0
Wednesday 7 Oct 2020 14:31

شور تھمے گا تب ہی کراچی کا مقدر جاگے گا

شور تھمے گا تب ہی کراچی کا مقدر جاگے گا
رپورٹ: ایم رضا

کورونا وائرس کے عفریت سے ایک عالمگیر حقیقت واضح ہوچکی کہ یہ اکیسویں صدی کا سب سے ضدی اور ہولناک وائرس ہے، جس نے دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیئے، پاکستان کی معیشت تو اس نے ایسے اچھال کر رکھ دی کہ آج تک ملکی اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تجارتی و کاروباری حالات حکومت کے قابو میں نہیں آرہے۔ کورونا سے پہلے بلاشبہ حکومت سماجی و اقتصادی صورتحال کو سنبھالنے کی کثیر جہتی کوششیں کرتی رہی۔ سیاسی و سماجی جدلیات اور ڈائنامکس کے تقاضوں اور دباؤ سے نکلنا آسان نہ تھا، اپوزیشن اور حکومت کے مابین کورونا لاک ڈاؤن کی حکمت عملی بھی غضبناک بھینسوں کی لڑائی میں بدل گئی تھی، کاروباری طبقہ کورونا سے پریشان تھا، صنعتی، تجارتی سرگرمیاں ٹھپ پڑی تھیں، کارپوریٹ ادارے اور کثیر القومی کمپنیاں اپنے ٹارگٹس مکمل کرنے میں مصروف رہیں، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، روزگار اور مہنگائی کی سنگینی نے سیاسی بریک تھرو کا کوئی مربوط موقع نہیں دیا۔

دیہاڑی دار مزدور سے لے کر ملازمت پیشہ لوگ کورونا کی شدت کے سامنے لاچار ہوگئے تھے، سرکاری اسپتالوں کی حالت پتلی تھی، علاج کی سہولت سے محروم ہزاروں خاندان کورونا سے پہلے معاشی اعتبار سے کسی غیبی امداد کے منتظر تھے کہ کراچی کو مون سون کی موسمیاتی بارشوں نے پچھاڑ دیا، ایسی بارش لوگوں نے دیکھی جو ایک سو سال کا ریکارڈ توڑ گئی، شہر قائد کا پورا انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوا، شہر کورونا کے دوران کچرے اور غلاظت کے بلدیاتی مسائل سے نبرد آزما تھا۔ وہ سالڈ ویسٹ کے چیلنجز سے نمٹنے میں مصروف تھا کہ یکے بعد دوسرے اور تیسرے اسپیلز سے شہر کے نکاسی و فراہمی آب کے سسٹم کی سانس اکھڑ گئی، سارا شہر ڈوب گیا، محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ شہر میں خلاف معمول ہولناک بارشوں کا خطرہ ہے، پھر ایسا بھی ہوا کہ کراچی کے بڑے پوش علاقے کے شاندار بنگلے بھی زیرآب آگئے، کئی دن تک پانی گھروں میں موجود رہا، پہلی بار غریب آبادیوں نے دیکھا کہ ارب پتی گھرانے گھروں کو ڈوبتا دیکھ کر احتجاجی مظاہرے پر مجبور ہوئے۔

ان مائل بہ احتجاج مکینوں کے خلاف پولیس نے پرچے بھی کاٹے، لیکن یہ افتاد صرف کراچی کے حصے میں نہیں آئی بلکہ مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں نے لاہور، کراچی، پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے دیگر شہری و دیہی علاقوں اور دیگر شہروں کو بھی نہیں بخشا۔ اربن ماہرین نے اس ساری صورتحال کو کورونا سے بالاتر ہوکر دیکھنے کی کوشش کی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی جو ملک کا کثیر جہتی معاشی حب اور اقتصادی شہ رگ ہے، اسے نکاسی آب کا کوئی قابل اعتبار، مستحکم میکنزم بھی نصیب نہیں ہوا۔ کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، کاروبار کے حوالے سے یہ ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور معاشی انجن ہے، گذشتہ دنوں بورڈ آف ریونیو کی ریکوری کے اعتبار سے حکومت کو شہر کی مارکیٹوں سے اربوں روپے کے محصولات ملے، اگر بجلی کا شفاف نظام متعارف ہو، کنڈا سسٹم کا خاتمہ ہو، تو یہی رقم دگنی ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف گیس کی قلت نے بھی شہر قائد کے صارفین کو مشکلات میں ڈال دیا ہے، اپر گزری کے بعض تجارتی و رہائشی آبادیوں میں گیس کی فراہمی غیر اعلانیہ بند ہے۔

جہاں تک پبلک ٹرانسپورٹ کا تعلق ہے تو کراچی، لاہور، پنڈی، بلوچستان اور پنجاب سے بھی پیچھے ہے، سندھ حکومت بی آر ٹی کی بسوں میں آگ لگنے کی شکایت کے مزے تو لیتی ہے، لیکن شہر قائد میں نئی بسیں سڑکوں پر لانے کے لئے اپنے وعدے وفا کرنے کو تیار نہیں، کراچی کو ریپڈ ڈبل ڈیکر اور کوچز کی ضرورت ہے، تین کروڑ آبادی کے اس میٹروپولیٹن سٹی کو بابا آدم کے زمانے کی بسوں اور منی بسوں کی سوغات ملی تھی، سو اسی پر گزارا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم کورونا کی دوسری لہر سے محتاط ہونے کے لئے جس دل سوزی کے ساتھ اپیل کر رہے ہیں، وہ کراچی شہر کے انفرااسٹرکچر کے لئے گیارہ سو ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کے اعلان کو بھی شرمندہ تعبیر بنائیں، انہیں کراچی کے لئے ماسٹر پلانز کی مانیٹرنگ اور ٹاسک فورسز اور فعال کمیٹیوں کے جلد روبہ عمل لائے جانے کو یقینی بنانے کا عہد کرنا چاہیئے، سیاسی اور سماجی ماحول مائع حالت میں ہے، اس کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے، کراچی کو منظم و مربوط سسٹم کی ایک شفاف بنیاد درکار ہے۔ ماہرین کے مطابق شور تھمے گا، تب ہی کراچی کا مقدر جاگے گا۔
خبر کا کوڈ : 890517
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش