QR CodeQR Code

مسئلہ فلسطین اور سعودی عرب کے قول و فعل میں تضاد

16 Oct 2020 22:35

اسلام ٹائمز: سعودی وزیر خارجہ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ وہ کیسے فلسطینی رہنماوں سے اسرائیلی حکام کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی توقع رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مقبوضہ فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ مرحلہ وار بڑھاتی جا رہی ہے؟ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھنا، امریکی سفارت خانے کی قدس شریف منتقلی، اسرائیلی کینسٹ میں یہودی سرزمین کے قانون کی منظوری ایسے بے شمار اقدامات کی چند مثالیں ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل اور 1967ء والی سرحدوں پر مشتمل آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر اقوام متحدہ کے نمائندے نیکولائے میلاڈونوف نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔


تحریر: رضا محمد مراد
 
سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے جمعرات کے دن واشنگٹن تھنک ٹینک کی جانب سے منعقدہ آنلائن کانفرنس سے بات چیت کرتے ہوئے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے سے متعلق کہا: "موجودہ حالات میں خطے کی پہلی ترجیح اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی ہے۔" بن فرحان نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن اور ہمیشگی استحکام اور سکون کے قیام کا واحد راستہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مفاہمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا ریاض کا آخری مقصد ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے 1981ء میں سعودی عرب کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے راہ حل پر مبنی پیش کردہ منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہماری پہلی ترجیح فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا ہونی چاہئے۔"
 
انہوں نے مزید کہا: "ہمیشگی امن اور استحکام کے قیام کا واحد راستہ دونوں فریق کے درمیان مفاہمت کا حصول ہے۔ اگر یہ مفاہمت حاصل نہ ہوئی تو ہم خطے میں اس کھلے زخم کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔" سعودی وزیر خارجہ کا یہ موقف اس حقیقت کا واضح اعتراف ہے کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا اصلی ترین مسئلہ ہے اور اسے حل کئے بغیر خطے میں امن اور استحکام ممکن نہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسیاں اور اقدامات اس موقف سے واضح تضاد رکھتے ہیں۔ یہ تضاد اس وقت مزید گہرا ہو گیا جب شہزادہ محمد بن سلمان نے بغاوت والے انداز میں اپنے اقتدار میں بے پناہ اضافہ کر لیا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کی سرتوڑ کوششوں کا آغاز کر دیا۔
 
سعودی حکمرانوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے راہ حل کے طور پر پیش کردہ منصوبے سینچری ڈیل کی حمایت کے بعد دیگر عرب ممالک پر اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کیلئے دباو ڈالنا شروع کر دیا۔ جب سے شہزادہ محمد بن سلمان نے ولیعہد کا منصب سنبھالا ان کی سربراہی میں سعودی میڈیا اور پروپیگنڈا مشینری نے اسرائیل کی بجائے ایران کو خطے اور عالم اسلام کے دشمن کے طور پر متعارف کروانا شروع کر دیا۔ یہ عمل بھی درحقیقت سینچری ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مقدمات فراہم کرنے کی غرض سے انجام دیا گیا تھا۔ یوں سعودی میڈیا نے مسلم رائے عامہ کی توجہ اسلامی دنیا کے اصل دشمن اسرائیل سے ہٹا کر ایران کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی اور اس طرح عالم اسلام کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کیلئے تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔
 
گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے سابق انٹیلی جنس سربراہ بندر بن سلطان نے العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فلسطین کے سیاسی رہنماوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے فلسطینی رہنماوں کو نالائق اور حتی غدار کی حد تک قرار دیا۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات نے بندر بن سلطان کے اس موقف کو بنیاد بنا کر اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی توجیہات پیش کیں اور فلسطینی رہنماوں پر الزام عائد کیا کہ وہ نمک حرام ہیں۔ اگرچہ بندر بن سلطان نے فلسطینی گروہوں کے اندر سعودی عرب کے اثرورسوخ کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کی جانب سے ناراضگی کا اظہار اور فلسطینی رہنماوں کو غدار قرار دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حتی سعودی نواز فلسطینی رہنما بھی سینچری ڈیل کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔
 
سعودی وزیر خارجہ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ وہ کیسے فلسطینی رہنماوں سے اسرائیلی حکام کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی توقع رکھتے ہیں جبکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مقبوضہ فلسطین پر اپنا غاصبانہ قبضہ مرحلہ وار بڑھاتی جا رہی ہے؟ مشرقی بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھنا، امریکی سفارت خانے کی قدس شریف منتقلی، اسرائیلی کینسٹ میں یہودی سرزمین کے قانون کی منظوری ایسے بے شمار اقدامات کی چند مثالیں ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے حل اور 1967ء والی سرحدوں پر مشتمل آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے پر اقوام متحدہ کے نمائندے نیکولائے میلاڈونوف نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔
 
اقوام متحدہ کے نمائندے نے یہودی بستیوں کی تعمیر کو قیام امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کی جانب سے دو ریاستوں پر مبنی راہ حل نابود ہو جائے گا۔ کیا وجہ ہے کہ سعودی حکمران غاصب صہیونی رژیم پر غیر قانونی اقدامات روکنے کیلئے دباو ڈالنے کی بجائے فلسطینی رہنماوں اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ممالک اور گروہوں خاص طور پر ایران، عراق، یمن، شام، حزب اللہ لبنان اور فلسطینی گروہوں کو شدید دشمنی کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو سعودی عرب کو اپنی ایران مخالف پالیسیوں میں امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی قرار دے رہا ہے؟ کیا سعودی وزیر خارجہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ اوسلو مذاکرات سے آج تک انجام پانے والے امن مذاکرات کا واحد نتیجہ فلسطینیوں کی حق تلفی اور اسرائیل کی گستاخی میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے؟


خبر کا کوڈ: 892450

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/892450/مسئلہ-فلسطین-اور-سعودی-عرب-کے-قول-فعل-میں-تضاد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org