0
Tuesday 6 Oct 2020 11:08

بھارت میں جنسی زیادتیاں عروج پر

بھارت میں جنسی زیادتیاں عروج پر
رپورٹ: جے اے رضوی

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے محض 160 کلومیٹر دور ریاست اترپردیش کے ہاتھرس ضلع کے اجتماعی آبروریزی کا واقعہ، متاثرہ کی موت اور اس معاملے میں ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ کی سنگ دلی ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث ہیں۔ ان واقعات نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور عوام ملک کے کونے کونے میں سراپا احتجاج ہیں۔ اس ظلم کے خلاف بالکل اسی انداز میں عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں جیسے کہ نربھیا واقعہ کے وقت نکل آئے تھے۔ عوامی احتجاج نے سماج میں ایک زلزلہ برپا کر دیا ہے لیکن بی جے پی حکومت کا ضمیر بیدار ہونے کا نام نہیں لیتا۔ اترپردیش کی یوگی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے متاثرہ خاندان کو ہی اپنے جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اگرچہ چند پولیس افسروں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے لیکن متاثرہ خاندان کو ابھی تک انصاف نہیں مل سکا ہے۔ اس درندگی کے ذمہ دار چار افراد اگرچہ گرفتار کر لئے گئے ہیں لیکن اونچی ذات کے لوگ انہیں بچانے کی بھی کوشش کر رہے ہیں اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ ان کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

19 سال کی دلت لڑکی کو 14 ستمبر کو وحشیوں نے اس وقت اپنی ہوس کا شکار بنایا تھا، جب وہ گائے کے لئے قریب کے کھیت میں گھاس کاٹنے گئی تھی۔ اس کو جنسی ہوس پرستی کا شکار بنانے کے ساتھ ساتھ اس طرح جسمانی اذیت بھی دی گئی کہ اس کی زبان کٹ گئی، ریڑھ کی ہڈی میں فریکچر ہوگیا اور گردن پر گلا گھونٹنے کے نشان پڑ گئے۔ وہ بے ہوش ہوگئی، 23 ستمبر کو اس کو ہوش آیا اور اس نے شیطان صفت درندوں کے نام بتائے۔ اس کا پورا جسم مفلوج ہوگیا تھا۔ اسے وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ جب اس کی حالت بہت خراب ہوگئی تو اسے دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں داخل کیا گیا، جہاں 29 ستمبر کو اس نے آخری سانس لی۔ اس دوران ریاست اترپردیش کی بی جے پی حکومت اور پولیس کی جانب سے مجرموں کو بچانے اور اصلیت کو چھپانے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ اس کے اہل خانہ نے جب پولیس تھانے میں رپورٹ لکھانے کی کوشش کی تو ملزموں پر اجتماعی آبروریزی کے بجائے مار پیٹ کے الزامات عائد کئے گئے۔

بتایا جاتا ہے کہ ملزموں کا تعلق ہندوؤں کی اونچی برادری سے ہے اور لوگوں کا الزام ہے کہ شاید یہی وجہ ہے کہ اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ جو کہ خود اونچی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کارروائی نہیں کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کا دلدوز پہلو یہ ہے کہ جب 29 ستمبر کی شب میں متاثرہ کی موت ہوگئی اور اس کے اہل خانہ اور دوسرے لوگوں نے صفدر جنگ اسپتال کے باہر دھرنا دے دیا تو پولیس چوری چھپے اس کی لاش لے کر ضلع ہاتھرس چلی گئی اور صبح کے تین بجے اس کی آخری رسوم ادا کر دی گئیں۔ راتوں رات اس کے اہلِ خانہ کی عدم موجودگی میں لاش کو نذرِ آتش بھی کر دیا جبکہ والمیکی سماج کی یہ بھی روایت ہے کہ ان کے یہاں غیر شادی شدہ لڑکی کو جلایا نہیں بلکہ دفنایا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے پولیس سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ عام ہندو رسم و رواج کے مطابق غروب آفتاب سے لے کر طلوع آفتاب کے درمیان آخری رسوم ادا نہیں کی جا سکتیں لیکن پولیس نے ایک نہیں سنی۔

اس کے بعد جب میڈیا متاثرہ کے گاؤں جانے لگا تو اسے روکا گیا۔ صرف میڈیا کو ہی نہیں بلکہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی اور ان کی بہن اور اترپردیش کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو بھی روکا گیا۔ اس موقع پر پولیس نے طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا۔ یہاں تک کہ پولیس کے ساتھ الجھاؤ میں راہل گاندھی زمین پر گر گئے۔ ایک مرد پولیس آفسر نے پرینکا گاندھی کا گریباں بھی پکڑ لیا، جب حکومت اور پولیس کی اس کارروائی پر پورے ملک میں تنقید ہونے لگی تب دو روز کے بعد انہیں ہاتھرس جانے کی اجازت دی گئی۔ راہل اور پرینکا گاندھی نے اس گاؤں میں پہنچ کر متاثرہ کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اب بی جے پی جو کہ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا کھوکھلا نعرہ لگاتی ہے، اس معاملے میں بری طرح بے نقاب ہوگئی ہے۔ نریندر مودی خاموش ہیں، ان کے کابینی ساتھی خاموش ہیں۔ بی جے پی لیڈران چپ ہیں۔ اس سلسلے میں محدود تفصیلات آزاد میڈیا میں آچکی ہیں۔

اترپردیش میں صرف ضلع ہاتھرس ہی نہیں بلکہ بلرام پور، بلند شہر، میرٹھ، اعظم گڑھ اور کہاں کہاں نوجوان لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم نہیں ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈران اور وزیراعلٰی دعوے تو کرتے ہیں کہ وہ بھارت بھر میں رام کی حکومت لا رہے ہیں، لیکن کیا یہی رام کی حکومت ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی عزت اور ان کی جان محفوظ نہ رہے۔ کہیں کسی لڑکی کا سر پتھر سے کچل کر اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے اور کہیں اس کی عزت لوٹ کر اسے مار دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سیاستداں بے شرمی کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جرائم کو برداشت نہیں کریں گے اور کسی کو بخشا نہیں جائے گا، جبکہ اسی ہاتھرس کے واقعہ میں ملزموں کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیس ان کے اہل خانہ سے وعدے کر رہی ہے کہ ان کے بچوں کو کچھ نہیں ہونے دیا جائے گا۔

چند روز قبل نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے خواتین کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار جاری کئے، جس کے مطابق بھارت میں ہر پندرہ منٹ پر آبروریزی کا ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ 2014ء سے لے کر اب تک شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائب کے خلاف جرائم میں علی الترتیب 13.9 اور 14.8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور بیشتر جرائم عصمت ریزی اور جنسی تشدد کی شکل میں پیش آئے ہیں۔ 2018ء میں ہر پندرہ منٹ پر ایک خاتون کی عزت لوٹ لی گئی۔ اس ایک سال میں ریپ کے 33977 واقعات پیش آئے۔ کٹھوعہ کی آٹھ سالہ بچی کی اجتماعی عصمت دری اور اس کے قتل اور مندسور کی ایک آٹھ سالہ بچی کی اجتماعی عصمت دری اور درندوں کے ذریعے اس کا گلا کاٹ دینے کے واقعات اس میں شامل ہیں۔ نئی دہلی میں جب 2012ء میں نربھیا واقعہ پیش آیا تھا تو اس سال عصمت دری کے 24923 واقعات ہوئے تھے، جبکہ بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار دیکھ کر ہی ہندوستان کو ریپستان کا نام دیا جانے لگا ہے۔ اس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ جنسی زیادتی کے جرائم میں زیادہ تر وہی لوگ ملوث پائے جا رہے ہیں، جن کو حکومت کی شہ یا سیاسی سرپرستی حاصل ہے۔

خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم سونالی شکل ویدیہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت میں آبروریزی کو خواتین کے لئے شرم کا موضوع سمجھا جاتا ہے اور اس کا شکار خاتون کی پیشانی پر ایک مستقل کلنک لگ جاتا ہے۔ مجرم اسی ذہنی اور سماجی سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کئی معاملات میں ریپ کا ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دے کر بھی متاثرہ خواتین کا منہ بند رکھا جاتا ہے۔ کرائم سائیکالوجی کے ماہر پروفیسر کے کے برہم چاری کا کہنا تھا کہ بھارت میں ریپ غیر ضمانتی جرم ہے، لیکن ایسے مجرموں کو سیاست دانوں اور پولیس کا تحفظ بھی حاصل ہوتا ہے اور عام طور پر ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے مجرم بہت آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج بھی ایسے جرائم کے بعد انگلی متاثرہ خاتون کی طرف ہی اٹھتی ہے، جس سے مجرموں کا حوصلہ بڑھتا ہے۔ تھامسن روئٹرز فاونڈیشن نے 2018ء میں اپنے ایک سروے میں بھارت کو دنیا بھر میں خواتین کے لئے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2019ء میں بھارت میں یومیہ اوسطاً 88 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ اس میں گیارہ فیصد خواتین انتہائی پسماندہ یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ چونکہ دیہی علاقوں میں ایسے بیشتر جرائم کو پولیس تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا ہے، اس لئے حقیقی صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور تشویشناک ہے۔
خبر کا کوڈ : 890285
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش