1
10
Sunday 11 Oct 2020 18:30

ڈاکٹر عادل خان کے المناک قتل کے پس پردہ عوامل

ڈاکٹر عادل خان کے المناک قتل کے پس پردہ عوامل
تحریر: محمد سلمان مہدی

دس 10 اکتوبر 2020ء کو کراچی کے علاقے ڈرگ کالونی نمبر 2 میں مشہور دیوبندی بزرگ عالم جناب ڈاکٹر عادل خان صاحب کو منظم انداز میں ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ یعنی یہ ایک ٹارگٹ کلنگ تھی۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ فاروقیہ نامی ایک بڑے مدرسہ نیٹ ورک کے سربراہ تھے۔ ان کے قتل کی مذمت میں نامور بزرگ شیعہ اسلامی جماعتوں کے قائدین اور بزرگ شیعہ علمائے کرام کے بیانات ذرایع ابلاغ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ بزرگ شیعہ اسلامی عالم علامہ سید رضی جعفر نقوی صاحب نے اسے ناقابل معافی و ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ دیگر شیعہ علماء و قائدین نے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا۔ سبھی نے حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ یہ سبھی اپنی جگہ لیکن ہم سب کو اور خاص طور پر پاکستانی مذہبی طبقے اور علمائے کرام کو بلا امتیاز مسلک خود احتسابی کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسے سانحات کیوں پیش آتے ہیں۔ کسی بھی مسلک کے جید عالم کو قتل کیوں کیا جاتا ہے، کون یہ کام کرتا ہے اور کون کرواتا ہے۔ ممکن ہے کہ منفی تعصبات کے حامل غیر عادل افراد میری تحریر پر ناراض ہوں، لیکن منصف مزاج عادل انسان ہمیشہ میرے مخاطب رہے ہیں اور رہیں گے۔ چاہتا ہوں کہ اس قتل کا پس منظر و پیش منظر، درست سیاق و سباق عام انسانوں کو معلوم ہو۔

اس ٹارگٹ کلنگ پر سویلین اور عسکری قیادت کا موقف آچکا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت کے علم میں ہے اور وہ خود متعدد مرتبہ ٹی وی پر کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ تین ماہ سے بھارت شیعہ سنی علماء کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک بھر میں فرقہ وارانہ تصادم کے لیے کوشاں ہے۔ بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اسے پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے پاکستان میں ناامنی ایجاد کرنے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ یعنی سویلین اور عسکری قیادت کا موقف یہ ہے۔ لیکن فدویانہ سوال یہ ہے کہ تین مہینوں سے یعنی جولائی 2020ء سے ملک کے اندر جو ڈیولپمنٹس ہوئیں، انکا بروقت تدارک کیوں نہیں ہوا۔ ویسے تو ہم جولائی 2020ء سے پہلے کی ڈیولپمنٹس کو چیک کرسکتے تھے، لیکن وزیراعظم کے بیان کی وجہ سے بات کو تین مہینوں تک محدود کرکے جائزہ لے لیتے ہیں۔ جولائی میں تحریک لبیک کے ایک دھڑے کے قائد مولوی اشرف آصف جلالی بریلوی مسلک کا ایشو مسلکی لحاظ سے سرفہرست رہا۔ مسلکی منافرت پر مبنی ایک متنازعہ اور آئین مخالف قانون پنجاب اسمبلی نے منظور کرنے کی کوشش کی۔  اس ضمن میں قاف لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی اور کالعدم دہشت گرد جماعت انجمن سپاہ صحابہ (موجودہ نام راہ حق پارٹی۔۔۔ اہلسنت والجماعت پاکستان) کے معاویہ اعظم نے کلیدی کردار ادا کیا، جبکہ قاف لیگ کے اراکین پنجاب اسمبلی سمیت دیگر کو بھی استعمال کیا گیا۔

ہم پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ مسلکی اختلافات ایک حقیقت ہے، مگر آئین پاکستان نے اتحاد امت اور مسلکی ہم آہنگی کے سنہرے اصول کو بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور اسلامی شقوں میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی نئے قانون کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی پیغام پاکستان، یا نیشنل ایکشن پلان یا ضابطہ اخلاق کی کوئی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان کی شق 227 اور 228، 260 کی ذیلی شقیں اورر تشریحات موجود ہیں۔ قرارداد مقاصد آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی مسلمہ اسلامی فقہ کے پیروکار آباد ہیں، وہ کوئی نئی فقہ نہیں بلکہ صدیوں قدیم فقہاء کی تشریحات و توضیحات ہیں۔ اس لیے قرارداد مقاصد پاکستان کی مسلمان امت کے اجماع کا نام ہے۔ لہٰذا کوئی بھی مسلکی منافرت کا الزام مذہبی طبقے پر یا مسلکی اختلافات رکھنے والے فقہاء پر لگا کر بچ نہیں سکتا۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن پرامن بقائے باہمی کا فارمولا بھی اپنی جگہ موجود اور کافی حد تک نافذ العمل رہا ہے۔ یہ اس مسئلے کے اصل فریقوں کے حوالے سے ہونے والی ڈیولپمنٹس کے پس منظر میں بیان کردہ حقائق ہیں۔ لیکن تین مہینوں یا اس سے قبل ملک کے اندر جو ایشوز تھے، ان میں سے مسلکی اختلافات محض ایک ایشو تھا، جبکہ مکمل حقیقت یہ ہے کہ دیگر برننگ ایشوز بھی ساتھ ہی ساتھ چلتے آرہے ہیں۔ اس ایک ایشو کو اووراسٹیٹ کرکے دیگر ایشوز کو انڈراسٹیٹ کرتے رہنا کس کے مفاد میں ہے۔؟

پاکستان کی داخلی صورتحال میں جو بائیس کروڑ انسانوں کے بنیادی مسائل ہیں، ان میں بے روزگاری اور مہنگائی، افراط زر سرفہرست ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سیاسی مخالفین کی محاذ آرائی کا سلسلہ بھی چلتا آرہا ہے۔ خاص طور پر سابق حکمران جماعت نون لیگ اور پی پی پی اور انکے اتحادی فضل الرحمان کی جانب سے حکومت مخالف فعالیت بھی ایک حقیقت ہے۔ پچھلے سال مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں لانگ مارچ کے بعد اسلام آباد دھرنا اور پس پردہ معاملات طے کرنے کے بعد دھرنے کا اختتام ہوا تھا۔ جو یقین دہانیاں اور وعدے کیے گئے، شاید ان پر من و عن عمل نہیں کیا گیا، یعنی نامکمل عمل کیا جاتا رہا۔ اس دوران اپوزیشن رہنماؤں کو عدالتی ریلیف ملا تھا۔ اب پھر سختیاں شروع ہوچکیں ہیں۔ بہت سارے معاملات ہیں، جو ملک کے اندر اپنا بھاری بھرکم اور ناقابل نظر انداز وجود رکھتے ہیں۔ لیکن ان اندرونی مسائل کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ چونکہ ریاستی حکام کے بیانیہ میں پاکستان کے خلاف سازشوں کی جڑ بھارت کو قرار دیا جاتا ہے اور ابھی بھی بھارت ہی کا نام آرہا ہے، اس لیے اس زاویئے سے بھی مختصر بیان کر دیں کہ بھارت کی پالیسی برائے کشمیر و پاکستان کے تناظر میں بھی بات کریں تو یہ سلسلہ بھی بہت پرانا تھا۔ بھارت نے پاکستان میں دراندازی کی، لیکن پاکستان کے جی سی سی اتحادی ممالک خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین تینوں نے بھارت کو پاکستان پر فوقیت و ترجیح دی۔ خاص طور پر سانحہ پانچ اگست 2019ء کے بعد سے تو بھارت کے حق میں سعودی و اماراتی و بحرینی جھکاؤ بہت واضح ہے۔

عالمی سطح پر سبھی اہل علم و دانش جانتے ہیں کہ دنیا پر امریکی زایونسٹ بلاک کی حاکمیت ہے اور اس سرمایہ دارانہ بلاک کا قائد یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا ہے، جو اس وقت چائنا(یعنی پاکستان کے پڑوسی ملک چین) کے ساتھ علی الاعلان عالمی سطح پر محاذ آرائی کر رہا ہے۔ امریکا کو بیلٹ اینڈ روڈ چینی منصوبہ پسند نہیں آیا۔ اسی منصوبے کا ایک ذیلی منصوبہ سی پیک ہے اور اس وجہ سے بھی امریکی زایونسٹ بلاک اور بھارت کے درمیان اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے غیر نمائندہ غیر منتخب موروثی حکمران شاہ و شیوخ نے اپنی خاندانی حکمرانی کی بقاء کے لیے امریکی زایونسٹ بلاک میں شروع سے شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کو اب رسمی طور پر علی الاعلان تسلیم کر لیا ہے۔ سعودی عرب کو کچھ وقت کی مہلت دی گئی ہے۔ یعنی اب زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکی زایونسٹ بلاک، بھارت اور جی سی سی ممالک سبھی بھائی بھائی بن چکے ہیں۔ اب اس بین الاقوامی منظر نامے میں پاکستان کی حیثیت کیا ہے!؟

یہ ہم سارے پاکستانی خود سے پوچھیں اور ریاستی حکام بشمول سویلین و عسکری قیادت بتائیں کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔؟ ریاست پاکستان نے پچھلے چالیس برسوں میں ان سارے ممالک کی خوب خدمت کی، جیسے انہوں نے کہا، ویسا ہی ریاست نے کیا تو مکمل حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال پاکستانیوں نے اس سعودی نواز پالیسی کا فال آؤٹ بھگتا ہے۔ مکمل حقیقت کے ان رخوں مدنظر رکھ کر ایک اور سچ بھی ذہن نشین کر لیں کہ پاکستان میں پرویز مشرف کے جرنیلی دور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے بذریعہ ترکی مذاکرات ہوئے تھے، تب سعودی عرب اور ترکی کے اختلافات اتنے شدید نہ تھے جتنے اب ہیں۔ اسرائیلی، جیوش، زایونسٹ لابی اور خود سعودی عرب اور امارات و بحرین بھارت کے ساتھ ہیں، ایک عالم دین نے بیان دیا تھا کہ قادیانی اور یہودی لابی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ پرویز مشرف کے حوالے سے نون لیگ اور خاص طور پر نواز شریف ایک سخت موقف رکھتے ہیں تو اس زاویے سے بھی چیک کرنا چاہیئے کہ سعودی، اسرائیلی لابی اور اداروں میں موجود خائن اور غداروں کے مابین بھی ایک ربط موجود ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر عادل خان صاحب کے المناک قتل کے حوالے سے یہ پس منظر ذہن میں رکھ کر عقل کا استعمال کرتے ہوئے حقیقت کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سعودی ناصبی بادشاہت شروع سے اسلام دشمن امریکی زایونسٹ بلاک کا جزو لاینفک ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے پورے عرصے میں یہ امریکی سہولت کار رہی ہے۔ پاکستان میں دیوبندی حنفی مسلک کو اس نے وہابی ناصبی مسلک میں تبدیل کر دیا۔ دیوبندی بزرگان سے درخواست ہے کہ پچھلے چالیس برسوں کا ایک تنقیدی جائزہ لیں۔ پاکستان میں دیوبندی مسلک کو دہشت گردوں کا مسلک بنا دیا گیا ہے۔ انجمن سپاہ صحابہ کو اہل سنت علماء بھی انجمن سپاہ خون خرابہ کہتے ہیں۔ آپ کے مکتب کے عالم کو بم بارود والا مولوی کہا جاتا ہے اور اہل سنت خود کو دم درود والے کہتے ہیں۔ دیوبندی مفتی نظام الدین شامزی صاحنب نے دیوبندی شیعہ اتحاد کی ایک زندہ مثال قائم کی تھی۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ ختم نبوت کی تحریک میں اس لیے ساتھ ساتھ تھے کہ مشترکات کا معاملہ تھا۔ معاملہ ہمیں اپنی جان مال، عزت، ناموس، والدین، بیوی بچوں سے زیادہ عزیز، محترم اور مقدس خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا تھا۔ اس لیے سبھی مسلمان مسالک کے بزرگ علماء نے مل جل کر جدوجہد کی تھی۔

اس وقت بھی آج کی طرح اداروں کے اندر ایسے افسران تھے، جو ان کو الگ الگ بلا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔ خود دیوبندی مفتی رفیع عثمانی صاحب نے اکابرین کی تاریخ میں اس حقیقت کا تذکرہ کیا ہے۔ کاش کہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنے بھائی کی تصنیف کو ہی پڑھ لیتے تو محرم کے مہینے میں جو کچھ انہوں نے کیا، وہ نہ کرتے۔ مسلکی اختلافات ایک حقیقت ہیں اور یہ دیوبندی مسلک کے اپنے اندر بھی ہیں، لیکن اس کی بنیاد پر سڑکوں پر جمع ہو کر دنیا کے سامنے چیخنے چلانے سے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔ میں آپ سے پیشگی معذرت کے ساتھ یہ حقیقت بیان کرنے پر مجبور ہوں کہ وہ ماحول جو دشمن چاہتا تھا، اس ماحول کو تیار کرنے میں آپ بزرگان خود بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اشرف آصف جلالی ہو یا آصف غلوی دونوں کو ہی سامنے رکھ لیں۔ شیعہ اسلامی قائدین اور بزرگ علمائے کرام نے اشرف جلالی کے ایشو کو بہت ہی مہذبانہ انداز میں قانونی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ ملک کے امن و سکون اور بین المسالک ہم آہنگی کو برقرار رکھا۔ یعنی شیعہ اسلامی جماعتوں کے قائدین نے اس سازش کو ناکام بنا دیا، جو دشمن چاہتا تھا۔

اسی طرح جب آصف غلوی نے اشرف آصف جلالی کی طرح ایک فتنہ پھیلانے کی کوشش کی تو اس سے پہلے ہی بزرگ شیعہ علماء اس پر پابندی لگوا چکے تھے۔ اس کے خلاف مقدمہ درج کروانے شیعہ عالم پولیس اسٹیشن خود گئے۔ لیکن اشرف جلالی اور آصف غلوی اور انجمن سپاہ خون خرابہ کے سرپرست ایک ہی ہیں، ان کو یہ پرامن اور قانون پسند ماحول برداشت نہ ہوا اور ایک آدمی جو جید عالم بھی نہیں، حتیٰ کہ جید ذاکر بھی نہیں، اس کی ایک قابل اعتراض بات کو بنیاد بنا کر ایک مسلمہ اسلامی فقہ کے پیروکاروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانا شروع کر دی، جبکہ وہ آصف غلوی خود سعودی ناصبی فقہ کے آقا برطانیہ سامراج کا مہرہ تھا اور عام شیعہ مسلمان تو ایک عرصے سے ایم آئی سکس کے ایجنٹ غالیوں کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اس لیے ہر مسلک کے مذہبی طبقے کے خواص اور خاص طور پر بزرگان و بزرگ علماء از خود اس نفرت انگیز ماحول کو ختم کریں۔ دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تکفیر نہ کریں۔ لوگوں کو دیگر مسالک کے خلاف نہ اکسائیں۔ پاکستان کے آئین نے یہ مسائل حل کر دیئے ہیں، دشمن اس آئین کو ختم کرنا چاہتا ہے اور ختم نبوت کے منکرین کو مسلمان بنانے کے لیے اور اسرائیل کو تسلیم کروانے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے اور یہ بات خود ایک اہل سنت عالم نے کہی تھی کہ یہودی اور قادیانی لابی سازش کر رہیں ہیں۔

یقیناً بہت سے لوگ ٹو دی پوائنٹ بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے مختصر عرض یہ کہ جس مسلک سے ڈاکٹر عادل خان صاحب کا تعلق تھا، اسی مسلک میں ایک کالعدم ٹولہ انجمن سپاہ خون خرابہ ہے، جو نام بدل کر وہی کام کرتا رہتا ہے۔ اس کی کئی شاخیں ہیں۔ یہ اپنے ہی مسلک کے علماء اور عام لوگوں کو مارنے سے دریغ نہیں کرتے۔ چھ دسمبر 2013ء کو لاہور میں دیوبندی شمس الرحمان معاویہ کو قتل کیا گیا۔ 27 نومبر 2015ء کو لاہور سے ایک انگریزی اخبار نے چار دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبر دی۔ ان میں ایک کالعدم لشکر جھنگوی کا بانی رکن تھا۔ اسے انٹرپول کے ذریعے دبئی سے پاکستان لایا گیا۔ لاہور میں اسے پولیس خفیہ مقام پر منتقل کر رہی تھی، تب اس کے ساتھیوں نے پولیس سے مقابلہ کیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں چار دہشت گرد مارے گئے۔ یہ شمس الرحمان معاویہ کے قاتل تھے۔ قاتل اور مقتول دونوں کا نہ صرف مسلک ایک تھا بلکہ وہ اسی اورنگزیب فاروقی اور مولوی محمد احمد لدھیانوی کی انجمن سپاہ صحابہ کے اپنے بڑے اور نامور لیڈر تھے۔ یہ محض ایک مثال۔

دوسری مثال راولپنڈی میں سانحہ عاشورا، تب طالبان گروہ نے سارا فتنہ و فساد برپا کرکے اپنے ہم مسلک دیوبندیوں پر حملے کیے، تاکہ الزام شیعہ مسلمانوں پر لگا کر خانہ جنگی کرائی جائے۔ اس لیے دیوبندی مسلک کے بزرگان پر تو لازم تھا کہ اس فتنہ پرور ٹولے سے علی اعلان لاتعلقی کرکے ان کا سوشل بائیکاٹ کرتے، لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہ کیا۔ مجھے پاکستان کے دیوبندی بزرگان سے صرف ایک بات کہنی ہے کہ دیوبندی شیخ الہند محمود الحسن نے برطانوی سامراج کے دور میں مالٹا کی اسیری میں زندگی گذاری، مگر سامراج کی مخالفت ترک نہ کی جبکہ پاکستان کے دیوبندی مسلک بزرگان (اکا دکا استثنیٰ کے ساتھ) اس سامراج شکن روح سے محروم ہیں۔ مفتی نظام الدین شامزئی صاحب نے نائن الیون کے بعد وحدت کی بنیاد کو از سرنو تعمیر کیا، اس فکر کے دشمن اور مخالف انکے ارد گرد ہی تھے۔ مفتی بنوری الحسینی کی موت کو خودکشی قرار دینے سے مفتی نظام الدین شامزی صاحب کی شہادت تک اور شمس الرحمان معاویہ کے قتل سے لے کر سانحہ عاشورا پنڈی تک حقائق کھلی کتاب کی طرح موجود ہیں۔ تیسرے فریق کا امکان اپنی جگہ، لیکن ڈاکٹر عادل خان صاحب جیسے عالم کے قتل پر انسائیڈ جاب کو پہلا امکان رکھنا چاہیئے۔ ان کے قتل کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جو یہاں بیان کیے گئے  اور سارے مسالک کے قائدین، علماء و مشائخ دیگر مسالک کی مذہبی رسومات پر اعتراض کرکے جلسے جلوس نہ کریں تو تیسرا فریق بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

ایک اور مرتبہ دہرا دوں کہ ہم پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ مسلکی اختلافات ایک حقیقت ہیں، مگر آئین پاکستان نے اتحاد امت اور مسلکی ہم آہنگی کے سنہرے اصول کو بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور اسلامی شقوں میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ اس لیے نہ تو کسی نئے قانون کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی پیغام پاکستان، یا نیشنل ایکشن پلان یا ضابطہ اخلاق کی کوئی ضرورت ہے۔ دشمن آپکی زیادہ روی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دیوبندی، اہل حدیث، بریلوی، شیعہ ہر مسلک نے دینی عقائد کی ایسی تشریحات کیں ہیں کہ جن میں مشترک نکات بھی ہیں تو اختلافی نکات بھی ہیں۔ اختلافی نکات پر مکالمہ کا راستہ کھلا ہے۔ مشترکات پر پوری امت متحد ہے۔ اختلافی نکات کو اووراسٹیٹ کرکے لڑنے جھگڑنے سے نہ تو کسی مسلک کو خود کو کوئی فائدہ پہنچنا ہے نہ ہی ملک و قوم کو، بلکہ اس کے نقصانات پوری قوم بھگتتی ہے۔ ڈاکٹر عادل خان صاحب کے المناک قتل پر سارے مسالک کے زعماء پر مشتمل مشترکہ وفد جامعہ فاروقیہ میں ان کے نائبین اور لواحقین سے تعزیت کریں۔ اپنے اتحاد کے ذریعے دشمن کی سازش کو ناکام بنائیں۔
خبر کا کوڈ : 891479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اچھا تجزیہ
مولا سلامت رکھے
ہماری پیشکش