0
Wednesday 14 Oct 2020 21:33

امریکی زوال کی نشانیاں اور اعداد و شمار(1)

امریکی زوال کی نشانیاں اور اعداد و شمار(1)
تحریر: سید اسد عباس

معروف امریکی فلسفی اور لکھاری نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکی زوال کی ابتدا جنگ عظیم دوئم کے بعد سے ہوچکی ہے۔ عروج اور زوال ایک وسیع مفہوم ہیں عروج کو اگر فقط مادی نگاہ سے دیکھا جائے تو مادی میدانوں میں ترقی یا تنزلی کو ہی عروج و زوال کے پیمانے کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اگر مادی کے ساتھ ساتھ معنوی اور سماجی ترقی اور تنزلی کو بھی مدنظر رکھا جائے تو عروج و زوال کے معنی بدل جائیں گے۔ خود امریکی لکھاریوں کے مطابق ان کے عروج کی بنیادیں معیشت، فوجی قوت اور ثقافتی برتری پر قائم ہیں۔ امریکہ میں بہت سے ایسے دانشور موجود ہیں، جو اس بات کے قائل ہیں کہ امریکہ زوال پذیر ہے اور موجودہ دہائی میں اس زوال میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ امریکہ کا زوال فقط ایک ریاست کا زوال نہیں بلکہ اس سے جڑے معاشی نظام اور سیاسی ادھیڑ بن کا بھی زوال ہے۔ امریکی سامراج کا عروج جنگ عظیم اول کے بعد ہوا، 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد طاقت کے طور پر ابھرا، تاہم آج خود امریکیوں کو احساس ہوچکا ہے کہ کہ ہمیں امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم ریاست بنانا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ انتخابی مہم اسی نقطے کے گرد گردش کر رہی ہے۔

نوم چومسکی امریکی زوال کی کہانی لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ بین الاقوامی منظر نامے کا قریب اور تسلسل سے مشاہدہ کرنے والے اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پچھلے پندرہ بیس سال سے عالمی معاملات پر امریکہ کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہی، جتنی اس سے پہلے تھی۔ امریکہ عالمی پولیس مین کا جو کردار ادا کر رہا تھا، اب اس میں جان نہیں رہی۔ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے ایشیاء، مشرق وسطیٰ اور افریقی ریاستوں میں جو چھوٹی بڑی جنگیں شروع کیں، اس سے اسکی فوجی طاقت اور جنگی وسائل کئی حصوں میں تقسیم ہوگئے، جس سے امریکہ نہ صرف فوجی لحاظ سے کمزور ہوا بلکہ فوجی کارروائیوں میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کی ہلاکت نے اس جنگ کی حرمت پر بہت سارے سوالیہ نشان بھی اٹھا دیئے۔ اس سے دنیا میں امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہوا اور امریکی انتظامیہ کو اخلاقی لحاظ سے بھی حزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

نوم چومسکی لکھتے ہیں: مستقبل کا امریکی صدر دنیا کو کس طرح امریکی خواہشات کے مطابق چلنے پر مجبور کرے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن حال یہ کہتا ہے کہ اب دنیا امریکہ کے اشاروں پر نہیں چل رہی۔ پاکستان سمیت دیگر بہت ساری ریاستیں جو امریکی ڈکٹیشن پر چلتی تھیں، اب اپنی آزاد خارجہ پالیسی اپنا رہی ہیں۔ دنیا unipolar سے multipolar کی سمت گامزن ہے۔ اب طاقت کا واحد مرکز صرف امریکہ نہیں رہا بلکہ روس، چین اور جرمنی بھی اپنی طاقتور معیشت اور فوج کے ساتھ میدان میں اتر چکے ہیں۔ چومسکی کہتے ہیں: یہ امریکی کمزوری ہی تھی کہ اسے ایران سے نیوکلیئر ڈیل کرنی پڑی، کیوبا سے تعلقات بحال کرنے پڑے اور یہ بھی امریکی کمزوری کی ہی مثال ہے کہ بشارت الاسد ابھی تک شام کا صدر ہے، جسے ہٹانا امریکی خواہش تھی لیکن شامی صدر کو حاصل روس اور ایران کی حمایت اس خواہش کی تکمیل کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھی اور ہے۔

پاکستان کا امریکی پریشر کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جاری رکھنے کا عزم بھی امریکی اثر سے آزادی کا ترجمان ہے۔ روس کے کریمیا پر قبضے، یورپ کو کھلی جنگ کی دھمکی اور اس سے بڑھکر CIA کے سابقہ ملازم ایڈون سنوڈون جس نے امریکی خفیہ معلومات کو دنیا کے سامنے افشاء کیا، کو پناہ دینا اور امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار پر امریکہ کا کوئی بھرپور کارروائی نہ کرسکنا بھی اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ امریکہ کمزور ہوگیا ہے۔ چین کے ساؤتھ چائنا سی میں امریکی اتحادیوں جاپان، فلپائن اور ویتنام کے اعتراض کے باوجود متنازعہ جزائر کی تعمیر پر غیر موثر امریکی ردعمل، سعودی عرب کی یمن کے خلاف یلغار اور امریکہ کی اس میں عدم شرکت، شمالی کوریا کا مغربی ممالک کی مخالفت کے باوجود اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام جاری رکھنا بھی امریکی پسپائی کی نشاندہی کرتا ہے۔

یورپ کے اکثر ممالک کا بھی امریکہ کے حوالے سے نظریہ بدل رہا ہے، ٹرمپ کا کرونا وائرس کے پھیلاو کے دوران میں یورپی شہریوں کو بین کرنا، ٹرمپ کی کرونا وائرس کو چینی وائرس قرار دینے کی کوشش جبکہ یورپ کا اس سے عدم اتفاق، جی سیون سمٹ کے دوران میں وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے امریکہ اور یورپی ممالک کے مابین اتفاق نہ ہونا۔ چین، ماحولیات اور ایران کے موضوعات پر دونوں اہم معیشتوں کی نااتفاقی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ امریکہ کے یورپی اتحادی اب پہلے جیسے اتحادی نہیں رہ گئے، جو بذات خود امریکی زوال کی نشانی ہے۔ ایک امریکی کالم نگار روزنامہ ہل میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ واشنگٹن میں تعینات یورپی سفراء سے میری غیر رسمی گفتگو میں مجھے احساس ہوا کہ یورپ اب امریکی سرکار سے ویسی مطمئن نہیں جیسے اس سے پہلے کے ادوار میں ہوا کرتی تھی۔ تجارت، ماحولیاتی تبدیلی، ایران کے حوالے سے پالیسی کے ساتھ ساتھ ٹرمپ کا یورپی یونین اور نیٹو کے حوالے سے شدت پر مبنی رویہ سبھی یورپی اقوام کے لیے پریشان کن ہے۔

یاد رہے کہ ٹرمپ اپنے خطابات میں یورپی ممالک کو دشمن اور جرائم سے پر ممالک قرار دے چکے ہیں۔ اکثر سفراء کا یہ نظریہ ہے کہ ٹرمپ کا رویہ تحکمانہ اور غیر متوقع ہے، جس کا علاج یہی ہے کہ وائٹ ہاوس سے دور رہا جائے اور امریکی ریاستوں سے براہ راست کاروبار کیا جائے۔ یورپی سفراء کا کہنا ہے کہ اگر ایک مرتبہ پھر ٹرمپ برسر اقتدار آیا تو یورپ اور امریکہ کے تعلقات نہایت برے ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں امریکہ کی جگہ روس اور چین لے سکتے ہیں۔ یورپی سفراء بائیڈن حکومت سے بھی زیادہ پرامید نہیں ہیں، ان کی نظر میں جب تک امریکہ میں ایک جمہوری حکومت نہیں آتی اور امریکہ کا یورپ کے حوالے سے رویہ تبدیل نہیں ہوتا، اس وقت ان تعلقات میں بہتری کی گنجائش بہت کم ہے۔ امریکہ میں مقیم یورپی سفراء کی یہ گفتگو اس امر کی نشاندہی کر رہی ہے کہ امریکہ کے لیے دنیا اب ویسی نہیں رہ گئی، جو گذشتہ دہائیوں میں تھی۔ حال ہی میں اقوام متحدہ میں امریکہ کو اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اپنے فیصلوں اور خواہشات میں تنہا ہے۔ فلسطین کے مسئلہ پر بھی یورپی یونین کے اکثر ممالک کا فیصلہ امریکی فیصلے کے خلاف تھا، اسی طرح ایران پر دوبارہ پابندیوں کے حوالے سے بھی امریکہ کو عالمی فورم پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جو اس کے زوال کی واضح نشانی ہے۔

نوم چومسکی کے علاوہ بہت سے دیگر امریکی مفکرین نے امریکی زوال کے شواہد پر مشتمل کتب اور مقالات تحریر کیے ہیں، جن میں جیمز پیٹراس، فرید زکریا، ڈیوڈ رینی، الفرڈ میکائے اور کرسٹوفر لین جیسے افراد شامل ہیں۔ کرسٹوفر امریکی زوال کی کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ 2020ء اور 2030ء کے درمیان چین کا عسکری ڈھانچہ، ڈاکٹرائن، وسائل اور ہتھیاروں، نفری اور تربیت کے لحاظ سے امریکہ کے برابر ہو جائے گا۔ ان کے مطابق انہی برسوں کے دوران مشرقی ایشیاء کے علاقے میں امریکہ کا تسلط شدت سے کم ہو جائے گا۔ لین کا کہنا ہے کہ گذشتہ عشروں کے دوران امریکی معاشی قوت میں کمی آنے اور دوسری طرف سے چین کی معاشی قوت میں اضافے کی نشانیاں اس سے کہیں زیادہ واضح اور عیاں تھیں کہ انہیں نظرانداز کیا جاسکے۔ عظیم کساد بازاری کے آغاز سے لے کر اب تک چین تسلسل کے ساتھ برآمدات، تجارت اور پیداوار کے لحاظ سے پہلے درجے کے ممالک میں شامل ہے۔ سنہ 2014ء میں عالمی بینک نے یہ اعلان کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا کہ "چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت میں تبدیل ہوا ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 892077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش