0
Monday 5 Oct 2020 12:30

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقاصد

اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مقاصد
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

گذشتہ چند ماہ میں متحدہ عرب امارات اور پھر بحرین کی جانب سے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعلانات سامنے آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فریقوں کے مابین سفارتی وفود اور انٹیلی جنس وفود نے آمد و رفت شروع کر دی۔ اس مقالہ میں ہم یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر ایسی کیا وجوہات ہیں کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیا گیا اور اس کے فلسطین کی تحریک آزادی اور خود فلسطینیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ان دو ممالک کے تعلقات سے خطے میں اور بالخصوص پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پہلا سوال یہ کہ آخر امریکہ نے عرب امارات اور بحرین سے کیوں اسرائیل کو تسلیم کروایا؟ امریکہ جو گذشتہ دو برس سے مسئلہ فلسطین کی نسبت سے ایک نام نہاد امن معاہدے کا پرچار کر رہا ہے، جس کو صدی کی ڈیل کہا جا رہا ہے، اس معاہدے کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین کو ختم کر دیا جائے، تاہم اپنے اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی صدر نے پہلے فلسطین کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد امریکی سفارتخانہ کو مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ جگہ اب غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کی ہے، تاہم اس عنوان سے امریکی صدر کے تمام تر اقدامات کو شکست اور ناکامی کا سامنا رہا۔

دوسرے مرحلہ میں امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے اب عرب و خلیج دنیا کے ان ممالک کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے، جو خطے میں خود بھی کسی قسم کی geo political حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ پہلے سوال کے جواب میں یہ بات واضح طور پر سامنے آرہی ہے کہ امریکی صدر نے صدی کی ڈیل کے تحت جو فلسطین کے مسئلہ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی، یہ عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا بھی ان کے نزدیک اسی پلان کا حصہ ہے، تاکہ مسئلہ فلسطین کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ دوسرے سوال کی طرف جانے سے پہلے اب ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا واقعی امریکی صدر اور ان کے اتحادی اس عنوان سے کامیاب ہو پائیں گے یا ہوئے ہیں؟

اگرچہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو کیا اس سے مراد یہ لی جائے گی کہ فلسطین کا مسئلہ ختم ہوگیا ہے؟ اور اب کوئی بھی فلسطین کے بارے میں بات نہیں کرے گا۔ یقیناً ایسا تو ہرگز نہیں ہوا ہے۔ یہاں پر جو بات قابل غور اور فہم ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطین کے عوام کیا کہتے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کیا فلسطینیوں نے بھی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خیر مقدم کیا ہے؟ فلسطینیوں نے ہرگز خیر مقدم نہیں کیا ہے۔ لہذا یہاں پر اہل علم و دانش کے لئے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ جب فلسطین کی تحریک آزادی اور فلسطین کے عوام موجود ہیں، اس وقت تک عرب امارات اور بحرین تو کیا پوری دنیا بھی اسرائیل کی جعلی ریاست اور ناجائز وجود کو تسلیم کر لے تو کچھ نہیں ہونے والا۔ کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسی طرح ایک اٹل حقیقت یہ بھی موجود ہے کہ اسرائیل غاصب صہیونیوں کی ایک جعلی ریاست اور اس کا وجود ناجائز ہے۔

دوسرا سوال بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگرچہ فلسطین کی تحریک ان عرب ممالک کی جانب سے اس طرح کی خیانت کاری کے باعث کمزور نہیں ہوئی ہے، لیکن دوسری طرف سیاسی عنوان سے خطے کی سکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب امارات تک اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کی آمد و رفت نہ صرف عرب امارات کو نقصان پہنچائے گی بلکہ خطے کی دیگر ریاستیں بھی متاثر ہوں گی۔ ان ریاستوں میں جہاں ایران شامل ہوگا، وہاں ساتھ ساتھ پاکستان بھی صہیونی سازشوں کے نشانہ پر ہوگا۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کہ جہاں آئے روز مذہب کے نام پر شدت پسندانہ ماحول پیدا ہو رہا ہے، ان سب عوام کا محرک بھی کسی نہ کسی طور سے اسرائیل اور امریکہ ہی ہیں۔ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی ایک جماعت اس بات سے بھی متفق ہے کہ جب ان عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ان کے لئے دفن ہوچکا ہے، کیونکہ جب یہ عرب ممالک فلسطین سے متعلق اپنا ضمیر فروخت کرچکے ہیں تو اب حکومت پاکستان کو ان سے مسئلہ کشمیر پر بھی کسی قسم کی حمایت یا مدد کی توقع نہیں رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ جس دورانیہ میں عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کیا ہے، اسی دوران پاکستان کی کچھ مذہبی قیادتوں کو ایک سو ملین ڈالرز کی فنڈنگ بذریعہ عرب امارات اور دیگر عرب ملک سے ہوئی ہے، جس کے بعد ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف احتجاج کا خدشہ عروج پر تھا، عین اسی وقت پاکستان کے مفتیان اعظم کی سربراہی میں فرقہ وارانہ ریلیاں نکالی جا رہی تھیں، جن کے باعث نہ صرف پاکستان میں امن و بھائی چارے کو نقصان پہنچا ہے بلکہ پاکستان کی معیشت کو شدید دھچکا بھی پہنچا ہے، جس کا اظہار مختلف اخبارات میں سامنے آیا ہے۔ چند سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ عرب اسرائیل تعلقات کی آڑ میں امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان نے مشترکہ طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو تیز کیا ہے اور ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملک میں پہلے سے موجود ان کے مقامی ایجنٹوں کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہی وہ دوسرے سوال کا جواب ہے، جو مقالہ کے آغاز میں پیش کیا گیا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل تعلقات سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی و حواری یہ چاہتے تھے کہ فلسطین کا مسئلہ ختم کر دیا جائے، فلسطینیوں کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ غاصب اور ناجائز اسرائیل کے سامنے کھڑے نہ ہوسکیں، لیکن دشمن و شیاطین کی تمام سازشیں اور مکارانہ چالیں اب ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ فلسطینی آج بھی ان عرب ممالک اور اسرائیل تعلقات کے بعد مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور دنیا کو یہی پیغام دے رہے ہیں کہ اگر پوری دنیا بھی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کر لے تو اسرائیل کا وجود جائز نہیں ہوسکتا۔ فلسطین اور فلسطینی عوام اپنی جگہ قائم رہیں گے اور جب تک فلسطین کے اندر فلسطینیوں کی آواز باقی ہے تو نہ ہی امریکی صدر کا نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل اور نہ ہی عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات فلسطین کو ختم کرسکتے ہیں، یہ وعدہ الہیٰ ہے کہ فلسطین آزاد اور اسرائیل کا ناجائز وجود نابود ہو کر رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 890221
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش