2
Sunday 11 Oct 2020 22:32

اربعین2020ء ایک تاریخ ساز عہد۔۔

اربعین2020ء ایک تاریخ ساز عہد۔۔
تحریر: محمد علی شریفی

کہتے ہیں کہ برطانیہ جس طرح تجارت کے بہانے بظاہر ایک تجارتی کمپنی "ایسٹ انڈیا کمپنی" کے ذریعے ہندوستان میں وارد ہوا اور اس کو اپنا مستعمرہ بنایا، اسی طرح چاہتا تھا کہ تجارت کے بہانے ایران پر بھی قبضہ جمائے۔ لہذا ایک برطانوی تجارتی کمپنی نے جو بظاہر تمباکو سے مربوط تھی، ایران کے ساتھ ایک پچاس سالہ معاہدہ کیا، لیکن پس پردہ مقاصد وہی تھے جو ہندوستان کے لئے تھے۔ لہذا اس زمانے کے مرجع تقلید آقای میرزای شیرازی اعلیٰ اللہ مقامہ نے اپنی بصیرت اور تیز بین نگاہوں سے ان مقاصد کو بھانپتے ہوئے(1309ہجری قمری کو) تمباکو کی کاشت اور استعمال کی حرمت کا فتوی لگایا، جسکو بڑی پذیرائی ملی تو کچھ لوگ آپ کو اس کامیابی پر مبارکباد دینے گئے تو آقای میرزا شیرازی اعلیٰ اللہ مقامہ بہت غمگین نظر آئے، پوچھنے پر جواب میں فرمایا یہ بڑی کامیابی تو ملی لیکن دشمن کو تشیع کی اصل طاقت کے سرچشمے کا پتہ بھی چلا اور دشمن اس محاذ کو کمزور کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرے گا، اب ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔

بالکل ایسا ہی گذشتہ دنوں وطن عزیز پاکستان میں شایان شان طریقے سے کامیاب اربعین منانے اور دشمن کی ناک زمین پر رگڑنے کے بعد قائدین اور علماء پاکستان کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ملت تشیع نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ حضرت امام خمینی رحمة الله عليہ کے بقول "حضور درصحنہ" دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ میدان میں حاضر رہنا، میدان کبھی بھی خالی نہ چھوڑنا، یہ کام ملت انجام دے چکی ہے، اب اس سے آگے قائدین، علماء، مکتب تشیع کے ذمہ دار افراد اور مذہبی تنظیموں کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یقیناً رسول اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق *إنّ لِقَتلِ الحُسينِ حَرارَةً في‌ قُلوبِ المُؤمِنينَ لاتَبرُدُ اَبَداً* قتل سیدالشہداء میں ایک ایسی حرارت ہے جو کبھی ٹھندی نہیں ہوسکتی۔ شاعر نے بھی کیا خوب کہا۔۔
تم نے جس خون کو مقتل میں چھپانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے


اسے دنیا نے دیکھا، جب دشمن نے ذکر حسین (ع) کو دبانا چاہا تو مومنین میں موجود محبت کی حرارت اور مزید آتش فشاں کی شکل اختیار کر گئی اور پاکستان کی تاریخ  میں تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ پہلا اربعین تھا کہ جو یزیدیت اور تکفیریت کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا۔ پورے ملک میں اس کو کامیاب کرنے اور پرامن رکھنے میں علمائے کرام نے بہت زیادہ محنت کی۔ بہت اچھا پلان بنایا، مختلف مذہبی تنظیموں اور انجمنوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا، جو کہ قابل تعریف اور تحسین ہے، خصوصاً کراچی کے علماء اور مومنین نے انتہائی اخلاص اور ہوشیاری سے اس فتنے کا مقابلہ کیا اور اس عظیم اجتماع کے ذریعے یزیدیت اور تکفیریت کو منہ توڑ جواب دیا۔ چونکہ امام  حسین (ع) کی شان میں یہ گستاخی کراچی میں ہوئی اور دشمن نے بھی اپنے کرائے کے مزدورں کو کراچی میں ہی جمع کرنے کی کوشش کی اور مکتب حقہ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی، اس کا بھرپور منہ توڑ جواب بھی اسی  شہر ہی سے دینا چاہیئے تھا، جو کہ اس شہر کے غیور اور باشعور علماء اور مومنین نے بہترین اور پرامن انداز میں دیا، ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

لیکن اس کے بعد ایک طبقے کی ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ علماء کا طبقہ ہے۔ دشمن کبھی نہیں سوتا۔ نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 62 میں مولا نے مالک اشتر کے ہاتھ مصر والوں کے لئے ایک (خط) لکھ بھیجا، جس میں فرماتے ہیں: وَ مَنْ نَامَ لَمْ يُنَمْ عَنْهُ "جو سو جاتا ہے، دشمن اس سے غافل ہو کر سویا نہیں کرتا" ہماری جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد کیا اب ہمارا دشمن آرام سے بیٹھے گا، تکفیریت، یزیدیت اور ملک دشمن قوتوں سے سرد جنگ اب شروع ہوچکی ہے، ہمیں مزید ہوشیار رہنے، اہل سنت برادری سے غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اپنا موقف واضح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دشمن بڑا مکار اور ذلیل ہے، پنجاب اسمبلی میں لائے گئے بل سے اندازہ لگا سکتے ہیں، اندر سے کس طرح اہل سنت کو اپنا ہمنوا بنایا اور اسی طرح  ایک متعصب درباری مفتی کے ذریعے کراچی میں کتنا بڑا فتنہ کھڑا کرکے معتدل اہل سنت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ اہل سنت کے معتدل علماء، سنجیدہ اور محب اہل بیت (ع) طبقے نے تکفیریت کی اس سازش کو مسترد کر دیا، لیکن ہمیں اس پر مزید کام کرنے اور روابط بڑھانے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کام کچھ تنظیموں کی طرف سے ہوا، وہ بھی لائق صد تحسین ہیں۔

بزرگان کو اپنے درمیان بھی تعلقات کو مزید بڑھانے اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی اپنی تنظیموں میں رہ کر قومی ایشوز، مشترکہ مکتبی اور دینی مفادات کے نکات پر متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم اہل سنت کے ساتھ اصول دین، فروع دین میں اختلافات رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ بیٹھنے کو عبادت قرار دیتے ہیں، لیکن سو فیصد اصول و فروع مشترک ہونے کے باوجود کیوں ان اہم مواقع پر آپس میں ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں؟؟ اور ایک ساتھ لائحہ عمل طے نہیں کر رہے ہیں؟؟ جب سب مل کر ان ایشوز کا مقابلہ کریں تو سب کی اہمیت ہوگی اور مکتب کی آبرو بھی باقی رہے گی۔ 30 فیصد تشیع کی اہمیت ہوتی ہے، چار گروہوں میں تقسیم ہونے کے بعد اس طرح کے موقعوں پر 8 فیصد کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی، نہ مقابل کی نظر میں اور نہ ہی حکومت کی نظر میں۔ اہمیت ہمیشہ افرادی قوت کی ہوتی ہے۔

لہذا جن بزرگوں کو اب تک متفقہ ایشوز پر ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوئے، یا اطلاعات کے مطابق بعضوں کی ذاتی چپقلش کی بنا پر ساتھ بلانے پر راضی نہیں تھے، ان کی شخصیت اور ان کے حلقہ احباب کو بھی تسلیم کرتے ہوئے ساتھ ملانے کی ضرورت ہے اور ان مواقع پر سب کو اپنے اپنے تنظیمی خول سے نکل کر دشمن کے مقابلے میں متحد ہوکر ایک آواز بن کر یزیدیت  کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ اس عظیم کامیابی کے بعد  پھر اپنی اپنی تنظیموں کے دائرے میں رہ کر کریڈیٹ لینے اور اس طرح کے مواقع میں  انفرادی طور پر کام کرنے کی کوشش کریں تو وہ مقاصد اور فتح ملنا شاید مشکل ہو، جو اتحاد کی صورت میں ملتی ہے۔ اس لیے ہر ایشو کے وقت ایک دوسرے سے رابطہ، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کرنے کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ ہر شہر میں مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جانی چاہیئے، وہ کمیٹی شیعہ سنی اتحاد کے لیے بھی کام کرے اور آگے جب بھی اس طرح کے ایشوز سامنے آئیں تو مل کر ڈیل کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرے، پوری ملت کو آگاہ رکھ سکے اور ملت اور علماء میں رابطہ اور زیادہ مستحکم بنائے، ورنہ اگر ہم اس خوش فہمی میں رہیں کہ ہم ملت کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو یہ صرف دشمن کو جگانے کے مترادف ہی ہوگا۔

صرف جلوس اور کانفرنسز پر اکتفا نہ کیا جائے، مختلف اداروں میں ملت کے خلاف ہونے والی سازشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جلوس اور عزاداری کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں میں مومنین کے خلاف کٹنے والی ایف آئی آرز کو ختم کرانے میں بھی تنظیموں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تنظیمیں صرف جذباتی اور سیاسی بیانات پر اکتفا نہ کریں، جب اس بنیاد پر کیس بنتا ہے تو عام مومنین کے لیے کس قدر مشکل کام ہوتا ہے اس کی پیروی کرنا۔ لہذا ان کے کیسز کی پیروی تنظیمی بنیادوں اور قانونی ماہرین سے مشورے کے ساتھ ان کی داد رسی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اس قوم کے علماء اور ملت نے اربعین پر جس انداز میں اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرکے یزیدیت اور تکفیریوں کو رسوا کیا ہے، خدا ہمیشہ انہیں اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔آمین!!
خبر کا کوڈ : 891494
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش