاد بنا کر امریکہ نے تباہی پھیلائی۔ ضیاءالحق کے بعد آنیوالے تمام حکمران امریکہ کے کاسہ لیس رہے ہیں اور ان کے منہ کو "امریکی ایڈ" کی ایسی چاٹ لگی کہ یہ بھکاری بن کر ہی رہ گئے۔ امریکہ کے بعد کچھ ہمارے دوست ممالک بھی ایسے ہیں، جنہوں نے ہماری حیثیت کا اندازہ امریکی عینک سے ہی لگایا اور ہمیں بھکاری ہی سمجھا۔ ہمارے ان دوست ممالک میں سعودی عرب سرفہرست ہے، جو ہر کام کیلئے ہماری خدمات "کرائے" پر حاصل کر لیتا ہے۔ ہم اس "نوکری" کو اپنے دل کی تسلی کیلئے دوستی کا نام تو دے لیتے ہیں لیکن یہ عالمی سفارتی اصول ہے کہ ممالک کے درمیان دوستیاں اور دشمنیاں مفادات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ہمارا مسلمان بھائی ہے یا ہمارا پڑوسی ہے۔ جس وقت مفاد ختم ہوتا ہے، اسی وقت آنکھیں پھیر لی جاتی ہیں۔ پاکستان کیساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا آرہا ہے۔ ہم سادہ قوم ہیں، جلد ہی مختلف حربوں اور دلکش ناموں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کبھی ہمیں دین کے نام پر "جسدِ واحد" بنا کر لُوٹا جاتا ہے تو کبھی تجارت کے نام پر ہماری دوستی ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہو جاتی ہے۔ لیکن اسی جسدِ واحد کا دوسرا حصہ جب بھارت کیساتھ اپنا مفاد دیکھتا ہے، تو ہمیں کشمیر میں روتا چھوڑ کر مودی کی گود میں جا بیٹھتا ہے۔ ہمارے کشمیر کاز کو فراموش کرکے اسے ہمارا اندرونی معاملہ قرار دے دیتا ہے اور جب خود اُس پر کوئی افتاد پڑتی ہے یا یمن جیسا نہتا ملک آنکھیں دکھاتا ہے تو پھر ہماری ہی فوج کی خدمات کا تقاضا کر دیتا ہے۔ پھر ہمیں حرمین شریفین کے نام پر ایموشنل بلیک میل کر لیتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ اگر فوج بھیجنے کی اجازت نہ دے تو ہمارے ریٹائرڈ فوجیوں کی خدمات حاصل کر لیتا ہے اور اس کیلئے قوانین کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر پاکستان دشمن کی آنکھ کا کانٹا بن گیا ہے۔ سی پیک منصوبے سے لے کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے تک استعماری قوتوں کی نگاہیں پاکستان پر لگی ہیں۔ یو اے ای سمیت چند عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے، مگر اسرائیل کی نگاہ میں ان ممالک کی کوئی حیثیت نہیں، اُس پر صرف یہ دُھن سوار ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے۔

اس مقصد کیلئے اسرائیل نے براہ راست رابطے کے بجائے سعودی عرب کا کندھا استعمال کیا ہے۔ ظاہر ہے سعودی عرب ہمارا "برادر اسلامی ملک اور گہرا دوست" ہے۔ اس کا اثرورسوخ بھی کافی زیادہ ہے۔ ہم نے کبھی اسے انکار بھی نہیں کیا، تو اسرائیل نے اسی وجہ سے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے۔ یو اے ای بھی ہمارا "برادر اسلامی ملک" ہے لیکن جب سے ہم نے گوادر بندرگاہ کا منصوبہ شروع کیا ہے، انڈیا اور یو اے ای ایک پیج پر آگئے تھے اور تب سے دونوں مل کر پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ عربوں میں صرف سعودی عرب رہ گیا تھا، ابھی سعودی عرب نے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو خود تسلیم نہیں کیا (اندر کھاتے ممکن ہے یو اے ای کی طرح پہلے ہی تسلیم کرچکا ہو) لیکن اُس کی خواہش یہ ضرور ہے کہ پہلے پاکستان اسے تسلیم کرے، اس کے بعد سعودی عرب بھی اعلان کر دے گا۔ پاکستان کی جانب سے انکار کے بعد ہمارا برادر ہم سے ناراض ہوگیا اور اس کی ناراضگی کیساتھ ہی اس برادر ملک کا سفیر پاکستان میں فعال ہوگیا۔ سفیر محترم نے بہت سے مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ سفیر محترم اپنے پروٹوکول سے نکل کر غیر قانونی طریقے سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ فرقہ وارانہ لہر کی صورت میں نکلا۔

محرم الحرام میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کا بھرپور پلان تھا، جس کا شیعہ سنی علماء کی بصیرت نے قبل از وقت ادارک کرتے ہوئے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ واقفانِ حال کہتے ہیں "بڑے صاحب" نے تمام مکاتب فکر کے علماء کو جمع کیا اور انہیں آئینہ دکھایا کہ کس کے طور اطوار کس طرح کے ہیں اور کس کو کہاں سے کتنی فنڈنگ ہوئی ہے۔ ساتھ ہی بڑے صاحب نے تھوڑے سے تلخ لہجے میں یہ بھی کہہ دیا کہ "بندے دے پُتر" بن جائیں، ورنہ ساری فنڈنگ کی تفصیلات پبلک کر دی جائیں گی۔ کہتے ہیں کہ اس میٹنگ کے بعد مذہبی شرپسند ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فرقہ واریت کی آگ کو قابو کر لیا گیا ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ جس بندے پر شبہ ہو کہ آپ کا مال چوری کر لے گا، اُسی کے پاس وہ مال امانت رکھوا دیں، وہ محفوظ رہے گا۔ بڑے صاحب نے بھی ایسا ہی کلیہ استعمال کیا ہے اور ایک ایسے بندے کو مشیر بین المذاہب ہم آہنگی بنا دیا ہے، جس کے بارے میں شک تھا کہ "چوری" کر لے گا، اب وہی اس امانت کی حفاظت پر مامور ہوگیا ہے اور شیعہ سنی وحدت کا پرچار کرتا پھر رہا ہے۔ اُمید ہے "مال" محفوظ رہے گا۔ لیکن دشمن کی ایک سازش ناکام ہوئی ہے، دوسری پر ابھی عمل جاری ہے۔

دوسری سازش سیاسی بحران ہے۔ ہمارے سیاستدان اور اعلیٰ ادارے دوستی کا اب بھی بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ براہ راست "برادر ملک" کا نام نہیں لیتے لیکن اتنا سب کہہ رہے ہیں کہ ایک عرب دوست ملک پاکستان کیساتھ سازش میں انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کا ہم نواء بنا ہوا ہے۔ خیر، اللہ انہیں نام لینے کی بھی توفیق دے۔ اس دوست ملک کا ایک وفد نواز شریف سے لندن کے ہائیڈ پارک میں مل چکا ہے، اس ملاقات کے بعد ہی میاں نواز شریف ایک دم  صحتیاب ہوگئے اور ان کی پلیٹیں بھی پوری ہوگئیں اور "شیر، ایک واری فیر" کے نعرے کیساتھ میدان میں بھی کود پڑے ہیں اور آتے ہی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے واقفانِ حال بتا رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو بھی "حصہ" مل گیا ہے اور نون لیگ تو ظاہر ہے کہ لندن میں معاملات طے کرچکی تھی، لیکن پیپلز پارٹی کو کچھ نہیں دیا گیا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

اگر آنیوالے چند دنوں میں پیپلز پارٹی کو حصہ مل گیا تو یہ اس حکومت مخالف تحریک کا حصہ رہے گی اور اگر صرف دلاسہ ملا تو الگ ہو جائے گی، اس حوالے سے پی پی پی کے اعلیٰ عہدیدار اس پر غور و فکر میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب پاکستان دشمنوں نے لندن میں بیٹھے بیمار شیر کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ ابھی بھی جوان ہے اور چوتھی بار وزیراعظم بن کر نیا ریکارڈ قائم کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بوڑھا شیر اپنی مصنوعی دھاڑ سے خود کو جوان ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے، جبکہ حکومت اور ادارے اسے دوبارہ پنجرے میں بند کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی بحران تو کنٹرول ہوگیا ہے لیکن اس سر اُٹھاتے سیاسی بحران کے سامنے بھی بروقت بند باندھنے کی ضرورت ہے، دشمن نہیں چاہتا کہ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو اور ساتھ اسرائیل کا معاملہ بھی سر اُٹھائے دروازے پر کھڑا ہے۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اور اسرائیل بھی نظریئے کی بنیاد پر قائم ہو رہا ہے، تو ایسی ریاست کو پاکستان کیسے قبول کرلے جو ناجائز ہے۔

اسے عرب حکمران محض اس لئے تسلیم کرتے جا رہے ہیں کہ ان کے اقتدار کو دوام مل جائے، مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ امریکہ مشکل میں کبھی ساتھ نہیں دیتا، اب بھی اگر ان عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی لہر اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہاں سے بھاگنے والا امریکہ ہی ہوگا۔ ہمیں شدید طوفان میں کاغذ کی کشتیوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ اپنی خودی کو بلند کریں، تاکہ خدا تقدیر لکھنے سے پہلے ہم سے ہماری رضا پوچھ لے۔ اگر ہم نے خودی بیج دی تو ہماری حیثیت راستے کے اس پتھر کے جیسی ہو جائے گی، جسے ٹھوکر مارنا ہر کوئی اپنا فرضِ عین سمجھتا ہے۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
(علامہ محمد اقبالؒ)
خبر کا کوڈ : 890063
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش