0
Friday 16 Oct 2020 13:30

کارکردگی کا بحران اور لرزتی عمرانی حکومت

کارکردگی کا بحران اور لرزتی عمرانی حکومت
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

نوے کی دہائی میں ہوش سنبھالنے والی نسل جانتی ہے کہ کیسا سیاسی افرا تفری کا ماحول تھا؟ ایک عام آدمی بھی جانتا تھا کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ حکومت چلی جائے گی یا اب یہ حکومت مزید مستحکم ہو جائے گی۔ الیکشن سے پہلے ہی لوگ جانتے ہوتے تھے کہ کون جیت جائے گا اور کس کی قسمت میں ہار آ ئے گی۔ سیاستدانوں کو کافی وقفے سے اقتدار ملا تھا، وہ لوگ جو پہلے اقتدار میں رہ چکے تھے، اب بوڑھے ہوچکے تھے، اس لیے جذباتیت اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہو جاتے تھے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد ضیاء الحق کے دور کی ہی پیداوار تھے۔ کوئی ضلع کونسل کا چیئرمین بنا تھا اور پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا تھا، اس لیے وہ لوگ آمریت ہی کی گود سے ہی نکلے تھے۔ ویسے جب سیاستدانوں کے لیے سارے راستے بند کر دیئے جاتے  ہیں تو وہ موجود راستوں پر چل کر بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر بڑا آمریت کا دور ایک جمہوری لہر کو جنم دیتا ہے۔ ایوب خان کی آمریت کا دور کافی طویل تھا، اس جبر کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی تھی۔ اس کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کی کارکردگی کو مختلف پیمانوں پر زیر سوال رکھا جا سکتا ہے، مگر اس جماعت نے پاکستان میں جمہوریت کو آگے بڑھانے میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا بلکہ کر رہی ہے۔

نواز شریف بھی پنجاب کی سیاست و حکومت میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں آئے اور اس کے بعد نوے کی دہائی میں پی پی کی ناک میں دم کیے رکھا۔ ہر جماعت دو اڑھائی سال تک ہی حکومت کر پاتی اور اس کے بعد دھڑم تختہ ہوتا۔ یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا دور شروع ہوگیا۔ یہاں سیاستدانوں نے تھوڑی سی خود احتسابی کی اور سوچا کہ ہم آپس میں لڑ رہے ہوتے ہیں، کسی کو پرسکون حکومت نہیں کرنے دیتے اور نتیجہ میں جمہوریت مخالفت قوتیں اپنا کھیل کھیلتی ہیں اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے۔ ان جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ایک بہترین فیصلہ کیا، جو جمہوری قوتوں کی بقاء اور ان کے استحکام کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں جو بھی حکومت قائم ہو جائے گی، وہ قائم رہے گی اور اسے پانچ سال پورا کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں  پہلے پی پی اور بعد میں مسلم لیگ نون نے اپنی حکومت پوری کی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پچھلے بارہ سال سے مسلسل الیکشن سے منتخب حکومتیں قائم ہیں۔

عمران خان صاحب سامنے آئے اور انہوں نے نوے کی سیاست والا کردار دوبارہ زندہ کر دیا۔ وہ ہر روز ملک کی حکومت گرا کر سویا کرتے تھے، میڈیا کے ایک بڑے حصے نے براہ راست فریق بن کر عمران خان صاحب کی سپورٹ کی اور انہیں بے تحاشہ کوریج دی گئی۔ خاص انتظام کے تحت عمران خان صاحب الیکشن جیت گئے اور دو سال سے حکومت میں ہیں۔ اپوزیشن نے پہلے دو سال انتہائی پرسکون انداز میں گزارے، یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ملک میں اپوزیشن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، بلکہ ایک وقت تو ایسا آیا تھا کہ ملک کے منتخب وزرائے اعظم جیل میں تھے۔ یوں حکومت مسلسل اپوزیشن کو نیب کے ذریعے دباو میں رکھنا چاہتی ہے اور جو بھی میڈیا پر دو بیانات حکومت کی مخالفت میں دیتا ہے، اسے نیب کا نوٹس پہنچ جاتا ہے۔ اس سے صرف مولانا فضل الرحمن کو استثنیٰ حاصل ہے، وہ حکومت اور اس کے سپورٹرز کے شدید ناقد ہیں، مگر اس کے باوجود نیب نوٹس جاری کرنے کے بعد واپس لیتی ہے۔

یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ عوام بالخصوص نوجوانوں نے عمران خان کو  تبدیلی کے عزم کے ساتھ ووٹ دیئے تھے، بیرون ملک موجود پاکستانیوں نے بے تحاشہ کمپین چلائی تھی، جس کا انہوں  فائدہ بھی پہنچا کہ پہلے وہ ہزار ڈالر بھیجتے تھے تو ایک لاکھ بنتا تھا، اب وہ ایک ہزار ڈالر بھیجیں تو ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ رقم بن جاتی ہے۔ عمران خان صاحب سے کاکردگی کی توقع کی جا رہی تھی، مگر حکومت ملنے کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ ان کی حکومت کی ذرہ برابر تیاری نہیں تھی، یہ تو ایک حادثاتی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ لوگوں نے اپیلیں کیں کہ انہیں تین ماہ کام کرنے دیا جائے، کچھ نے چھ ماہ کہا۔ الغرض اڑھائی سال ہونے والے ہیں اور مہنگائی و بیروزگاری کا طوفان آیا ہوا ہے۔ حالات تو پہلے ہی سونامی والے تھے، رہی سہی کسر کرونا کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں نے نکال دی اور معیشت کی چولیں ہلنے لگیں۔

وہ پاکستان جس میں ہر روز بڑے بڑے منصوبوں کا افتتاح ہو رہا تھا، اس میں زیرو پوائنٹ اسلام آباد کے ساتھ ایک انٹر چینج بننے میں دو سال لگ گئے۔ وہ ہسپتال جہاں سے گردوں کی دوائیاں مفت مل رہی تھیں، جہاں ٹسٹ انتہائی کم ریٹس پر ہو رہے تھے، تبدیلی کے بعد مفت دوائیاں خواب ہوگئیں بلکہ حکومت اتنی نااہل ثابت ہوئی کہ اسے دوائیاں دستیاب کرنے کے لیے ان کے ریٹس دو سو فیصد تک بڑھانے پڑے اور یہ لاجک اہل پاکستان کو پہلی بار معلوم ہوئی کہ اس طرح بھی قیمتیں بڑھائی جاسکتی ہیں۔ ٹماٹر ڈیڑھ سو روپے کلو تک پہنچ گیا اور آٹا اسی روپے کلو تک پہنچ گیا۔ آئل، دالیں غرض کھانے کی تمام اشیاء کی قیمتیں ڈبل سے بھی زیادہ ہوگئیں۔ یہ شائد پہلی حکومت ہے کہ اس نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مختلف حیلے بہانوں سے کٹوتیاں تو کیں، تنخواہیں بڑھائی نہیں۔ عام آدمی اور مڈل کلاس کے لیے حالات ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔

میری یہ رائے ہے کہ ووٹوں کا پروسس جیسا بھی رہا، اس کے نتیجے میں بننے والے حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہیئے۔ کسی بھی جماعت یا گروہ کو اسے نہیں گرانا چاہیئے۔ مگر حالات اس تک خراب ہوچکے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے جلسے جلوس نہ بھی کیے تو بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سرکاری ملازمین کی طرح لوگ خود سے اس حکومت کے خلاف احتجاج کرنے لگیں گے۔ لوگوں کو شائد پی پی اور مسلم لیگ نون اور دیگر سے محبت نہیں ہے، مگر وہ کارکردگی کے بحران میں مبتلا پی ٹی آئی حکومت سے تنگ ضرور آچکے ہیں۔ اپوزیشن کے جلسوں میں کنٹینر فراہم کرنے کا کہنے والے ہمارے محترم وزیراعظم صاحب نے کنٹینرز تو فراہم کیے ہیں، مگر وہ کسی اور مقصد کے لیے ہیں۔ جو بھی لوگ احتجاج کرنا چاہتے ہیں، انہیں اسی طرح احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے، جیسے آپ کو ڈی چوک پر قبضہ کرکے کئی ماہ تک دھرنا دینے کا حق حاصل تھا۔ دل کو بڑا کریں اور ان آوازوں کو سنیں، اپنی کارکردگی بڑھائیں، تاکہ آپ کا دفاع کرنے والوں کے پاس کچھ بتانے کے لیے ہو۔
خبر کا کوڈ : 892357
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش