0
Friday 16 Oct 2020 20:32

سورہ حجرات کی چند آیتیں اور موجودہ دور میں  معاشرہ سازی(2)

سورہ حجرات کی چند آیتیں اور موجودہ دور میں  معاشرہ سازی(2)
تحریر: فدا حسین بالہامی

رسول اللہ کے ساتھ گفتگو کے آدابِ:
 سورہ حجرات کی پہلی آیت میں رب العزت مومنوں کو رسول اللہ کے آگے پیش قدمی کرنے سے منع کرتا ہے اور اگلی دو تین آیتوں میں آدابِ گفتگو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ”ایمان والو! خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، کہیں ایسانہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔ بے شک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقوایٰ کے لئے آزما لیا ہے اور انہیں کے لئے مغفرت اور اجر ِعظیم ہے۔ بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں، ان کی اکثریت کچھ بھی نہیں سمجھتی ہے۔"(سورہ حجرات آیت ۔۔۲۔۳۔۴)

ایک اہم سوال:
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں رسولِ کریم سے آگے قدم بڑھانے سے اہل ِ ایمان کو روکا گیا ہے اور اگلی تین آیتوں میں انہیں اس بات سے تاکیداً آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی آواز کو رسول اللہ کی آواز پر بلند نہ کرے۔ ان آیات کا شانِ نزول اپنی جگہ، اگر آج ہم ان آیاتِ کریمہ کو ظاہری اور لغوی معنی پر ہی محمول سمجھیں گے تو کیا یہاں پر یہ سوال پیدا نہیں ہوگا کہ نہ ہی موجودہ دور میں اہلِ ایمان کے لئے یہ ممکن ہیں کہ وہ اپنے قدموں کو پیغمبر اکرم کے قدموں سے آگے بڑھا سکیں اور نہ ہی اپنی آواز کو آپ کی آواز پر بلند کرسکتے ہیں، کیونکہ اس وقت بظاہر آپ کے ساتھ ہم قدم ہونا خارج از امکان ہے اور آپ کے ساتھ ہمکلام ہونا محالِ عادی ہے۔ تو کیا ان آیتوں کا اطلاق دورِ نبوی کے مومنوں تک ہی محدود تھا اور کیا یہ حکمِ تنبیہ موجودہ دور یا آنے والے ادوار کے لئے اپنے آپ ہی ساقط ہو جاتا ہے۔؟

بلاشبہ ان آیات کا ایک شانِ نزول ہے اور اس کے مطابق ان آیات کا ظاہری معنیٰ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کی معنویت جاتی رہی۔ دراصل قرآن ِکریم معجزانہ کلام ہے۔ جس کی معنویت ہر آنے والے دن کے ساتھ دوبالا ہو جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ان آیات کریمہ کے الفاظ شانِ نزول کے اعتبار سے اپنی حقیقی اور لغوی معنیٰ میں بھی موردِ اطلاق تھے اور موجودہ دور میں بھی بطورِ استعارہ موثر اور قابلِ عمل ہیں۔ اسے کلامِ مجید کا اعجاز ہی کہا جائے گا کہ ایک ساتھ اس کے الفاظ اصلی اور لغوی معنی میں بھی استعمال ہوئے ہیں اور بطورِ استعارہ بھی مستعمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کل فخرِ کائنات کے ساتھ ہمقدم ہونے والوں کے شرف یابی کا تقاضا اگر یہ تھا کہ وہ اپنا قدم رسول اللہ کے آگے نہ دھریں تو ساتھ ہی ساتھ اس بات کی طرف بھی لطیف اشارہ تھا کہ اس آیت سے مراد فقط قدم آگے بڑھانا ہی نہ تھا بلکہ عمل کے اعتبار سے کسی بھی مومن کا اللہ اور رسول سے پیش قدمی نہ کرنا بھی ہے۔

اگلی تین آیتیں بھی ذو معنی ہیں۔ بطور مجموعی پہلی آیت میں فعلی اعتبار سے اور دیگر تین آیتوں میں قولی اعتبار سے مومنوں کو اسی دائرے میں محدود رہنے کی تاکید ہے کہ جو دائرہ اللہ تعالیٰ نے تاجدارِ انبیاء کی سیرت و کردار اور گفتار و رفتار کے ذریعے کھینچا ہے۔ پس یہ بات طے ہوئی کہ موجودہ دور کے یا آئندہ ادوار کے مومن و مسلمان ہرگز ہرگز سورہ حجرات کی ان ابتدائی آیات کے حکم سے مثتثنیٰ نہیں ہیں اور وہ بھی اس ناقابلِ معافی گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ زیر نظر آیاتِ مبارکہ کے ذریعہ آگاہ کر رہا ہے اور اسے بچنے کی تاکیدی حکم دے رہا ہے۔

اسلام یعنی تابعداری و فرمانبرداری:
سورہ حجرات کی ان آیات کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہر دور کے مومن و مسلمانوں رسولِ اکرم کے ہر اعتبار سے مطیع و فرمانبردار ہوں۔ یقیناً فرمانبرداری اور قوانین و اصول کی پاسداری ایک ایسی نعمت ہے کہ جسے معاشرہ انتشار و انارکی کا شکار ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ بدیہی امر ہے کہ جس ملک و قوم کے افراد اصول و اقدار کے جس قدر پاسدار ہوں، اسی قدر وہ ملک و قوم پرسکوں اور امن و امان کے مظہر ہوگا، کیونکہ جہاں تابعداری کا فقدان ہو، وہاں آپس میں کشمکش، رنجش اور ٹکراو کا پیدا ہونا ایک قدرتی بات ہے اورر معاشرتی بگاڑ کے پیچھے خودسری اور انانیت کا کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمانبرداری کا مادہ جس شخص میں نہ ہو، وہ ہرگز ایک کامیاب معاشرتی انسان نہیں ہوسکتا ہے۔

دراصل حبِ ذات (یعنی اپنی ذات کے ساتھ محبت) اور حبِ جاہ یعنی اپنے تئیں شان و شوکت اور اقتدار و اختیار کی فطری طلب ہر فرد میں کم و بیش پائی جاتی ہے۔ نتیجتاً ہر شخص اپنے آپ کو دیگر افراد پر مقدم جانتا ہے اور اپنی رائے کو حرف ِآخر سمجھتا ہے۔ لیکن دین اسلام اسی فطری خواہش کو بے لگام نہیں چھوڑتا بلکہ ایک مومن کو اصول و اقدار اور امیر و رہبر کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی تربیت کرتا ہے۔ جس سے بقائے باہمی کی راہیں ہموار ہوتی ہے اور لوگوں میں باہمی تعلقات مستحکم بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ یہاں تسلیم و اطاعت کا ایک سلسلہ ہے، جو ہر فرد بشر تک جا پہچتا ہے اور اس حدیث رسول کے مطابق ہر مسلمان بیک وقت امیر بھی ہے اور تابع بھی ہے۔ جس میں آپ نے فرمایا ”الا کلکم راع و کلکم مسولخبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق باز پرس ہوگی۔ لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو، وہ ان کا نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی اور عورت اپنے شوہر کے گھر اس کی اولاد کی نگہبان ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔(سنن ابو داوود جلد سوم باب ۔۔امام پر رعایا کے حقوق لازم ہیں، حدیث نمبر ۸۲۹۲)

یعنی ہر فرد کو چھوٹے بڑے پیمانے پر بحیثیت مسئول امیری دی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ کسی کا مطیع بھی ہے۔ لہذا رضا جوئی اور تسلیم و اطاعت فقط عوام کی زینت ہی نہیں بلکہ اصول و قوانین اور شریعت کے سامنے حکمران، امیر اور رہبر و رہنماء کی ذاتی رائے اور من مانی بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ جہاں حاکم و امیر کو یہ گمان ہو کہ وہ اصول و اقدار اور قوانین سے بالا تر ہے اور اس کی کسی بھی غلطی اور جرم کی گرفت نہیں ہوسکتی ہے، وہاں مطلق العنانیت سر اٹھاتی ہے اور مطلق العنانیت چاہے سیاسی ہو یا فکری، مزاجِ دین اسلام کے ساتھ ہرگز میل نہیں کھاتی۔ اسلامی نظریہ حکومت و انتظام کی یہی سب سے بڑی خوبصورتی ہے کہ وہ صاحبِ اختیار و اقتدار کو بھی مطیع و فرمانبردار بناتا ہے، بلکہ جس مومن کو جتنی بڑی امارت و مسئولیت دی گئی ہو، اسے اطاعت شعاری میں بھی اسی قدر بلند معیار اور پختہ کار ہونا لازمی ہے۔
خبر کا کوڈ : 892452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش