QR CodeQR Code

یہ اتحاد کا مرکز ہے آدمی کیلئے

8 Oct 2020 06:32

اسلام ٹائمز: یہ امام حسین علیہ السلام کے در کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں جو ہاتھ جوڑ کر آتا ہے، وہ حر بن کر جاتا ہے اور یہیں سے راہب کی مرادیں بھی پوری ہوئی ہیں۔ حسین علیہ السلام کسی ایک قوم کی جاگیر نہیں بلکہ ہر حریت پسند اور زندہ دل کے راہنماء ہیں۔ اربعین کی مقبولیت کے باعث ایران عراق کے روابط میں مزید استحکام کو ملاحظہ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی "الحسین یوحدنا" اور "حب الحسین یجمعنا" جیسے حسینی نقوش بھی سرعت رفتار سے عالمی پیمانے پر لوگوں کو متحد کرنے لگے ہیں۔ اربعین کی بڑھتی مقبولیت نے دشمن پر کاری ضرب لگائی ہے، جسکے باعث وہ تیزی سے زوال کیجانب بڑھ رہا ہے اور یوں سکوں کی جھنک کے پیچھے کا گھناؤنا چہرہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔


تحریر: عظمت علی
(قم المقدسہ، ایران)
rascov205@gmail.com

آج ذکر کربلا ہر گزرتے دن کے ساتھ اقوام عالم کے دل میں گھر کرتا جا رہا ہے۔ کل جو "غریب کربلا" عالم تنہائی میں "ھل من ناصر ینصرنا" کی صدا بلند کر رہا تھا، آج اسی کی صدائے استغاثہ پر لبیک کہتے ہوئے کروڑوں عشاق حسین، جناب حر علیہ السلام کی صورت خیام حسینی کی جانب رواں دواں ہیں۔ مشرق و مغرب سے میلوں دور کی مسافت طے کرکے ہر آنے والا عزادار آقا حسینؑ کے در کی زیارت کو اپنا مقدر سمجھتا ہے اور ایک آہ سرد بھر کر کہہ اٹھتا ہے: کاش…! ہم کربلا میں ہوتے…!؟ اربعین حسینی پر تشریف لے جانے والے عاشق حسین علیہ السلالم کا وطیرہ ہے کہ پہلے شہنشاہ نجف کے در پر حاضری دیتا ہے۔ امیر کائنات سے اجازت طلب کرتا ہے اور غریب نینوا کی زیارت کو روانہ ہوجاتا ہے۔ "مرکز علم" سے "جنت اللہ فی الارض" تک کا عشاق اہل بیت علیہم السلام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہر لمحہ ذکر الٰہی میں غرق ہوتا ہے۔ کوئی تلاوت قرآن میں مشغول ہے تو کوئی فضائل و مصائب اہل بیت علیہم السلام کے ذکر میں۔ یہ انسانیت کا واحد مرکز ہے، جہاں واضح طور پر عقائد و مذاہب کا بے نظیر سنگم نظر آتا ہے۔ اس طویل مسافت میں ہزاروں کی تعداد میں موکب (عارضی رہائش گاہ) کا بندوبست کیا جاتا ہے، جہاں زائرین کے قیام و طعام اور ان کی ضرورت کا ہر سامان مہیا ہوتا ہے۔ موصولہ معلومات کی بنیاد پر 2014ء میں صرف کربلا میں، عراقی موکب کے علاوہ سات ہزار مواکب کا اہتمام کیا گیا تھا۔

عام مشاہدات نے صرف نجف تا کربلا کے مواکب کو ہی پیش نگاہ رکھا ہوا ہے اور مشہور بھی یہی ہے جبکہ حقیقت میں اس کے علاوہ ایسے دور افتادہ علاقوں میں بھی عارضی خیام کا انتظام میسر ہوتا، جہاں عام تصورات کی رسائی بھی نہیں۔ حقیر کو چند ایک دفعہ اربعین حسینی پر زیارت کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔ ایران سے عراق کے درمیان کئی ایسے علاقے بھی ملے، جہاں چاروں سمت ہوکا عالم تھا۔ کوئی بستی نہیں لیکن وہاں بھی خادم امام کی موجودگی مشاہدہ میں آئی ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ یہاں سے زائر امام کا کارواں گزرنے کو ہے۔ امام کے زائر کی خدمت کا یہ جذبہ تقریباً ملک عراق کے گوشہ و نواحی تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر لکھا یہ فقرہ "خدمۃ زوار الحسین شرف لنا" اس بات کا بین ثبوت ہے۔

اس طولانی مسافت میں چند مواکب کے فاصلے سے دوا کیمپ اور دیگر سہولیات کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ پورے سفر میں ایسے دل سوز مناظر دیکھنے کو ملے کہ آنکھوں سے بے ساختہ آنسو نکل پڑے ہیں۔ صاحب عمامہ علماء کرام، زائرین کے پاؤں چومتے نظر آئے ہیں۔ ان کے پاؤں سے لپٹی گرد کو آنکھوں کے سرمہ کی جگہ دیتے ہیں۔ ننھے ننھے بچے جو ابھی مستقل طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکتے، چلتے گرتے بظاہر نحیف مگر قوتی ایمانی سے بھرپور آواز سے "ھلا بیکم یا زوار" (اے زائرین حسین! خوش آمدید!) کی صدا لگاتے ہیں۔ ہر مختصر مسافت کے فاصلے پر بچوں کی مختلف جماعتیں "لبیک یاحسین" کا نعرہ لگا کر خود کو جناب علی اصغر علیہ السلام کی صف میں شامل کرتے ہیں۔ ان کی معصومانہ خدمت دیکھتے ہی آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں اور ضبط کے باوجود آنسو بہہ نکلتے ہیں۔

درمیان راہ مختلف مقامات پر شہدائے ملت عراق کی تصاویر، ائمہ معصومین علیہم السلام اور مراجع عظام کے ارشادات نہایت عمدگی سے نصب ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے، شیعہ کے متحرک قوم ہونے اور تعمیری فکر رکھنے کی جانب۔ ان راہوں میں مختلف مقامات پر مہمان نوازوں کا ایک دستہ زائرین کا پرتپاک استقبال کرتا ہے اور مکمل اہتمام کے ساتھ اپنا مہمان بناتا ہے۔ عرب مہمان نواز ہوتے ہی ہیں، لیکن ان مواقع پر ان کی ضیافت میں چنداں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، وہ امام حسین علیہ السلام کی بدولت ہے، لہٰذا سال بھر کی کمائی تک کو خرچ کرنے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے۔ کربلا پہنچتے ہی جونہی گنبد حرم نظر آتا ہے، آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب امڈ پڑتا ہے اور پورے سفر کی تھکن لمحے بھر میں ختم ہو جاتی ہے اور پورے وجود سے بس یہی صدا آتی ہے "السلام علیک یا ابا عبد اللہ الحسین" اے حسین! ہمارا سلام قبول کیجیے!

تاریخ بتاتی ہے کہ جابر بن عبداللہ کو سب سے پہلا زائر ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نابینا تھے۔ اس لئے اپنے غلام کے ہمراہ گئے۔ تاریخ چونکہ مخالف حاکموں سے عبارت ہے، اس لئے ان ادوار میں زیارت کرنے والوں پر سخت پابندی عائد کر دی گئی تھیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں قلم کر دیئے جاتے، ظالم حکمرانوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ متوکل نے تو از حد گھناؤنی جسارت کرکے آپ کی قبر مطہر کو سطح ارض سے ملا کر اس پر ہل چلوا دیئے۔ ان سخت ترین مصائب میں بھی عشق حسینی کا جذبہ سرد نہیں پڑا، چونکہ آپ کی شہادت سے لوگوں کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہوگئی تھی، جو کبھی سرد نہیں پڑنے والی تھی اور مومنین کو بے تاب رکھتی ہے۔ جب آپ کی قبر کو سطح زمین سے ملا دیا گیا تو زائرین کربلا مٹی کی خوشبو سے قبر کا پتہ لگا لیتے اور یوں زیارت سے شرف باریاب ہوتے۔

زیارت کا سلسلہ تو کبھی منقطع نہیں ہوا۔ ہاں! وقتی طور پر وقفہ ضرور ہو چلا تھا۔ تاریخی معلومات کی بنیاد پر شیخ انصاری کے دور حیات میں بھی پیادہ روی (مشی) موجود تھی اور کچھ وقفہ کے لئے زمانہ کی ستم ظریفی حائل ہوگئی تھی، لیکن شیخ میرزا حسین نوری طبرسی نے دوبارہ اس میں روح ڈال دی۔ آپ نے پہلی بار عید قربان پر نجف سے کربلا کا سفر کیا۔ تین روز میں راہ کی مسافت طے کی۔ آپ کے ساتھ تقریباً تیس لوگ تھے۔ اس کے بعد آپ ہر برس اباعبداللہ کی زیارت کو جاتے رہے۔ آپ 1391ھ بمطابق 1901ء میں آخری دفعہ امام حسین علیہ السلام کے حرم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔(Staff writers. "The background of Arba'een rally/The importance of Najaf-Karbala rally from scholar's viewpoint")

اس کے بعد پھر تو عزاداروں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہوگیا، مگر صدام کے دور اقتدار میں پیدل سفر (مشی) کی آزادی نہ تھی، پھر بھی جانے والے مخفی طور جاتے رہے۔ سن 2003ء سے حالات بہتری کی جانب گامزن ہوگئے اور اس روحانی سفر میں تازگی آتی چلی گئی۔(Staff writers (14 December 2014). "Shia pilgrims flock to Karbala for Arbaeen climax") اطلاعات کی بنیاد 2013 میں 40 ممالک سے دو کروڑ حضرات کی آمد کو درج کیا گیا ہے۔(Dearden, Lizzie (25 November 2014). "One of the world's biggest and most dangerous pilgrimages is underway") الخوئی فاونڈیشن نے 2014ء میں دو کروڑ بیس لاکھ زائرین کربلا کی آمد کا بتایا ہے۔ (Iraq prepares for biggest shia-muslims arbaeen gathering in history, www.alaraby.co.uk) عراقی میڈیا نے اگلے برس 2015ء میں دو کروڑ بیس لاکھ زائرین کے حضور کو بتایا ہے۔ (Sim, David. "Arbaeen: World's largest annual pilgrimage as millions of Shia Muslims gather in Karbala) اطلاعات کے مطابق 2016ء میں تین کروڑ یا اس سے زیادہ کی تعداد کو بتا یا گیا ہے۔("Arbaeen: a spiritual walk")

اگلے دو برسوں کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ مگر مصدقہ اخبار نہ ملنے کے سبب اسے صفحہ قرطاس پر نہ لانے کو بہتر سمجھا گیا، جو باتیں سوشل میڈیا: فیس بک، وٹس ایپ اور یوٹیوب وغیرہ سے معلوم ہوئی ہیں، ان میں 2017ء میں چار کروڑ اور 2018ء میں پانچ کروڑ کی تعداد کا بتایا کیا گیا ہے۔ اس  سے تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دو برسوں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے برسوں سے کہیں زیادہ امسال ہندوستانی زائرین کا صاف طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے اور آئندہ برسوں میں بھی امید افزا حالات کی توقع کی جا رہی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے عظیم اور پرامن اجتماع ہے۔ ہندوستان کے کمبھ میلہ میں بھی ایک بہت بڑی تعداد آتی ہے، مگر وہ 12 سال میں محض ایک بار لگایا جاتا ہے جبکہ اربعین کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے۔ جہاں ملک و مذہب سے پرے مختلف ممالک اور مذاہب کے لوگ آتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

یہ حسین کا در ہے، یہاں رنگ و نسل کی اونچ نیچ اور نہ ہی مسلکی بھید بھاؤ ہے۔ یہاں سب برابر ہیں۔ سب امام حسین علیہ السلام کے خادم ہیں۔ یہاں سرحدی بندشیں نہیں، یہاں تو سبھی ایک پرچم کے تلے جمع ہیں۔۔۔ حسینیت کے پرچم تلے! یہ امام حسین علیہ السلام کے در کا طرہ امتیاز ہے کہ یہاں جو ہاتھ جوڑ کر آتا ہے، وہ حر بن کر جاتا ہے اور یہیں سے راہب کی مرادیں بھی پوری ہوئی ہیں۔ حسین علیہ السلام کسی ایک قوم کی جاگیر نہیں بلکہ ہر حریت پسند اور زندہ دل کے راہنماء ہیں۔ اربعین کی مقبولیت کے باعث ایران عراق کے روابط میں مزید استحکام کو ملاحظہ کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی "الحسین یوحدنا" اور "حب الحسین یجمعنا" جیسے حسینی نقوش بھی سرعت رفتار سے عالمی پیمانے پر لوگوں کو متحد کرنے لگے ہیں۔ اربعین کی بڑھتی مقبولیت نے دشمن پر کاری ضرب لگائی ہے، جس کے باعث وہ تیزی سے زوال کی جانب بڑھ رہا ہے اور یوں سکوں کی جھنک کے پیچھے کا گھناؤنا چہرہ بھی واضح ہوتا جارہا ہے۔

کربلا میں اس عالی شان مذہبی سنگم نے عالمی برادری پر گہرے نقوش مرتب کئے ہیں، جبھی تو مفاد پرست میڈیا اپنی نگاہوں پر سیاہ پردے ڈالے پھر رہا ہے۔ لمحہ لمحہ کی خبریں اپ ڈیٹ کرنے والا سوشل میڈیا اربعین حسینی کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور اشتعال انگیری کی دھار کو تیز کرنے کی سر توڑ کوشش میں محو ہوگیا ہے۔ یہ عظیم المقدار دشمن کی مایوسی کا دن ثابت ہوا جاتا ہے، لہٰذا دشمن نے زائرین کی آڑ میں جگہ جگہ اپنے ہرکارے پھیلا دیئے ہیں، جو آپسی انتشار، باہمی کشیدگی اور فرقہ وارانہ صف بندی قائم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں بیدار رہنے کی شدید ضرورت ہے، ان کی یہ گھناؤنی سازشیں خود ان کے سر جائیں گی، کیونکہ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا ہے: اے یزید! تو چاہے جتنی بھی عیاریاں اور چالیں چل لے، مگر ہمارے ذکر کو ہرگز نہیں مٹا سکتا۔ یزید ہو یا یزید زادے ذکر حسین کو ہرگز نہیں مٹا سکتے۔


خبر کا کوڈ: 890830

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/890830/یہ-اتحاد-کا-مرکز-ہے-ا-دمی-کیلئے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org