1
1
Tuesday 13 Oct 2020 15:26

ہم باہر نکلیں؟ یہ سارے علی والے اپنے گھروں میں سوئے رہیں گے

ہم باہر نکلیں؟ یہ سارے علی والے اپنے گھروں میں سوئے رہیں گے
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی

پاکستان کے مختلف شہروں میں اہل تشیع نے چہلم کے موقع پہ اپنے روایتی جلوسوں کے علاوہ ریلیاں نکالی ہیں۔ جنہیں اربعین واک، مشی، پیادہ روی کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ریلیاں چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان و کشمیر حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی نکالی گئی ہیں، بلاشبہ ان ریلیوں کے شرکاء کی تعداد لاکھوں سے بھی بڑھ کر تھی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ان پہ اعتراض کا کوئی ٹھوس مدلل جواز تراش سکوں، تاہم حقیقت یہی ہے کہ تمام ریلیاں نہایت پرامن تھیں، ان میں فقط اتحاد بین المسلمین کا ہی نہیں بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کا جادو بھی سر چڑھ کر بولتا دکھائی دیا۔ ان ریلیوں کے راستوں میں اہلسنت کی جانب سے پانی و شربت کی سبیلیں، میڈیکل کیمپ و دیگر سہولیات کا انتظام تھا تو کئی مقامات پہ ہندو، مسیحی اور سکھ برادری کی جانب سے بھی اعلیٰ پیمانے پہ انتظامات کئے گئے تھے۔ ان ریلیوں میں مجھے اکثریت و اقلیت کیلئے پانی کا الگ الگ گلاس نظر نہیں آیا۔ بانٹنے والوں اور لینے والوں میں مسلم اور کافر کی تقسیم نہیں تھی۔ ایک ہی ریلی میں اہلسنت کے ہاتھ میں پاکستانی پرچم اور علم تھامے اہل تشیع نوجوانوں کو ساتھ ساتھ چلتے دیکھا۔ کہیں کوئی نوجوان کسی بزرگ کے پاؤں دباتے ہوئے ملا تو کہیں کوئی بزرگ بچوں کی خدمت پہ معمور ملا۔ القصہ کہ وہ تمام ضروری لوازمات جو کہ آئیڈیل معاشرے کے قیام کا باعث بنتے ہیں، وہ انہی ریلیوں میں بخوبی دکھائی دیئے۔ 

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومت، ریاست اور ادارے ایسے اجتماعات کو مذہبی، لسانی، مسلکی اور قومی شدت پسندی و انتہاء پسندی کے خلاف موثر مزاحمتی پلیٹ فارم سمجھتے، الٹا ریاست کی جانب سے بعض علاقوں میں ان ریلیوں کے شرکاء پر ایف آئی آرز درج کی گئیں تو کہیں گھر گھر چھاپہ مار کارروائیاں انجام دی گئیں، حالانکہ پورے ملک بشمول مقبوضہ کشمیر کے، کہیں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔ یہ الگ بات ہے کہ ریلیوں کے شرکاء کی گرفتاری کیلئے متعدد شہروں میں پولیس کی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی خبریں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ چند علاقوں میں میرے ہم مسلک خطباء نے نماز جمعہ کے خطبات میں ان اجتماعات پہ تنقید کی۔ بعض مقامات پر ان کے خلاف باقاعدہ درخواستیں دی گئیں۔ کیوں۔؟ اس کیوں کا مدلل جواب مجھے بارہا پوچھنے پر بھی نہیں مل پایا۔ اپنے علماء، خطباء اور اکابرین سے مجھے شکوہ اس بات کا ہے کہ کیوں ہمارا عمل ہمیشہ ردعمل یا نقل پہ مبنی ہوتا ہے۔؟ دوسروں کے ہر عمل کی مخالفت ہمارا نصب العین کیوں بن چکی ہے؟ کیوں ہم ان (اہل تشیع، اہلسنت بریلوی) کے عمل کی پہلے شدید مخالفت کرتے ہیں اور پھر اس عمل کے ردعمل میں خود وہی عمل انجام دیتے ہیں۔؟

ہمیں پہلے جلوسوں پہ اعتراض تھا اور اسے خلاف شرع بتاتے تھے، اب انہی جلوسوں کے رد میں ہم خود جلوس نکالتے ہیں۔ اپنی اسی روش کی بدولت ہم معاشرے میں بہت کچھ کھو رہے ہیں۔ اقوام عالم میں ہم زوال پذیر ہیں اور جن کی مخالفت کرتے ہیں، وہ قوت، عزت، علم اور تکریم میں مسلسل مقدم ہو رہے ہیں۔ آج ہماری پہچان ظالم یا ظالموں کے ساتھی کے طور پہ ہونی لگی ہے۔ آج ہمیں سوسائٹی میں اس سوال کا سامنا ہے کہ ہم حق پرست ہیں یا باطل پرست۔؟ کوئی ہمیں خائن قرار دیتا ہے تو کوئی ظالم، کوئی باطل پرست پکارتا ہے تو کوئی آلہ کار وجہ کیا ہے۔؟ کوئی خاتم النبین پیغمبر اکرم کے ذکر کی محفل سجائے تو ہمیں اس پہ اعتراض۔ اس محفل میں ہمیں بدعت، کفر، کراہت کے پہلو نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور اکابرین ان اعتراضات کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ اپنوں کو چھوڑ کر باقی سوسائٹی ہمیں اس محفل کا ہی نہیں بلکہ اس کا بھی دشمن سمجھتی ہے کہ جس کے ذکر سے محفل آباد ہو۔

جب علی المرتضٰی، حیدر کرار کے نام پہ کوئی تقریب منعقد ہو تو ہم اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ جب حسنین کریمین کا نام لیکر کوئی اجتماع برپا ہو، ہم اس کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ کیوں۔؟ کیا رسول اللہ ہمارے نہیں ہیں۔؟ کیا سیدہ فاطمہ ہماری خواتین کی جنت کی سردار نہیں ہیں۔؟ کیا حسنین کریمین جنت کے سردار نہیں ہیں۔؟ مجھے اس بحث میں پڑنا ہی انہیں ہے کہ شیعہ کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کیسے آئے ہیں، کیونکہ صدیوں سے نہ آپ انہیں قائل کرسکے اور نہ ہی انہیں اپنے ذکر اور رسومات سے باز رکھ پائے مگر انہوں نے اپنے اس ذکر (حسنین) کے ذریعے اپنی محفلوں، جلوسوں، مجلسوں اور رسومات کے ذریعے یہ کارنامہ انجام دیا کہ امام عالی مقام حضرت حسین جیسی ہستی کو اپنا کر لیا۔ میرے کسی دوست عزیز کو یہ بات بری لگتی ہے تو بے شک لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ حسنین کریمین، جوانان جنت کے سرداروں کے ذکر کے جملہ حقوق شیعہ اپنے نام کرچکا ہے۔

کیا مت ماری گئی، ہمارے اکابر کی، جو شیعہ کی مخالفت کرتے کرتے یزید کی طرفداریاں کرنے لگے۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ اسے علامہ لکھوں، مفتی لکھوں یا ابوجہل کہ جو دعویٰ تو کرے کہ پوری زندگی اسلامی تعلیم حاصل کرنے پر خرچ کی اور آخری عمر میں آکر یزید لعین اور نواسہ رسول کے مابین موازنے کرتا پھرے۔ اس زندگی بھر کی پڑھائی کا کیا فائدہ کہ آخری عمر تک حق و باطل کی شناخت ہی کھو جائے۔ اس سے بہتر تو وہ ان پڑھ ہے کہ جس نے اپنے ایمان و اخلاص کی کسوٹی رسول اکرم (ص) کی شخصیت مبارکہ کو رکھا ہے۔ تاریخ اسلام کی ہر شخصیت کو اتنی ہی اہمیت دیتا ہے کہ جتنی جس کی پیغمبر اکرم (ص) سے نسبت ہے۔ اس سے قبل اہل تشیع زائرین اربعین کے موقع پہ عراق کے مختلف شہروں سے پیدل چل کر کربلا جاتے تھے۔ جسے اربعین واک، مشی یا پیادہ روی کا نام دیتے ہیں۔

عراق میں مشی کا سب سے بڑا اجتماع نجف اشرف سے کربلا ہوتا ہے۔ رواں برس کورونا کی وجہ سے سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کی زیادہ تعداد نے اپنے اپنے علاقوں میں ہی اربعین کیا، چنانچہ پیدل چلنے کی جو سرگرمی وہ پہلے نجف سے کربلا انجام دیتے تھے۔ وہ انہوں نے اپنے اپنے ممالک میں، اپنے شہروں میں انجام دی۔ اہل تشیع کی ان پیدل ریلیوں پہ انگلیاں اٹھانے والے ناقدین بالخصوص اپنے اکابرین سے میرا سوال ہے کہ اپنی قوم کو منظم رکھنے، انہیں اجتماعی سانچے میں ڈھالے رکھنے کیلئے اور ایک پلیٹ فارم پہ متحد رکھنے کیلئے اگر اہل تشیع اکابرین ایسی مثبت، صحت مندانہ اور دلیرانہ سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں تو اس سے آپ کو کیا تکلیف ہے، آپ کیوں ناقد ہیں، کیا فقط اس لیے کہ آپ ایسی سرگرمیاں انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے یا آپ کو اتنا پرکشش اور جاذب پلیٹ فارم میسر نہیں کہ جس پہ آپ قائل کر پائیں۔؟
 
تاریخی اعتبار سے جانچیں تو اہل تشیع سے پہلے ہمیں چاہیئے کہ ہم یوں پیدل ریلیاں نکالیں۔ تین تین دن اور راتیں پیدل چلیں۔ غاروں میں جاکر پناہ گزین ہو جائیں، جنگلوں کو جا کر آباد کر لیں۔ اگر اہل تشیع ایک صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری کے ایک عمل کی پیروی میں پوری دنیا میں پیدل ریلیاں نکال سکتے ہیں۔ (جابر بن عبداللہ انصاری امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کیلئے پیدل چل کر آیا تھا، جس کو نمونہ بنا کر یہ عظیم الشان مشی انجام دی جاتی ہے) تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے، حضرت ابوبکر یار غار کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے شب ہجرت ہمیں پیدل نکلنا چاہیئے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر جانا چاہیئے۔ پہاڑوں پر، جنگلوں میں دو، دو تین تین راتیں قیام کرنا چاہیئے۔ مشی یا پیادہ روی کی جتنی مستند دلیل اور وجہ ہمارے پاس ہے، اہل تشیع کے پاس نہیں ہے۔ ویسے بھی شب ہجرت جب ہم بھی عظیم الشان ریلیوں کی صورت گھروں سے باہر نکلیں گے تو حضرت علی حیدر کرار کی سیرت پہ عمل کرتے ہوئے علی والے (اہل تشیع) گھروں میں بستروں پہ سوئے رہیں گے۔ ہمارے اکابرین کو چاہیئے کہ دوسروں کو لعن طعن کرنے اور ہر عمل کو غلط قرار دینے کے بجائے کچھ مثبت روش اپنائیں۔ ہمت کریں، میدان میں آئیں، اہل تشیع کی طرح باہر نکلیں۔ ہمیں اعتراض نہیں ہے کہ اہل تشیع چہلم پر دو جلوس نکالیں یا دس، ہر شہر میں ایک اربعین واک کی ریلی نکالیں یا دس۔ یقیناً انہیں بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم شب ہجرت (حضور اکرم) سنت اور سیرت شیخین پہ عمل پیرا ہوکر گھروں سے کتنی بڑی تعداد میں نکلیں، کہاں سے گزریں اور کہاں تک جائیں، کہاں رہیں۔ یوں بھی علی والوں (اہل تشیع) کو اس رات صرف سونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 891823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عمران رضا
Pakistan
بہت خوبصورت حقیقت پر مبنی تحریر
ہماری پیشکش