0
Saturday 10 Oct 2020 10:18
پہلا حصہ: موضوع کی وضاحت اور دلیلوں کی تشریح(2)

عصر حاضر میں قیام حسینی کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(2)

عصر حاضر میں قیام حسینی کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(2)
تحریر: پیمان محمدی
تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی گریجویٹ

گذشتہ سے پیوستہ
پہلے گروہ کے نظریئے پر تنقید کا ایک اور پہلو، عقل اور تاریخی و معاصر واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی بنیاد پر ہے۔ پہلے گروہ کا نظریہ، حتیٰ کہ دوسرے گروہ کے نظریئے کا بعض حصہ ان موضوعات کے ساتھ سازگار اور ہم آہنگ نہیں ہے کہ جن کا مغربی دانشور خود اقرار کرتے ہیں۔ خود مغرب کے تاریخی اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ علم اور ٹیکنالوجی، آئیڈیالوجی[1] سے بے نیاز نہیں ہے بلکہ بعض شعبوں میں اس کی توسیع و ترقی، مکمل طور پر وسیلہ کے نقطہ نظر اور آئیڈیالوجیکل بنیاد پر ہوئی ہے۔ ڈراکر (۱۹۸۶) اشارہ کرتا ہے: جس طرح سے ہم جانتے ہیں کہ جدید یونیورسٹی کا آغاز ایک جرمن ڈپلومیٹ اور حکومتی ملازم بنام ویلہم فون ہمبلٹ کی اختراع اور ایجاد سے ہوا کہ جس نے ۱۸۰۹ء میں دو مشخص اہداف کے پیش نظر برلن یونیورسٹی کی تأسیس کی۔ اہل فرانس سے علمی و فکری رہبری حاصل کرے اور جرمنز کو دے اور نیز انقلابِ فرانس کی وجہ سے متروک قوتوں کو کسب کرے اور انہیں خود اہلِ فرانس خاص کر نیپولین کے برخلاف استعمال کرے۔ وہ اعتراف کرتا ہے کہ ”ساٹھ سال بعد ۱۸۷۰ء کے آس پاس جب جرمن یونیورسٹی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، اس وقت ہمبلٹ کا یونیورسٹی کے بارے میں نظریہ اوقیانوس اطلس اور امریکہ میں تبدیلی و تغییر کا ایک عامل قرار پایا)[2](ڈراکر( ۱۹۸۶ء)، ص.۲۳)

علاوہ ازین علم اور ٹیکنالوجی کی نسبت، فوجی اور سیاسی تسلط اور اجارہ داری کے ساتھ اس طرح سے جڑی ہوئی ہے کہ جس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر روٹن[3](۲۰۰۶ء) جیسے محققین کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ چھ قسم کی ایجادات جیسے ایٹمی ٹیکنالوجی، الیکٹرک ٹیکنالوجی، کمپیوٹر کی صنعت، ایروسپیس انڈسٹریز وغیرہ کی توسیع و ترقی میں عمومی و فوجی توسیع و تحقیق کی تاثیر کے بارے میں تحقیق و بررسی کریں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک کتاب تالیف کریں کہ جس کا عنوان یہ تھا ”کیا معاشی ترقی کے لئے جنگ ضروری ہے؟“[4] خود اہل مغرب نے اپنے رقیب یا مخالف ملکوں کو کمزور کرنے کے لئے معاشرتی و انسانی علوم سے استفادہ کیا ہے اور اس طرح سے استفادہ کرنے کا تاریخچہ ۶۰ اور ۷۰ میلادی کے عشروں میں امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کی طرف لوٹتا ہے۔ اس بنا پر بعض اسلامی دانشوروں کی یہ گفتگو کہ علم کی شان اس سے بالاتر اور مقدس تر ہے کہ وہ حکومت اور سیاست کی خدمت کرے، کئی عشرے قبل جنگ سرد وغیرہ میں اہلِ مغرب کے توسط سے نقض ہوچکی ہے اور اس موضوع کا اہلِ مغرب نے اعتراف بھی کیا ہے۔

امریکہ میں ”پارٹی زن ریویو“[5]، برطانیہ میں ”انکینٹر“ [6] فرانس میں ”ڈرمونات“[7] اٹلی میں ”زمان حاضر“[8]اٹلی میں کڈرنس[9]لاتینی امریکہ میں ”کواڈرنیٹ“[10]، اسٹریلیا میں ”کوئیسٹ“[11] اور ہندوستان میں شائع ہونے والے یہ مجلات، روس اور مغرب کے درمیان ۵۰ اور۶۰ میلادی کے عشرے میں سرد جنگ میں معاشرتی اور انسانی علوم کی آئیڈیالوجی کے نتائج کا تھوڑا سا حصہ ہے۔ انگریز محقق سینڈرز اسٹونور اپنی کتاب ”ثقافتی آزادی کانگریس“ میں ان مختلف مالی رقوم اور کریڈٹس کا ذکر کرتا ہے کہ جو امریکہ کے جاسوسی ادارے CIA نے خیراتی اداروں جیسے فارفیلڈ، راکفیلر، فورڈ، ہیبلٹزیل، فلورنس وغیرہ کے ذریعے ۶۰ اور ۷۰ میلادی کے عشروں میں مذکورہ مجلوں کو ادا کیے ہیں۔[12] بنابر ایں اُس کے پیش نظر جس کی طرف اشارہ ہوا ہے، بعض اسلامی دانشوروں کی یہ گفتگو اور سوچ یعنی علم اور ٹیکنالوجی کے مرتبے اور شان کو حکومت، سیاست اور آئیڈیالوجی سے  مستقل سمجھنا، انہیں مغربی معاشروں کی تاریخ اور عمل کے ساتھ بھی ہم آہنگ نہیں ہے اور ایک غیر حقیقی اور ناقابل یقین ہے۔[13]

تاریخی شواہد کی بنیاد پر، معاشرتی و انسانی علوم (خاص طور پر) مغربی علمی اور اکثر سیکولر بنیادوں کے حامل ہیں اور ان کا استعمال خواہ ناخواہ اسلامی معاشروں کی طرف ان اصولوں کے انتقال کا باعث بنتا ہے، مگر یہ کہ اسلامی دانشور آیت ”نفی سبیل“ پر بھروسہ کرتے ہوئے، توحیدی اور اسلامی نظریات سے ان نظریات کی تطہیر اور تبدیلی کے در پے ہوں۔ اسلامی معاشروں میں مخملی اور مختلف اقسام کی نرم بغاوتیں، سیکولر انسانی و معاشرتی علوم کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ بعض مغربی محققین اور نظریہ پرداز اس بات کا اعتراف کرتے ہیں۔ ہننا آرنڈٹ [14]، جدید علم کو  دنیائے سیکولر کا نتیجہ اور فلسفہ شکاکیت سے وابستہ سمجھتی ہے اور اس کی معتقد ہے کہ اس فلسفے کی رشد و ترقی ہر قسم کے دینی ادارے یا مذہبی حکومت کے گرنے کا باعث بنتی ہے۔[15] آرنڈٹ، بیسویں صدی میں امریکی جاسوسی ادارے کا معروف چہرہ اور روشنفکر یہودی ہے۔ وہ یہودی فلاسفہ میں سے ہے کہ جس نے اسٹریٹیجک سروس[16] آفس کو تشکیل دے کر سرد جنگ میں ایک موثر کردار ادا کرتے ہوئے، اس آفس کی تأسیس کے بعد کچھ ہی سالوں میں CIA کی ایجاد کا موقع فراہم کیا۔ اس کے سیاسی علوم کے نظریات اور کتابیں، زرق و برق ڈیموکریسی اور آزادی خواہی وغیرہ کے مفاہیم کی شکل میں، CIA کی مخفی مالی حمایت سے دنیا کے اکثر حصوں میں چھپیں اور منتشر ہوئی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس کے متعدد آثار ایران میں بھی شائع ہوئے اور اس کی کتابیں، ایرانی روشنفکری (غیر دینی روشنفکری) کی مقدس کتابوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔

 اس پیرے کی تفصیلی تحقیق اور اس کے متعدد شواہد کسی اور موقع پر پیش کروں گا۔ مغربی انسانی و معاشرتی علوم کی حقیقت اس کے غیر توحیدی اور علمی مبانی و اصولوں سے جدا نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، معاشرتی و انسانی علوم کے بعض شعبوں کی جڑیں مغربی معاشروں میں ہیں اور وہ نظریئے بھی کہ جو ان میں پیش کیے جاتے ہیں اور ترقی پذیر ہیں، ان کے غیر دینی (اگر دین کے مخالف نہ کہیں) مطالب کے زیر اثر ہیں۔ بلا وجہ نہیں ہے کہ انتھونی گیڈنس [17]جیسے افراد اپنے آثار میں معاصر سوشیالوجی کو ماڈرن معاشروں کا مطالعہ (نہ کہ تمام معاشروں کا مطالعہ) سمجھتے ہیں اور وینڈیل بیل[18]  اپنی کتاب ”مستقبل کے مطالعے کے اصول“ میں، اس علمی شعبے کو سوشیالوجی کے زیر اثر، ایک سیکولر علم کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس کے پیش نظر سمجھ سکتے ہیں کہ بعض اسلامی دانشوروں کی اس پر مبنی سوچ کہ علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی ہے، درست سوچ نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اہل مغرب کہ جو دینی علم کے منکر ہیں، انہوں نے بھی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کی گفتگو کے بعد ”اسلامی نقطہ نظر کے مطابق معاشرتی و انسانی علوم میں تحول و انقلاب“ کی ضرورت اور طریقہ کار کو کمزور کرنے کے لیے، گول میز کانفرنسز اور ڈاکومنٹریز بنانا شروع کر دیں۔ مفکرین خود اس بات کے قائل ہیں کہ مغرب میں انسانی و معاشرتی علوم، مغربی اور سیکولر علم کے حامل ہیں۔

دوسری طرف سے حقیقت یہ ہے کہ انسانی و معاشرتی علوم کے نظریات کا وسیع پیمانے پر استعمال اور ان کی مقبولیت، حکمرانوں اور معاشرے کے ہر ایک فرد کے افکار، خیالات اور عملی انداز پر مؤثر ہے۔ اگر ان نظریات کی بنیاد غیر توحیدی اور غیر الہیٰ ہو تو یہ غیر توحیدی عملی انداز اور خیالات کا باعث بنیں گے اور معاشرے کی شکل و صورت اور اس کے اسٹرکچر کو اپنے زیر اثر قرار دیں گے اور انہیں کافروں اور غیر دینی معاشروں کی طرح کر دیں گے۔ ان نظریات کو روح کی غذا سے تشبیہ دینا، معصوم ؑ کی جانب سے ایک لطیف اور ظریف تعبیر ہے: ”زید الشحّام عن أبی جعفر ؑ فی قول اللہ عزّ و جلّ: ”فَلیَنظُرِ الانسان الی طَعامِہِ“ قال: قلت: ما طعامہ؟ قال: علمہ الذی یأخذہ عمّن یأخذہ؛ زید شحّام حضرت امام باقر ؑ سے خداوند متعال کے فرمان ”فَلیَنظُرِ الانسان الی طَعامِہِ“ کے بارے میں روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: میں نے امام ؑ سے عرض کی: انسان کی وہ غذا [کہ جسے دیکھنا چاہیئے] کیا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اس کا وہ علم ہے جسے حاصل کرتا ہے [اس کی طرف دیکھنا جاہیئے] کہ کس سے حاصل کر رہا ہے۔[19]

انسانی و معاشرتی علوم کے نظریات ایسے نظریات ہیں کہ انسانی معاشروں کی تقدیر و سرنوشت ان کی قبولیت اور انجام دہی سے وابستہ ہے اور ایک اسلامی اور الہیٰ معاشرے کے لیے، غیر دینی اور غیر الہیٰ ذریعے سے غذا فراہم نہیں کی جا سکتی۔ جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس کے پیش نظر، بیان شدہ نظریات میں سے پہلے گروہ کا نظریہ شدید تنقید کے مقام پر ہے۔ دوسرے نظریئے کو مجبوری کے تحت اور وقتی طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر اسلامی معاشرے میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ انسانی و اجتماعی علوم کے میدان میں مغربی نظریات کو سمجھیں، ان پر تنقید کریں اور دینی و قومی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید قابل استفادہ نظریات پیش کریں تو مجبوری خود بخود ختم ہو جائے گی اور انسانی و معاشرتی علوم کے نظریات کی تولید میں تبدیلی اور خود انحصاری واجب کفائی کی حد تک پہنچ جائے گی۔ اس بات کا ذکر ضروری ہے، اگرچہ ممکن ہے کہ مختلف ملی، قومی اور مذہبی شخصیات اور افراد کی تعریف اور ان کا نقطہ نظر اس تبدیلی کی وسعت اور انداز کے بارے میں مختلف ہو۔ منتہیٰ یہ بات کوئی مشکل پیدا نہیں کرتی۔ اہم مسئلہ اس جہادی میدان میں حرکت کرنا ہے کہ جس کی نوع نفی سبیل و مؤمنین پر کفار کے تسلط کی نفی ہے اور امام حسینؑ کے قیام کا تسلسل اور دنیا کے فکری اعتبار سے مستضعف افراد کی مدد کرنا ہے۔

مقام افسوس ہے کہ اس وقت اسلامی امہ ہر دور سے زیادہ مغربی معاشرتی و انسانی علوم کے نظریات میں گھری ہوئی ہے اور اپنی اجتماعی و انفرادی زندگی کی منصوبہ بندی انہی نظریات کی بنیاد پر کرتی اور اسے چلاتی ہے۔ مختلف قسم کے چیلنجز اور تناقضات کہ جو اسلامی معاشروں میں نظر آتے ہیں، ایک جدید قسم کے استقلال کی ضرورت کو دوچنداں کر دیتے ہیں: ”فکری استقلال“۔ اسی دلیل کی بنیاد پر تحریر حاضر کا مصنف معتقد ہے کہ اس طرح کا استقلال اور معاشرتی و انسانی علوم میں تبدیلی وجود میں لانا، امور امت کی اصلاح کا ایک ایسا ہدف اور مقصد ہے کہ جو  قیام حسینیؑ کے اہداف و مقاصد میں سے ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ تحریروں میں ”انسانی و معاشرتی علوم کے نظریات کے ذریعے سے نرم انداز میں نابودی“ اور ”اسلامی بیداری، معاشرتی جانچ پرکھ اور تمدن سازی“ اور اس میدان میں اسلامی امت کے نابغہ افراد کے کردار سے مربوط گفتگو کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اس فارمیٹ میں انسانی و معاشرتی علوم کے میدان میں، دینی معاشرے کی نابودی اور ایرانی معاشرے کی بربادی کے مقصد سے، مغربی دانشوروں کی تین عشروں سے زیادہ کوشش اور سازش کی طرف اشارہ کروں۔

آخر میں اس تحریر کو حضرت امام خمینی ؒ کے ان جملات پر ختم کرتا ہوں کہ جو اس کے قائل ہیں کہ تبدیلی اور انقلاب کا دائرہ انسانی و معاشرتی علوم کے علاوہ، قدرتی علوم کو بھی شامل ہے: مغربی یونیورسٹیز، جس مقام پر بھی پہنچ جائیں، ”طبیعت“ کو درک کرتی ہیں، معنویت کے لیے طبیعت کو نہیں روکتی ہیں۔ اسلام قدرتی علوم کو مستقل نہیں سمجھتا۔ تمام قدرتی علوم، جس مقام پر بھی پہنچ جائیں، پھر بھی وہ چیز نہیں ہیں، جو اسلام چاہتا ہے۔ اسلام طبیعت کو حقیقت کے لیے مہار کرتا ہے اور تمام کو وحدت اور توحید سے نسبت دیتا ہے۔[20](تہران یونیورسٹی کے اساتذہ کی امام خمینی سے ملاقات، ۱۳ تیر ماہ ۱۳، ۱۳۵۸)
و السلام علی من اتبع الھدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1] ۔ یہاں پر آئیڈیالوجی کا مطلب صرف دین اور مذہب نہیں ہے بلکہ ہر طرح کا عقیدہ  اور امر و نہی ہے کہ جو ادیان، مذاہب، حتیٰ کہ مارکسیزم اور لیبرلیزم جیسے خود ساختہ مکاتب ہیں۔
[2]۔ Drucker, P. F. (1986). Innovation and Entrepreneurship: Practice and Principles. Perfect Bound.
[3]۔ Vernon Wesley Ruttan
[4] ۔ Ruttan, V. W. (2006). Is War Necessary for Economic Growth?; Military Procurement and Technology Development. Oxford University Press.
[5]۔ Partisan Review
[6]۔ Encounter
[7]۔ Der Monat
[8]۔ Tempo Presente
[9]۔ Cuardernos
[10]۔ Quadrant
[11]۔ Quest
[12]۔ Stonor, F. S. (1999). The Cultural Cold War. UK: The New Press.
[13]۔ جاسوسی گھونسلے(ایران میں امریکی سفارت خانے) سے کچھ ایسی اسناد دیکھنے کو ملی ہیں کہ جن سے پتہ ہے کہ امریکہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور  عبوری حکومت تشکیل پانے کے اوائل میں ہی وہ علم اور ٹیکنالوجی سے سیاسی و  آلی و ابزاری استفادہ کرنے کے درپے تھا۔ سند نمبر ۱۸ کی شق نمبر۸ میں ایک قابل توجہ نکتہ دیکھنے کو ملا کہ جو ایران کے مقابلے میں امریکہ کے مؤقف کو صحیحی طور پر بیان کرتا ہے؛ جمہوری اسلامی میں جو بھی حکومت برسرکار آئے گی، اس کا مؤقف مستقل ہے۔”ایران میں جو بھی حکومت قائم ہوگی، خواہ وہ شوروی کی طرف دار ہو یا سرمایہ داری کی، وہ اس طرف مائل ہوگی کہ اسے امریکی ٹیکنالوجی پر دسترسی ہو اور کسی حد تک فوجی و غذائی مدد ملتی رہے۔ جب تک وہ امریکہ کا احترام نہیں کریں گے، یہ جزئی موارد انہیں میسر نہیں آئیں گے۔ اس بنا پر [امام] خمینی کی عبوری حکومت کو اس طرف لائیں کہ ایران کی یہ سیاست ہمیں قابلِ قبول نہیں ہے (نیوسام کے نام سینڈرز کا خط، شہریور ۱۳۵۸، سند نمبر ۱۸، ۱۳۵۸) ایسی ہی سیاست ان کی دوسری اسناد میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو امریکہ کے جاسوسی گھونسلے کے بارے میں شائع ہوئی ہیں، جیسا کہ سند نمبر ۱۸ ہے کہ جو ۱۸ مئی ۱۹۷۹ء کو منتشر ہوئی ہے۔ اس موضوع کا آخری نمونہ امریکی وزارت خزانہ کے ادارے OFAC کی طرف سے ۲۰۰۸ء میں پابندیوں اور ان کے طریقہ کار سے دیکھ سکتے ہیں۔
[14]۔ Hannah Arendt
[15]۔ Arendt, H. (1990). Religion and politics In Arend, H. (1990). In Arendt, H. (1990). Essays in understanding (1930-1954); Formation, exile, and totalitarianism (pp. 368-390). Schocken.
[16]۔ Office of strategic services (OSS)
[17]۔ Anthony Giddens
[18]۔ Wendell Bell
[19]۔ اصول کافی، ج. ۱، ص.۵۰، ح. ۸
[20]۔ صحیفه امام، ج. ۸، ص.۴۳۴۔
خبر کا کوڈ : 890107
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش