0
Wednesday 7 Oct 2020 10:52

امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ

امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ
اداریہ
شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ سعودی عرب نے دو ہزار چودہ سے قطر، امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر شام میں دہشتگردوں کی حمایت کی ہے، جس کے باعث دمشق کو جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور اس جارحیت کی وجہ سے شام کے بہت سے علاقوں پر قبضہ بھی ہوگیا تھا۔ شام کے صدر کا بیان ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ قطر اور سعودیہ کے علاوہ ترکی اور سعودیہ میں بھی تعلقات انتہائی کشیدہ ہوچکے ہیں اور لیبیا جیسے ممالک میں تو وہ ایک دوسرے کے مقابل آچکے ہیں۔ ترکی اور سعودی تعلقات کی کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترک صدر نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھی سعودی عرب کو خوب رگیدا ہے۔

اس دوران عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوغان کی اقوام متحدہ میں آل سعود مخالف تقریر اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر عرب ممالک پر کڑی نکتہ چینی کرنے اور مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لینے پر سعودی عرب نے ردعمل دکھاتے ہوئے تُرک مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی چیمبر آف کامرس کے سربراہ عجلان العجلان نے اپنی ٹوئٹ میں کھل کر لکھا ہے کہ ملک اور شہریوں کے خلاف ترک حکومت کے جارحانہ اور معاندانہ بیانات کے جواب میں درآمد کردہ ترک اشیاء، نیز سرمایہ کاری یا سیاحت وغیرہ کے حوالے سے ہر سطح پر سعودی صارفین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترکی کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

آل سعود اور رجب طیب دونوں امت مسلمہ اور خطے کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں جبکہ دونوں ہر طرف ہاتھ پاوں بھی مار رہے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ امت مسلمہ کس کے بارے مثبت رویہ اپناتی ہے۔ ترکی نے برسوں سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کر رکھے ہیں جبکہ بن سلمان کا سعودی عرب بھی صیہونی گود میں بس پہنچنے ہی والا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل کا حامی امت مسلمہ کی قیادت کا دعویٰ یا کوشش کرسکتا ہے۔؟ 
خبر کا کوڈ : 890590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش