0
Wednesday 14 Oct 2020 16:30

راجہ صاحب محمود آباد، تحریک آزادی اور جمہوری روایات کے عظیم پاسبان

راجہ صاحب محمود آباد، تحریک آزادی اور جمہوری روایات کے عظیم پاسبان
تحریر و تحقیق: توقیر کھرل
 
راجہ امیر خاں 5 نومبر 1914ء کو ایک علمی خاندان میں اودھ کی ریاست محمود آباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی ان کی تربیت کا خصوصی خیال رکھا گیا۔ ایک انٹرویو میں راجہ صاحب نے اپنی ذہنی تربیت کے حوالے سے کہا کہ میری تربیت اور ذہنی نشوونما ایک ایسے ماحول میں ہوئی، جو اخلاقی اور مذہبی روایات کا امین تھا۔ اس تربیت نے ہی مجھے وہ ذہنی توانائی بخشی کہ میں ہر طرح کی مادی ترغیبات کا مقابلہ کرسکا اور بعد کے مسلسل مطالعے نے مجھے یقین دلایا کہ انسان کی روحانی طمانیت اور ذہنی سکون کا راز سادہ اور قانع زندگی بسر کرنے میں پوشیدہ ہے۔ میرا مذہب میرے لئے معاشرتی رجعت پسندی اور ذہنی پسماندگی کا نقیب نہیں بلکہ زندگی، ایثار، جدوجہد اور انقلاب کا پیام بر ہے۔ راجہ صاحب اپنی فکر میں ایک مصلح قوم تھے اور ان کی ہر لمحہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسلمان اپنی روایتی بلند کرداری اور اعلیٰ تعلیمات میں خود کو دیکھیں اور پھر دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کریں، جو اسلامی روح کے عین مطابق ہو۔ ان کا علم و فضل خضوع و خشوع، سادگی اور انکساری، مذہب و ملت کا درد، پابندی احکام الہیٰ اور عبادت گزاری ایسے اوصاف تھے، جنہوں نے راجہ صاحب کو تحریک پاکستان کے دوران بھی اور قیام پاکستان کے بعد بھی دیگر رہنماﺅں سے ہمیشہ ممتاز و ممیز رکھا۔

راجہ امیر خان کے والد مہاراجہ محمد علی محمد کے قائد اعظم محمد علی جناح سے دیرینہ تعلقات تھے۔ پاکستان کے قیام کے لئے قائد اعظم محمد علی جناح کی جدوجہد جاری تھی، جس کے لئے راجہ محمد علی محمد اور اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے راجہ محمد امیر احمد خاں سرفہرست تھے۔ راجہ صاحب محمود آباد قائد اعظم کے لئے ایک قابل اعتبار شخصیت تھے۔ کئی مواقع پر اپنی نیابت کے لئے منتخب کیا، یہی وجہ ہے کہ راجہ امیر قائد اعظم کو انکل اور فاطمہ جناح کو پھوپھی کہا کرتے تھے۔ 1931ء میں مہاراجہ محمد علی محمد کے انتقال کے بعد قائد اعظم کو بطور مسلم لیگ کے سربراہ کے ایسے ساتھیوں کی تلاش تھی، جو مقاصد کے حصول کے لئے کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے اور مالی اعتبار سے بھی مستحکم ہوں۔ ان حالات میں راجہ صاحب محمود آباد نے قائد اعظم کا بھرپور ساتھ دیا۔ راجہ امیر خاں نے اپنے والد کی طرح مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے نہ صرف اپنی ریاست کی آمدنی کو بے دریغ خرچ کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو اور بعد میں تحریک پاکستان کو مقبول بنانے کے لئے اپنی بساط و گنجائش سے کہیں زیادہ سرمایہ فراہم کیا۔ راجہ صاحب نے قوم کو عملی اور فکری رہنمائی بھی فراہم کی۔

1936ء میں ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری کا آغاز ہوا، جس کے نیتجے میں 1940ء میں ایک علیحدہ مسلم وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد اس عرصہ میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرچکے تھے اور انہیں بعد ازاں مسلم لیگ کا خزانچی مقرر کیا گیا۔ 28 دسمبر1937ء میں قائد اعظم کی ایماء پر راجہ امیر خاں کو آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ راجہ صاحب کو بحیثیت صدر وابستگی نے نہ صرف فیڈریشن کے تنظیمی معاملات کو فزوں کیا بلکہ نوجوانوں میں ایک ایسا جذبہ پیدا کر دیا، جو آل انڈیا مسلم لیگ کی مقبولیت میں بھی معاون ثابت ہوا۔ ان کی مقبولیت کے باعث ان کو اکثر قومی اجلاسوں میں بھی بلایا جاتا تھا۔ دہلی میں 25 ہزار افراد کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے راجہ امیر خاں نے کہا کہ ہم آٹھ کروڑ ہیں، مگر ہماری ہمتیں پست ہوچکی ہیں، ضمیر کی آزادی کی ضرورت ہے۔ میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلام کی مساوات، اسلام کی اخوت اور اسلام کی سی ترقی دنیا کے کسی مذہب میں بھی نہیں۔ آپ اب بیدار ہوکر رسول اکرمﷺ کے دامن کو پکڑیئے۔

1940ء کی آخری سہہ ماہی میں راجہ صاحب مسلسل سفر میں رہے اور مسلم لیگ کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ 1943ء میں راجہ صاحب مسلم لیگ اور فیڈریشن سے وابستہ تو تھے لیکن کسی حد تک سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب تک مسلمانان ہند میں جذبہ ایمانی فروغ نہیں پاتا اور قرآن مجید کے پیغام پر عمل پیرا نہیں ہو جاتے، وہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ راجہ صاحب کی مسلم لیگ سے دوری قائد اعظم کے لئے تشویش ناک تھی، لہذا انہوں نے مرزا ابو الحسن اصفہانی کو راجہ صاحب سے گفتگو کرنے پر مامور کیا۔ مرزا ابو الحسن نے راجہ صاحب کو کلکتہ آنے پر رضامند کیا۔ 1943ء میں ہی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا اجلاس ہوا تو ان کو دوبارہ صدر منتخب کیا گیا۔ وہ پھر سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سرگرم عمل ہوچکے تھے۔ جون 1943ء کو علی گڑھ میں "اسلامی جماعت" کے قیام کا اعلان کیا گیا اور کہا کہ ملک کے ہر صوبے میں اسلامی جماعت کی شاخیں قائم کی جائیں گی اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس جماعت کا رکن ہر مسلمان بن سکتا ہے، لیکن اس کو عہد کرنا ہوگا کہ وہ رسول خداﷺ کی اتباع کی پوری کوشش کرے گا۔

راجہ محمد امیر احمد خاں کو قائد اعظم محمد علی جناح سے جو قلبی لگاﺅ تھا، اس کا اندازہ اس خط و کتابت سے بخوبی ہوتا ہے، جو وقتاً فوقتاً ان دونوں رہنماﺅں کے درمیان ہوتی تھی۔ وہ قائد اعظم کو نہ صرف اپنا سیاسی رہنماء تسلیم کرتے تھے بلکہ تنظیمی امور میں قائد اعظم کی اتباع کو اپنا فرض سمجھتے تھے، لیکن اس کے باجود کبھی کلمہ حق کی ادائیگی میں تکلف سے کام نہیں لیا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران جب ایک مرحلہ پر انہوں نے اسلامی جماعت کے قیام کا اعلان کیا تو قائد اعظم نے ان کے اس قدم کو زیادہ پسند نہیں کیا، مگر راجہ صاحب نے جو ایک اسلامی معاشرہ کے قیام پر یقین رکھتے تھے، اپنا مشن جاری رکھا۔ اسلامی جماعت کے بانیان میں مسلم لیگ کے رہنماء راجہ محمود آباد، ڈاکٹر افضال قادری اور ڈاکٹر محمود حسین شامل تھے، جس کے باعث یہ خیال پایا گیا کہ یہ مسلم لیگ نے ہی قائم کی ہے، لیکن اس بات کی تردید کی گئی۔

راجہ صاحب نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اسلامی ریاست کے لئے میری وکالت نے مجھے جناح صاحب سے اختلافات سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے میرے خیالات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور مجھے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایسے خیالات کے پرچار سے روک دیا۔ اس خدشہ کے تحت کہ مبادا لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ جناح بھی میرے ان خیالات کو درست تصور کرتے ہیں۔ میں جناح سے خیالات کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرسکتا تھا، اس لئے خود کو جناح سے الگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ میں شرکت کرتا رہا، اب جب میں ماضی میں نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میں کس قدر غلطی پر تھا۔ اگست 1946ء میں راجہ امیر خان نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور جون 1947ء میں قیصر باغ لکھنو سے تیس افراد پر مشتمل قافلے کے ساتھ عراق روانہ ہوئے اور جولائی کے وسط میں واپس تشریف لائے۔

1959ء میں ایک انٹرویو کے دوران حصول آزادی اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی معاملات میں اپنی کنارہ کشی اور اس حوالے سے چہ مگوئیوں کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام چہ مگوئیاں بے محل اور قیاس آرائیاں بے موقع ہیں۔ آزادی اور قیام پاکستان کا مطالبہ میرا قدرتی حق تھا، جس کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور اب بھی نظریہ کے مطابق خدمت کر رہا ہوں۔ قیام پاکستان کے بعد اگست میں ہی ایران روانہ ہوگئے اور عراق میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ ان سے ایک انٹرویو میں دریافت کیا گیا کہ آپ نے قیام پاکستان کے بعد ملک میں قیام کیوں نہیں کیا تو کہا تقسیم ہند کے بعد میں نے محسوس نہ کیا کہ اس ملک میں میری ضرورت ہوگی اور اس ملک سے استفادہ کرنا مجھے گوارہ نہ ہوا، اس لئے میں ایران کی طرف روانہ ہوگیا۔ 1948ء سے 1955ء تک راجہ صاحب عراق میں ہی رہے، لیکن بوقت ضرورت بھارت اور پاکستان آتے رہے۔

1957ء میں پاکستان کے گورنر جنرل سکندر مرزا نے ایک ملاقات کے دوران راجہ صاحب کو کہا کہ وہ بھارت میں رہ جانے والی جائیداد کی فہرست فراہم کریں تو حکومت ان کو معاوضہ دے گی۔ راجہ صاحب نے کہا ہزاروں لوگ ہندوستان کو چھوڑ کر آئے، کیا ان سب کو معاوضہ دیا گیا۔ راجہ صاحب 1957ء میں پاکستان آئے تو اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے سیاست میں خاصہ وقت اور پیسہ صرف کیا، اس امید پر کہ عوام کو خوشحالی نصیب ہوگی، مگر ان کے مسائل بجائے حل ہونے کے اور بڑھتے ہی چلے گئے، میں چند وجوہات کی بنا پر پاکستان نہ آسکا بلکہ 1957ء میں آیا ہوں تو پاکستان کے حالات کا مطالعہ کر رہا ہوں اور میرے دل میں ایک آگ سی لگی ہوئی ہے، اس آگ کی لگن میں عوام کے لئے کچھ کرسکوں اور اس مقصد کے لئے فنا ہو جانے تک کو تیار ہوں۔ راجہ صاحب نے دسمبر 1956ء میں کراچی میں قیام کیا۔ اپنی زندگی کا ایک نیا دور شروع کیا۔ ان کے قیام سے تحریک پاکستان کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے اندر جرات عمل پیدا ہوئی اور ان کی رہائش گاہ پر رہنماﺅں، سیاستدانوں اور سابق آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے وابستہ افراد کا ہجوم رہنے لگا۔

راجہ صاحب کی اس قدر پذیرائی جہاں چند افراد کو شاق گزری، وہاں پاکستان مسلم لیگ کو از سر نو ایک فعال سیاسی جماعت بنانے پر توجہ دی بلکہ راجہ صاحب سے درخواست کی کہ وہ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالیں، تاکہ جماعت کا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل ہوسکے۔ راجہ صاحب نے اس پیشکش کو یہ کہہ کرقبول کرنے سے انکار کر دیا کہ جب وہ ملک میں جمہوریت کو رائج کرنے کے خواہاں ہیں تو پھر وہ ایک سیاسی جماعت کی قیادت غیر جمہوری انداز میں کیسے سنبھالیں۔ 19 مارچ 1957ء کو راجہ امیر خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلم لیگ جس نے آزادی کے لئے جدوجہد کی تھی اور جس نے پاکستان حاصل کیا تھا، قائد اعظم کے انتقال کے بعد ختم ہوگئی، اب میرا مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 1957ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا تو ان کے دل پر گراں گزرا۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے اس فیصلے کے بعد دوبارہ سے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ جنرل ایوب ان کو مسلم لیگ کا صدر دیکھنا چاہتے تھے، لیکن راجہ صاحب نے کہا اب میرا قائد اعظم کے بعد کی اس مسلم لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ 1962ء میں یورپ، بیروت، ایران، عراق اور فرانس کے دورہ پر چلے گئے۔

وہ لندن میں ہی مقیم تھے کہ پاکستان میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی اٹھا لی تو راجہ صاحب کو لیگی کارکنان کی جانب سے صدارت کے لئے نامزد کیا گیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 1963ء تا 1969ء تک متعدد بار پاکستان آئے اور لندن گئے، لیکن انہوں نے پاکستان میں کسی قسم کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ 1971ء میں سقوط مشرقی پاکستان راجہ صاحب کے لئے بہت بڑا سانحہ تھا، وہ سیاسی صورتحال سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ لندن واپس چلے گئے، ان کی عارضہ قلب کی تکلیف بڑھ گئی اور وہ ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ ایک ماہ کے بعد وہ ہسپتال سے واپس آئے اور اسلامک سنٹر کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ 14 اکتوبر 1973ء کو دل کا شدید دورہ پڑا اور 59 سال کی عمر میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ راجہ صاحب کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لندن سے تہران لائی گئی اور مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا کے مقبرہ کے ساتھ احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 892039
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش