QR CodeQR Code

مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ پر قدغن جاری

15 Oct 2020 19:37

اسلام ٹائمز: پہلے ہی مفصل تحقیقی رپورٹوں سے واضح کیا جا چکا ہے کہ 5 اگست 2019ء سے انٹرنیٹ کی سُست رفتاری کیوجہ سے جموں و کشمیر کی معیشت ہی نہیں بلکہ تعلیمی شعبہ کو بے پناہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑا، ایسے میں ارباب حکومت بست و گشاد کو اُن تحقیقی رپورٹوں کو خاطر میں لاتے ہوئے آزمائشی بنیادوں پر 4G انٹرنیٹ کی بحالی کا چکر ختم کرکے پورے جموں و کشمیر میں برق رفتار انٹرنیٹ بحال کرنا چاہیئے۔


تحریر: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ کی مکمل بحالی ہنوز ایک خواب بنا ہوا ہے۔ گویا کہ گاندربل اور ادہم پور اضلاع میں 4G موبائل انٹرنیٹ سروس بحال کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، تاہم ان دو اضلاع کے لوگوں کی بھی شکایت ہے کہ کہنے کو تو 4G انٹرنیٹ چل رہا ہے لیکن اس کی رفتار قطعی 4G نہیں ہے بلکہ یہ 2G سے ذرا بہتر ہے۔ باقی اضلاع میں مسلسل 2G انٹرنیٹ سروس ہی چل رہی ہے اور ایک کے بعد ایک حکم نامہ جاری کرکے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فی الحال اس یونین ٹریٹری میں موبائل انٹرنیٹ کی مکمل بحالی حکومت کے زیر غور نہیں ہے اور تو اور اب تو بھارتی حکومت نے سست رفتار موبائل انٹرنیٹ کو لائق کار قرار دیا ہے، کیونکہ گذشتہ دنوں بھارتی پارلیمنٹ میں وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا کہ 2G انٹرنیٹ کے سہارے جموں و کشمیر کا آن لائن تعلیمی نظام بخوبی چل رہا ہے اور 4G انٹرنیٹ کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔

انٹرنیٹ رفتار پر قدغن کے سلسلہ میں حکومت کی جانب سے اکثر و بیشتر ایسے جواز پیش کئے جا رہے ہیں، جو غیر منطقی لگتے ہیں۔ بھارتی حکومت کا کہنا کہ تیز رفتار انٹرنیٹ اس وجہ سے بحال نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ لائن آف کنٹرول سے عسکریت پسندوں کی دراندازی میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کی جانب سے ملک دشمن سرگرمیوں کے لئے اس کا استعمال ہوسکتا ہے، بالکل بے تُکا سا بیان لگتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چند مٹھی بھر لوگوں کے لئے آپ سوا کروڑ آبادی کو کیسے یرغمال رکھ سکتے ہیں۔ مانا کہ کچھ لوگ انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرسکتے ہیں، لیکن وہ محدود رفتار کے ساتھ بھی ویسا کرسکتے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ محض اندیشوں کی بنیاد پر کروڑوں لوگوں کو جدید دور کی اس بنیادی ضرورت سے محروم رکھیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بھی کشمیر انٹرنیٹ بندش کیس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت سے کہا تھا کہ غیر معینہ مدت کے لئے انٹرنیٹ پر پابندی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور یہ ضوابط کے منافی ہی نہیں بلکہ دورِ جدید میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کے مترادف بھی ہے۔ گویا کہ حکومت نے تب کہا تھا کہ انٹرنیٹ بحال کیا جا رہا ہے لیکن اب جس طرح محض دو اضلاع میں آزمائشی بنیادوں پر انٹرنیٹ کی بحالی کے ساتھ ہی اس کیس کو نمٹایا گیا، وہ حیرت میں ڈالنے والا تھا۔ ظاہر ہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ میں انٹرنیٹ کی مکمل بحالی کے حوالے سے کوئی ٹھوس بیان نہیں دیا تھا تو ایسے میں کیس کو ہی داخل دفتر کرنے کرنا عجیب سا لگتا ہے۔ بہرحال عدالتی منطق کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے اور یقینی طور پر حکومتی دلائل سے اتفاق کرکے ہی عدلیہ نے کیس نمٹایا ہوگا لیکن حکومت کو عدلیہ کے سابق احکامات کی روشنی میں اب پورے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ کی مکمل بحالی میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیئے۔

پہلے ہی مفصل تحقیقی رپورٹوں سے واضح کیا جا چکا ہے کہ 5 اگست 2019ء سے انٹرنیٹ کی سُست رفتاری کی وجہ سے جموں و کشمیر کی معیشت ہی نہیں بلکہ تعلیمی شعبہ کو بے پناہ نقصانات سے دوچار ہونا پڑا، ایسے میں ارباب حکومت بست و گشاد کو اُن تحقیقی رپورٹوں کو خاطر میں لاتے ہوئے آزمائشی بنیادوں پر 4G انٹرنیٹ کی بحالی کا چکر ختم کرکے پورے جموں و کشمیر میں برق رفتار انٹرنیٹ بحال کرنا چاہیئے۔ بلاشبہ سکیورٹی معاملات پر حکام ہی بہتر فیصلہ لے سکتے ہیں، کیونکہ ان کی معاملات پر عقابی نگاہ ہوتی ہے، تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ سکیورٹی خدشات کی آڑ لیکر لوگوں کو اس بنیادی سہولت سے مسلسل محروم کرتے رہیں گے۔ ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ بنیادی ضرورت بن چکا ہے اور آپ کشمیری عوام کو اس ضرورت سے کب تک یونہی محروم رکھیں گے۔

انٹرنیٹ کے بغیر وادی کشمیر کی ترقی و پیشرفت کیسے ممکن ہے۔ آج کورونا وائرس عروج پر ہے، تجارت کی چال بے ڈھنگی سی ہے، درس و تدریس کا نظام مفلوج ہے، ای کامرس ٹھپ ہے، کیونکہ انٹرنیٹ نہیں ہے۔ محدود رفتار کے انٹرنیٹ سے ہونے والے نقصانات کا اگر شمار کرنے بیٹھیں تو فہرست بہت طویل ہو جائے گی اور اس سہولت کو محدود کرنے کے عذرات محدود ہی ہوں گے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے ہو رہے نقصانات کو ملحوظ خاطر رکھ کر بھارتی حکام اپنے فیصلوں پر نظرثانی کریں۔ ادہم پور اور گاندربل اضلاع میں یہ آزمائشی سلسلہ ختم کرکے انٹرنیٹ سروس کو مستقل بنیادوں پر چلانے کے علاوہ جموں و کشمیر کے دیگر اضلاع میں بھی اس سروس کو بحال کیا جائے، کیونکہ ٹیکنالوجی کے دور میں آپ سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کو دیگر ذرائع سے بھی ایڈرس کرسکتے ہیں۔

اس ضمن میں نئے لیفٹیننٹ گورنر سے کچھ مثبت فیصلہ کی امید کی جاسکتی ہے، کیونکہ تاحال اُن کی اپروچ قدرے مثبت ہی رہی ہے اور اُن کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ اُنہیں عوامی معاملات کا ادراک ہے اور وہ وسیع سیاسی تجربہ رکھتے ہوئے لوگوں کے مسائل سے بالکل غافل نہیں ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے بھی وہ مثبت اپروچ اپنائے ہوئے ہیں، جس کا ثبوت انہوں نے گذشتہ روز پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کی رہائی سے دے چکے ہیں۔ اس کے علاوہ گذشتہ چند روز کے دوران ان کے بیانات سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ وہ عوامی بہتری کے فیصلوں میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیں گے۔ چونکہ انٹرنیٹ سروس کا معاملہ کورونا وباء کی وجہ سے بند پڑے تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہوئے ہمارے مستقبل کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ہے، تو امید راسخ ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر ترجیحی بنیادوں پر آزمائشی بنیادوں پر انٹرنیٹ کی مکمل بحالی کا ورد کرنا بند کریں گے اور جموں و کشمیر کے عوام کو 4G انٹرنیٹ سروس فراہم کروائیں گے، جس سے وہ اب گذشتہ ایک برس سے زیادہ عرصہ سے محروم ہیں۔


خبر کا کوڈ: 890634

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/890634/مقبوضہ-کشمیر-میں-انٹرنیٹ-پر-قدغن-جاری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org