1
Monday 12 Oct 2020 22:01

کیا عرب لیگ کا آخری وقت آن پہنچا ہے؟

کیا عرب لیگ کا آخری وقت آن پہنچا ہے؟
تحریر: علی احمدی
 
1945ء میں چھ عرب ممالک یعنی مصر، سعودی عرب، عراق، شام، لبنان اور اردن نے ایک علاقائی عرب تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام "عرب لیگ" رکھا گیا۔ یہ ممالک عرب لیگ کے بانی رکن ممالک کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد عرب ممالک کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ آج یہ تنظیم شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے اور اس کا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ آج کی دنیا میں علاقائی سطح پر اتحاد کی تشکیل اور باہمی تعاون بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے اور دنیا کے اکثر ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اس کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ علاقائی سطح پر تعاون اور اتحاد کی تشکیل ان ممالک کی معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
 
علاقائی سطح پر تشکیل پانے والی تنظیمیں رکن ممالک کے باہمی تعاون سے مختلف شعبوں جیسے سائنسی، سیاسی، فوجی، اقتصادی وغیرہ میں ترقی کے مقصد سے معرض وجود میں آتی ہیں۔ عرب لیگ بھی ایک ایسی ہی علاقائی تنظیم ہے جس کے رکن ممالک کے درمیان زبان، مذہب، ثقافت اور جغرافیہ سے متعلق مشترکہ اقدار پائی جاتی ہیں۔ عرب لیگ کے بانی رکن ممالک نے بھی اس امید کے ساتھ اس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی کہ اس وقت کے شدید بحرانی حالات میں رکن ممالک کے درمیان اتحاد کی فضا قائم ہو سکے گی۔ عرب لیگ کے منشور کے آغاز میں ہی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ تنظیم عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کیلئے تشکیل دی گئی ہے۔ اس کی بنیاد رکن ممالک کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کے احترام پر استوار ہے۔
 
عرب لیگ کے منشور کے آغاز میں ہی تمام رکن ممالک نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس تنظیم کی تشکیل کا مقصد عرب اقوام کی رائے عامہ کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اسی طرح تمام رکن ممالک نے یہ عہد بھی کیا ہے کہ وہ ہر گز کسی عرب ملک میں حکومت کی تبدیلی کیلئے کوئی اقدام انجام نہیں دیں گے۔ عرب لیگ کو تشکیل پائے 75 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ تنظیم اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی بلکہ بعض موارد میں مطلوبہ اہداف سے دور ہوئی ہے۔ مسئلہ فلسطین، شام کا بحران، یمن کی جنگ، لیبیا کی خانہ جنگی اور عرب اسپرنگ جیسے ایشوز نے عرب لیگ کی کمزوریوں کو بہت اچھی طرح عیاں کر دیا ہے۔
 
گذشتہ ہفتے منگل کے روز لیبیا کی قومی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ عرب لیگ کونسل کی سالانہ سربراہی قبول نہیں کرے گی۔ طرابلس کے حکومتی نمائندے نے عرب لیگ کے سیکریٹریٹ کو اطلاع دی ہے کہ وہ بہتر حالات میں کونسل کی سربراہی قبول کرنے کو ترجیح دیں گے۔ یاد رہے اس کونسل کی سربراہی ہر سال حروف تہجی کے اعتبار سے عرب لیگ کے رکن ممالک کے درمیان منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اگر کوئی رکن ملک سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دے تو اگلے ملک کو سربراہی دے دی جاتی ہے۔ لیبیا گذشتہ دو ہفتے کے دوران ایسا چھٹا ملک ہے جس نے اس کونسل کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ سب سے پہلے فلسطین نے ایسا اقدام کیا تھا۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ اقدام متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے اعتراض میں انجام دیا ہے۔
 
فلسطین کے بعد قطر نے بھی عرب لیگ کونسل کی سربراہی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد قمر جزائر کی باری تھی۔ اس نے بھی سربراہی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس کے بعد لبنان اور کویت نے بھی یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ فی الحال اس کونسل کی سربراہی سنبھالنے کیلئے حالات مناسب نہیں ہیں۔ فلسطین اتھارٹی عرب لیگ کی پوری تاریخ میں اب تک اس قدر اس تنظیم سے نالاں اور گلہ مند نہیں نظر آئی جتنی آج دکھائی دے رہی ہے۔ رام اللہ کا دعوی ہے کہ عرب لیگ نے واضح طور پر فلسطین کاز کو پس پشت ڈال دیا ہے اور مسئلہ فلسطین کو اپنے اقتصادی مفادات پر قربان کر ڈالا ہے۔ فلسطینی حکام دیکھ رہے ہیں کہ خود کو ان کا سب سے بڑا حامی کہنے والا عرب ملک یعنی سعودی عرب بھی خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
 
فلسطین اتھارٹی مسئلہ فلسطین کو اسرائیلی حکام کے ساتھ امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتی آئی ہے لیکن اب وہ بھی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل مسلح مزاحمت اور جہاد میں مضمر ہے۔ بحرین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد فلسطین اتھارٹی نے عرب لیگ سے ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اس کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔ مذکورہ بالا مسائل کے باعث عرب لیگ آج 75 سال بعد ایسی تنظیم میں تبدیل ہو گئی ہے جسے عرب شہریوں کے بقول تاریخ کی کوڑہ دانی میں دفن ہو جانا چاہئے۔ مسئلہ فلسطین سے غداری اور فلسطین کاز سے چشم پوشی عرب لیگ کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 891667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش