QR CodeQR Code

سلام بنتِ علیؑ سلام یا زینبؑ

4 Oct 2020 22:30

اسلام ٹائمز: وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پائیدار روح کے ذریعے تمام ناگوار حوادث کو سر کر جاۓ اور بھڑکتے ہوۓ شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے، ساتھ ہی اپنے زمانے کے امامؑ کو ایک مہربان ماں کیطرح تسلی و تشفی دے اور ان نازک حالات اور طوفانِ حوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور انکی تسلی و تسکین کیلئے ایک محکم دیوار بن جاۓ، وہی شریکۃ الحسینؑ کہلاۓ جانے کا حق رکھتیں ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جنابِ زینب سلام علہیا ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور اسلام عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے۔


تحریر: سویرا بتول

ثانی زہراؑ، شریکۃ الحسینؑ جنابِ زینب کبریٰ سلام علہیا کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت ہے۔ عالم و دانا، صاحبِ معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی کوئی اِن کے سامنے کھڑا ہوتا ہے، ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیمِ خم کر دیتا ہے۔ ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کرسکتی ہے، یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا۔ ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اُس کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ زینب کبریٰ سلام علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینبؑ کو نہ جھکا سکا۔ یزید اور ابن ِ زیاد جیسے ظالم اور ستمگر افراد کی ظاہری حشمت و جلال زینب کو نہ للکار سکے۔ زینبؑ نے ہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ کربلا یا پھر یزید و ابنِ زیاد کا دربار، ہر جگہ زینبؑ ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے۔ یزید اور ابنِ زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے۔

خالقِ کائنات کی حمد و ثناء اور محمدﷺ و آلِ محمدﷺ پر درود بھیجنے کے بعد ثانی زہراء سلام علہیا یوں اہلِ کوفہ سے مخاطب ہوئیں: "افسوس ہے تم پر، اے باشندگانِ کوفہ! کچھ جانتے ہو کہ تم نے رسولِ خداﷺ کے کس جگر کو پارہ پارہ کیا؟ اور اِن کا کونسا خون بہایا اور اِن کی کونسی ہتک حرمت کی؟ اور ان کی کن مستورات کو بے پردہ کیا؟ تم نے ایسے افعال شنعیہ کا ارتکاب کیا ہے کہ آسمان گر پڑیں، زمین شگافتہ ہو جاۓ اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں۔ تم نے قتلِ امامؑ کا جرمِ شنیع کیا ہے، جو پہنائی و وسعت میں آسمان و زمین کے برابر ہے۔ اس مصیبت پر اگر آسمان سے خون برسا ہے تو تم تعجب کیوں کرتے ہو؟ یقیناً آخرت کا عذاب اس سے زیادہ سخت اور رسوا کن ہوگا اور اُس وقت تمہاری کوئی امداد نہ کی جاۓ گی۔ تمہیں جو مہلت ملی ہے، اس سے خوش نہ ہو کیونکہ خداوند عالم بدلہ لینے میں جلدی نہیں کرتا کہ اسے انتقام کے فوت ہونے کا اندیشہ ہرگز نہیں۔ یقیناً تمہارا پرودگار اپنے نافرمان بندوں کی گھات میں ہے۔"

بشیر بن خزیم اسدی کہتا ہے کہ میں نے جنابِ سیدہ زینبؑ بنتِ علیؑ کو اس حالت میں دیکھا کہ بخدا! اِن سے زیادہ باحیاء مستور کو بولتے ہوۓ نہیں دیکھا۔ گویا وہ زبانِ علیؑ ابنِ ابی طالب سے بول رہی ہیں اور جب انہوں نے فرمایا: لوگو! خاموش ہو جاؤ تو لوگوں کے سانس تک رک گئے اور اونٹوں کی گردنوں میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آواز تک بند ہوگئی۔
اے بنتِ علی حاملِ کردار پیمبرﷺ
خطبات ترے حاصلِ افکارِ پیمبرﷺ
طائف کا تسلسل ہے ترا شام میں جانا
تو کارِ رسالت میں ہے ہم کارِ پیمبرﷺ

یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ *"کُلُّ یَوْمٍ عَاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلاء"* تاریخ کی دائمی جنگ میں ہر دن عاشورا اور ہر زمین کربلا ہے، لہٰذا اگر وہ غیر حاضر نہیں ہونا چاہتا اور ہمیشہ رہنا چاہتا ہے تو اسے دو چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا:
خون کا۔۔۔۔۔ یا پیغام رسانی کا
حسینیت۔۔۔۔۔ کا یا زینبیت کا
*امام حسینؑ کی طرح مرنے کا یا حضرت زینبؑ کی طرح زندہ رہنے کا*
 *جو مرگئے، انہوں نے حسینی کردار ادا کیا*
*جو زندہ ہیں، انہیں زینبی کردار ادا کرنا چاہیئے*
*جو نہ حسینی کردار ادا کریں اور نہ زینبی، پس وہ یزیدی ہیں۔۔۔*

کربلا کے واقعہ کو ابدی حیات بخشنے میں کربلا کی خواتین کا بے نظیر کردار رہا ہے۔ کسی تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کا پیغام کربلا کی اسیر خواتین نے عوام تک پہنچایا ہے۔ جنابِ زینب سلام علہیا نے روزہ عاشورا میں ہی نہیں بلکہ امامؑ کی شہادت کے بعد مختلف مقامات میں اپنا کردار ادا کرکے یہ بات ثابت کی ہے کہ کسی بھی تحریک کو مستحکم بنانے میں خواتین کا کرادر نہایت اہم ہے۔ آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ میدانِ عمل میں کارِ زینبی ادا کیا جاۓ۔
حدیثِ عِشق، دو باب اَست، کربلا و دَمِشق
یکے حُسینؑ رقم کرد، دیگرے زینبؑ!

وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پائیدار روح کے ذریعے تمام ناگوار حوادث کو سر کر جاۓ اور بھڑکتے ہوۓ شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے، ساتھ ہی اپنے زمانے کے امامؑ کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے اور ان نازک حالات اور طوفانِ حوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لیے ایک محکم دیوار بن جاۓ، وہی شریکۃ الحسینؑ کہلاۓ جانے کا حق رکھتیں ہیں۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ جنابِ زینب سلام علہیا ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور اسلام عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 890139

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/890139/سلام-بنت-علی-یا-زینب

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org