1
Thursday 8 Oct 2020 17:42

اربعین مشی، مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کی ضامن

اربعین مشی، مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور اخوت کی ضامن
تحریر: داود عامری
 
ہر دین میں بعض ایسی علامات اور علامتی امور پائے جاتے ہیں جو ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی طرح اس دین کے پیروکاروں کو ایکدوسرے سے مربوط کرتے ہیں اور انہیں عظیم کام انجام دینے کیلئے آپس میں قریب لاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ضروری نہیں کہ اس عظیم انسانی اجتماع میں شامل افراد ایک جیسے افکار اور نظریات کے حامل ہوں بلکہ جو چیز انہیں ایک جگہ متحد اور جمع کرتی ہے وہ مشترکہ اہداف اور عظیم آرزوئیں ہوتی ہیں۔ دین مبین اسلام اور امت مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بھی ایسے دو علامتی امور پائے جاتے ہیں جنہیں اسلامی تعلیمات اور اسلامی ثقافت میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ یہاں ان دونوں امور کو ایک ساتھ ذکر کرنے کا مقصد ہر گز ان کا آپس میں موازنہ کرنا نہیں ہے۔
 
ان میں سے ایک علامت حج کا روحانی اور انسان ساز سفر ہے۔ حج حقیقی معنوں میں امت واحدہ اسلامی کی ایک علامت ہے اور اتحاد بین المسلمین کا مظہر ہے۔ البتہ حج کے موجودہ سرپرستوں کی جانب سے خود غرضانہ پالیسیاں اور اقدامات اس بات کا باعث بنے ہیں کہ عالم اسلام اس عظیم سیاسی اور عبادتی عمل سے بہترین انداز میں بہرہ مند نہ ہو پائے۔ اسلام کی ایک اور علامت اربعین امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے مشی یا واک ہے جو گذشتہ چند سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی انسانی واک اور اجتماع کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ اربعین مشی کی عظمت کا راز سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی عظیم شخصیت میں پوشیدہ ہے جنہوں نے عالم بشریت کے اندر عظیم انقلاب برپا کیا مصلح بشریت کے طور پر عمل کیا۔
 
گذشتہ چند سالوں سے اربعین مشی دنیا بھر کے انسانوں کو واقعہ عاشورہ اور کربلا سے آشنا کروانے اور ان تک سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کا پیغام پہنچنے کا ذریعہ بنی ہے۔ اس مشی اور واک کی برکت سے دنیا میں بے شمار انسانوں کی آنکھیں واقعہ کربلا کے مقدس اہداف سے منور ہوئی ہیں۔ لہذا آج اربعین مشی ایک بین الاقوامی علامت بن چکی ہے جس میں ہر قسم کے انسان اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ یہ انسان عظیم اور مقدس اہداف اور آرزوں کی قدردانی کیلئے ایک اجتماع میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ یہ انسان ممکن ہے نہ صرف آپس میں سلیقے کا اختلاف رکھتے ہوں بلکہ مختلف قسم کے اعتقادات کے حامل ہوں لیکن اربعین واک میں ایک مقصد یعنی حق طلبی، عدالت پسندی اور امن پسندی کے سائے تلے متحدہ ہو جاتے ہیں۔
 
حقیقت تو یہ ہے کہ اربعین مشی، عادلانہ امن اور ہر قسم کے نسلی، زبانی اور حتی مذہبی اختلاف سے بالاتر ہو کر انسانی وقار کے احترام کی علامت بن چکی ہے۔ کیونکہ ہم اس میں مختلف ادیان اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت کے شاہد ہیں اور خود امت مسلمہ کے اندر سے بھی مختلف فرقوں کے پیروکار بڑی تعداد میں اس عظیم واک میں شریک ہوتے ہیں۔ اربعین واک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امت مسلمہ میں متعدد فرقے اور مسالک موجود ہونے کے باوجود مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور قربت نہ صرف ممکن بلکہ قابل حصول ہے۔ اس مقصد کیلئے حقیقی اور صحیح اسلامی علامات کا فروغ اور ترویج ضروری ہے۔ اربعین نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پورے عالم بشریت کیلئے ایک عظیم روحانی اور ثقافتی سرمایہ ہے۔
 
اربعین ایک عظیم ثقافتی سرمایہ ہونے کے ناطے نہ صرف امت مسلمہ کی قربتوں اور اتحاد میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے بلکہ جدید اسلامی تہذیب کی جانب گامزن ہونے کی شاہراہ بھی ہے۔ اربعین کی مشی امت واحدہ اسلامی کی تشکیل کیلئے درکار اتحاد اور یکدلی کی عملی مشق ہے۔ اس مشی میں ہر ملک اور قوم سے وابستہ افراد شریک ہوتے ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کا یہ عظیم مظاہرہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر اسلام دشمن قوتوں کی ناپاک سازشیں نہ ہوں تو تمام مسلمان ایک ساتھ محبت اور رواداری سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ مسلمانان عالم اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے سائے تلے باہمی احترام کے ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں۔ اربعین واک ایک ساتھ خوشیاں اور دکھ برداشت کرنے کا تجربہ ہے۔ یوں یہ عظیم امر ان مفکرین کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ عالم بشریت کیلئے دین کی افادیت ختم ہو چکی ہے۔
 
مزید برآں، اربعین واک امت مسلمہ کی نرم طاقت کا مظہر ہے۔ یہ عظیم ثقافتی اور روحانی عمل عالمی سطح پر اسلامی تحریک کے آغاز کیلئے پہلا قدم ہے۔ لہذا اربعین کے پیغامات کو صحیح انداز میں سمجھنے اور انہیں اسلامی دنیا میں اتحاد کی فضا قائم کرنے کیلئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اس سال کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کربلائے معلی کی جانب مشی کرنے سے محروم ہو گئی لیکن ان کے دل امام حسین علیہ السلام کے عشق سے سرشار ہیں اور محدود حد تک ہی سہی اس روحانی سرچشمے سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ اربعین کے زندہ و جاوید ہونے کی وجہ انسان میں موجود الہی فطرت کے ساتھ اس کی مکمل ہم آہنگی ہے۔
خبر کا کوڈ : 890921
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش